Type to search

تلنگانہ

اکیسویں صدی کے تقاضے کیا ہیں؟

اکیسویں صدی کے تقاضے

قلم کلامی : امام علی مقصود شیخ فلاحی


آج جس پٹری پر ہماری زندگی کی ریل رواں دواں ہے اور جس صدی کے پلیٹ فارم پر ہماری منزل ہے اس منزل تک کی رسائی کرنا کافی دشواری محسوس ہو رہی ہے۔ کیوں کہ حال ہی میں ایک جان لیوا مہاماری نے جنم لیا ہے جس مہا ماری سے بچہ بچہ واقف ہے۔ جسکے قہر نے پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے ، وہ ممالک جو اپنے آپ کو سپر پاور کہتے تھے وہ بھی گٹھنے ٹیک دیئے ہیں ، وہ جگہیں جہاں ہمیشہ چہل پہل ہوا کرتی تھیں اب سمسان گھاٹ میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔

جس بیماری نے لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل بناچکی ہے ، جس بیماری نے تعلیم گاہوں پر تالا لگا بیٹھی ہے، جس بیماری نے بھوک مری کی پرورش کی ہے ، جس بیماری نے وطن عزیز کو معیشت کے بلندی سے اتار کر بھوک مری کے گڑھے میں لاکھڑا کی ہے ،آج وہی بیماری دنیا کے سامنے سوالیہ نشان بنی کھڑی ہے. کہ ہے کوئی جو میرا مقابلہ کرے ، ہے کوئی جو مجھے ہرا سکے ، ہے کوئی جو میرا علاج لاسکے ۔

قارئین ! اگر ذرا غور کیا جائے اور تاریخ کے اوراق کو کھنگھالا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر دور میں لوگوں نے کسی نہ کسی چیلنج کو قبول کیا ہے اور ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی مہاماری نے جنم لیا ہے جیسے

جسٹینن طاعون
اس وبا کو تاریخ کا اب تک کا سب سے مہلک مرض سمجھا جاتا ہے۔ اس بیماری کا آغاز چھٹی صدی میں مصر میں ہوا جو تیزی سے مشرقی رومن سلطنت میں پھیل گیا۔ اس طاعون کا نام مشرقی رومن سلطنت کے اس وقت کے شہنشاہ جسٹینی کے نام سے جیسٹن طاعون کے نام پر رکھا گیا تھا۔

اس وبا کی گرفت میں تقریبا 100 ملین افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس وقت رومن سلطنت نے بحیرہ روم کے ساحل پر اٹلی ، روم اور شمالی امریکہ سمیت ساحل کا احاطہ کیا تھا۔ مشرقی رومن سلطنت 750 عیسوی تک طاعون کے مستقل پھیلنے سے معاشی طور پر کمزور ہوگئ۔

رومن سلطنت کا طاعون ختم ہونے تک ، سلطنت نے یورپ میں جرمنی بولنے والے فرانکس کا علاقہ کھو دیا تھا اور مصر اور شام عرب سلطنت کے زیر اقتدار آچکے تھے۔

کالی موت
موت کی بھی ایک خوفناک وبا ہے۔ چودہویں صدی کے دوران ، اس وبا کا اثر بڑے براعظموں جیسے یورپ اور ایشیاء میں جاری رہا۔ تاریخ گواہ ہے کہ کالی موت نے انسانی تہذیب کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ بلیک ڈیتھ میں لگ بھگ 7.5 سے 200 ملین افراد ہلاک ہوئے۔

بلیک ڈیش 1340 کی دہائی کے اوائل کا ہے۔ چین ، ہندوستان ، شام اور مصر اس وبا سے بہت متاثر ہوئے تھے اور سن 1347 تک یہ مرض یورپ میں پھیل چکا تھا۔ بلیک ڈیتھ کی وجہ سے یورپ کی 50 فیصد آبادی ختم ہوگئی۔

اس وبا کے لئے یورپ کے یہودیوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا اور یوں ہی یورپ میں یہودیوں پر ظلم و ستم شروع ہوا۔ بلیک ڈیتھ کے بعد، کیتھولک چرچ کا اثر و رسوخ ختم ہوگیا تھا اور خدا کے ساتھ لوگوں کے تعلقات کو چیلنج کیا گیا تھا۔

ہسپانوی فلو
پہلی عالمی جنگ کے آخری مرحلے کے دوران ہسپانوی فلو وبائی کا اثر تھا. یہ 20 ویں صدی کی سب سے مہلک وبائی بیماری تھی جس میں قریب پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ہسپانوی فلو پہلے یورپ میں دیکھا گیا اور بعد میں یہ تیزی سے امریکہ اور ایشیا میں پھیل گیا۔

اس کے علاوہ ہندوستان میں بھی ہسپانوی فلو نے تباہی مچا دی۔ اس وقت ملک میں اس وبا کی وجہ سے قریب 1.7 سے 18 ملین افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے نتائج پر اس وبا کا سب سے زیادہ اثر ہوا۔ عالمی جنگ میں شامل دونوں اطراف کے لوگ فلو سے ہلاک ہوئے تھے لیکن جرمن اور آسٹریا کی فوجیں اس سے سب سے زیادہ متاثر تھیں۔

لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان‌ تمام بیماریوں کو اپنے اپنے وقت کے نوجوانوں نے اسے نیست و نابود کر دیا اور اس بیماری کا نام و نشان تک مٹادیا اور پھر ایک بہترین شہری کا شرف بھی حاصل کیا۔

بہر کیف
جب بھی کسی چیز کا تقاضہ آیا ہے تو وقت کے ماہرین نے اسے بحسن خوبی انجام تک پہنچایا ہے۔
قارئین ! آج جس صدی میں ہم‌ اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں اور جس دور کا ہم لبادہ اوڑھے بیٹھے ہیں یہ دور سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے، ہر چیز کا تعلق ٹکنالوجی سے ہوچکا ہے ، کھانے سے لیکر پینے تک چلنے سے لیکر بیٹھنے تک۔

