Type to search

تلنگانہ

وطن کی آزادی میں اردو صحافت کا کردار

ازقلم: امام علی فلاحی ۔

متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن،
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد ۔


افراد سے اقوام کی تشکیل ہوتی ہے، فرد اور قوم دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں، کیونکہ فرد کے بغیر قوم کا تصور ممکن نہیں ہے، کسی بھی قوم کے شعور کی بیداری میں اس عہد کے ماحول اور ادب دونوں کا بڑا حصہ ہوتا ہے، جب ہم 1857ء کے پس منظر میں اس عہد کے پر آشوب حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اخبارات نے ہندوستانی عوام و خواص کو ایک پلیٹ فارم پر لانے اور ملکی شعور کو ایک خاص تحریک کے جانب راجع کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

خورشید عبد السلام کے مطابق ابتدائی دور میں اردو اخبارات کا لب و لہجہ نرم اور مصلحت وقت کے تابع تھا اور زیادہ تر اخبارات کی توجہ سیاست کی جگہ مغربی علوم و فنون کے اشاعت پر مرتکز تھی۔

ملکی حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں سے نکل کر جب تاج برطانیہ کے زیر نگرانی آگئی تو حکمراں طبقے کے طرز عمل کچھ بہتری آئی اور اخبارات بھی ملکی مسائل پر دبی ہوئی زبان میں راے زنی کرنے لگی۔
(بحوالہ: صحافت پاکستان و ہند۔ خورشید عبد السلام).

بہر کیف! جب برطانوی حکومت نے ہندوستان میں اپنا پرچم لہرا دیا اور یہاں کے لوگوں پر حکومت کرنے لگی تو ہندوستانی باشندے پریشان ہوگئے، یہاں کے لوگوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جانے لگے، جسکی وجہ سے لوگ اپنے غصے کا اظہار مختلف انداز میں کر رہے تھے اور حکومت سے باغی ہو چکےتھے‌ اور یہ باغیانہ جنون دن بہ دن بڑھتا جا رہا تھا۔ برطانوی حکومت کے ظلم و ستم بڑھنے کے باعث ملک کے دانشوروں، عالموں، شاعروں، مفکروں اور وطن پرستوں نے یہ محسوس کیا کہ اب صبر کا دامن لبریز ہو چکا ہے اب زیادہ برداشت نہیں ہوگا چنانچہ اب ہم سب کو آگے آنا ہوگا اور ظالم حکومت کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرنا ہوگا اور اس ملک کو غلامی کی زنجیروں سے نکال کر آزاد کرانا ہوگا۔

جسکے لئے ہم سب کو مل کر وسیع پیمانے پر لڑائی لڑنی ہوگی، عوام کو یکجا کر کے ہم فکر لوگوں کی جماعت بنانی ہوگی۔

لیکن اس وقت لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا کوئی مؤثر ذریعہ نہیں تھا، نہ اس وقت کوئی موبائل فون تھا، نہ ہی انٹر کا زیادہ عروج تھا، رہی بات خط کی تو اسکے ذریعے ایک پیغام پہنچتے پہنچتے ہفتے اور مہینے نکل جاتے تھے، اسی لئے اس وقت کے دانشوروں نے یہ خیال کیا کہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا بہتر ذریعہ اخبار ہو سکتا ہے اور اسی کے ذریعے اچھے طریقے سے لوگوں کو متحد کیا جاسکتا ہے چنانچہ چند وطن پرستوں نے اپنے احساس کو قلم کی طاقت بخشی جسکی وجہ سے اردو صحافت نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی، جس سے عوام کو بیدار کرنا بہت آسان ہوگیا پھر اردو اخبار ہی کے ذریعے عوام کو متحد کیا گیا اور انہیں متشدد برطانوی حکومت کے خلاف لڑنے کو تیار کیا گیا۔
اس بات کی تصدیق وقت کے مشہور شاعر اکبر الہ آبادی کے اس شعر سے بھی ہوتی ہے:

کھینچوں نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو،
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو۔

پتہ یہ چلا کہ صحافت کا معاشرے سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے جو کہ سماج پر پوری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔

1857ء سے 1947ء تک کے ان چند اخبارات و رسائل کو یہاں پر ذکر کرنا مناسب سمجھتاہوں جو خالص سیاسی تھے، جسکے ذریعے قومی شعور کو بیدار کیا گیا اور جسکے ذریعے جنگ آزادی کے لیے زمین ہموار کی گئی۔

(1)سحر سامری 1856ء
(2) تاریخ بغاوت آگرہ 1859ء
(3) اتالیق ہند 1874ء
(4)شمش الاخبار 1859ء
(5) خیر خواہ خلق 1860ء
(6) اخبار عالم 1871ء
(7) کشف الاخبار 1861ء
(8) قاسم الاخبار 1865ء
(9) صادق الاخبار 1866ء۔
(10) زمیندار 1909ء
(11) الہلال 1912ء
(12) دہلی اردو اخبار 1936ء

مذکورہ بالا اخبار کا طرز تحریر‌ زبان و بیان،‌لب و لہجہ براہ راست انگریزوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ تلخ بھی ہوتا تھا، 1857 کی قیامت صغریٰ کے فرو ہونے کے بعد اخباروں کے مدیروں پر مظالم ڈھائے گئے اور انکے اخبار و مطابع ضبط کر لیے گئے لیکن انہوں نے ہنستے ہوئے ان تمام مظالم کو برداشت کیا اور ملک کے لئے جان کی بازی لگادی۔

“دہلی اردو اخبار” کے بارے میں امداد صابری “روح صحافت” میں لکھتے ہیں کہ دہلی میں جب تک جنگ آزادی جاری رہی اس وقت تک دہلی اردو اخبار نے نہ صرف اپنے صفحات کو آزادی کے لیے وقف کیا تھا بلکہ اسکے بانی مولوی محمد باقر نے قلم کی جنگ کے علاوہ تلوار سے بھی انگریزوں سے جنگ لڑی اور جس وقت جنگ ناکام ہوئی اور انگریز دھلی پر قابض ہوگئے تو اخبار بند ہونے کے ساتھ ساتھ مولوی محمد باقر انگریزوں کے گولی کے نشانے بھی بن کر جام شہادت نوش کر گئے ۔

“صادق الاخبار” کے بارے میں عتیق احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ دہلی کا سب سے زیادہ قابلِ ذکر اخبار صادق الاخبار تھا جس نے بغاوت کے جذبات کی تخم‌ریزی میں سب سے زیادہ حصہ لیا تھا اور جس نے بغاوت کے دوران باغیوں کے احساس و جذبات کی ترجمانی کی تھی۔

صادق الاخبار جنگ آزادی میں پیش پیش رہا ہے اس نے اپنی تحریروں کے ذریعے ہندوستانیوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی تھی اور یہ اخبار عوام و خواص دونوں میں ازحد مقبول تھا۔

لکھنؤ سے ایک اخبار “سحر سامری” نکلتا تھا جو اس دور کے حالات اور حکمرانوں کی بد انتظامیوں کا انکشاف کرتا تھا۔

“تاریخ بغاوت ہند” بھی اسی دور کا اخبار تھا جو آگرہ سے نکلتا تھا، اس اخبار میں سلسلہ وار ہندوستان کے مختلف علاقوں اور شہروں میں رونما ہونے والے جنگ آزادی کے واقعات شائع ہوتے تھے۔

“اخبار عالم” جو کہ لاہور سے نکلتا تھا یہ اخبار حکومت کی بد انتظامیوں پر نکتہ چینی کرتا تھا اور حاکموں کی جانبدارانہ رویوں کی نقاب کشائی کرتا تھا۔

“اتالیق ہند” اخبار کی اگر بات کریں تو یہ بھی لاہور سے شائع ہوتا تھا یہ اخبار حکومت کو مشورے دیتا تھا اور ہندو مسلم اتحاد کی باتیں کرتا تھا۔

اگر “زمیندار” اخبار کی بات کی جائے تو یہ اخبار عوام میں بہت مقبول تھا، زمیندار اخبار کے انداز و اسلوب کے بارے میں خورشید عبد السلام لکھتے ہیں کہ اس دور کے سیاسی اداریے بلند آہنگ اور خطیبانہ انداز اور بیباکی و طوفانی سیاست کی غماز ہیں، اس