کیونکہ کھانے پینے کے ساز و سامان، سفر و حضر کے آلات، پیسوں کے لین دین ، گھروں کے خرید و فرخت سارے آن لائن ہورہے ہیں ہیں۔
تعلیمی سرگرمیاں، رائے مشورے سارے براہ راست ہو رہے ہیں۔
معلوم ہوا کہ جس دور میں ہم اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں وہ دور سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے۔
اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب بھی کسی مہاماری نے آنکھ اٹھائی ہے تو وقت کے ماہروں نے اس کی آنکھیں پھوڑ دی ہیں ، جب بھی کسی جان لیوا بیماری نے جنم لی ہے تو لوگ اس بات کے متقاضی ہوئے ہیں کہ اسے جلد از جلد ختم کیا جائے، غرض یہ کہ جب بھی کوئی بڑی وباء لوگوں کے درمیان آئی ہے تو وہ وقت کا تقاضہ بن کر ابھری ہے اور لوگوں نے اسے بوجوہ احسن خاتمہ کا لبادہ اوڑھایا ہے ۔

قارئین !
ابھی چند دنوں قبل وزیر اعظم نریندرمودی نے کہا ہے کہ ہمیں اپنے طلباء کو اکیسویں صدی کے تقاضے کے مطابق آگے بڑھانا ہے ۔

بے شک اکیسویں صدی کے بے شمار تقاضے ہیں مثلاً : بھوک مری – ہر شخص اس بات کا متقاضی ہے کہ کسی بھی طرح ملک عزیز سے بھک مری کا خاتمہ ہو جائے۔

اچھی تعلیم کا تقاضہ – ہر طالب علم اس بات کا خواہاں ہے کہ اسے اچھی تعلیم حاصل ہو ، اچھے اسکول میں داخلہ ہو ، پھر اچھا انجینر اور اچھا ڈاکٹر تیار ہو۔

روزگاری مہیاء ہو – آج بڑے ہی ماہر و کامل افراد بھی کھیتی کر رہے ہیں یا اپنے پیشے سے ہٹ کر کوئی دوسرا کام کر رہے ہیں جیسے ایک بی ایس سی کا طالب علم صابن وغیرہ کی خرید وفروخت کر رہا ہے جس کی وجہ سے بے روزگاری کافی پھیلتی جارہی ہے۔

اچھی ٹکنالوجی کا تقاضہ – آج اس مہاماری کے سبب تعلیمی سرگرمیاں بھی آن لائن جاری ہیں ، لیکن میں انگشت بدنداں ہوں کہ پورا ملک بلکہ پوری دنیا سائنس و ٹیکنالوجی پر ٹکی ہوئی ہے لیکن آج جب ان لائن تعلیم ہوتی ہے تو بے شمار دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مثلاً : کبھی نیٹ ورک کی دقت تو کبھی کوئی اور دقت ۔

بہر حال عصر حاضر میں تو بے شمار چیزوں کا تقاضہ ہے

لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج سب سے زیادہ جس چیز کا تقاضہ ہے وہ ہے کورونا وائرس کا خاتمہ ، اس سے نپٹنا از حد ضروری ہے، کیوں کہ یہ بات مسلم ہے کہ ایک اچھا شہری بننے کے لئے صحت کا تندرست ہونا ضروری ہے، اگر صحت تندرست ہوگی تو روزگاری درست ہوگی اور جب روزگاری درست ہوگی تو حصول تعلیم میں بھی کافی مدد ملے گی اور جب تعلیم صحیح ملے گی تو بقول سقراط حکمرانی تمہاری پا بوسی کرے گی اور تم بہترین حکمراں بن سکو گے‌ اور جب بہترین حکمراں بن جاؤ گے تو اچھے شہری ہونے میں بھی سر فہرست رہو گے ۔

غرض یہ کہ اچھا شہری بننے کے لئے تعلیم کا سرفہرست ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ صحت کا تندرست ہونا ضروری ہے۔

لہذا ! دور جدید میں سب سے بڑا تقاضہ یہ ہے کہ اس مہاماری کو نیست و نابود کیا جائے، اگر اس بیماری کو تہس نہس نہیں کیا گیا تو سب کچھ بیکار ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی بیماری ہے جسکا اثر الف سے لیکر یاء تک ہر چیز پر پڑ رہا ہے، مسجد ہو یا خانقاہ ، مکتب ہو یا مدرسہ، پرایمری ہو یا اسکول ، کالج ہو یا یونیورسٹی کمپنی ہو یا فیکٹری دکان ہو یا مکان غرض یہ کہ یہ بیماری ہر چیز کو متاثر کر رہی ہے، یہ ایک ایسی بیماری ہے جسکے لپیٹ میں تو شخصیات نے بھی اور بڑے بڑے ڈاکٹروں نے اپنی جان گنوا بیٹھی ہے ۔

اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا تقاضہ کورونا وائرس کے خاتمے کا ہے، اگر اسے ختم کر دیا گیا تو ساری چیزیں بحال ہوجائیں گی پھر صحت بھی تندرست رہے گی ، روزگاری بھی برقرار رہے گی ، تعلیمی سرگرمیاں بھی رواں دواں رہیں گی۔


 نوٹ: اس مضمون کو امام علی مقصود شیخ فلاحی نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔

Tags:

You Might also Like

2 Comments

  1. Noor Mujassam September 15, 2020

    Nice Imam Ali Bhai

  2. Imam Ali Falahi September 16, 2020

    Thanks
    Noor e mujassam bhai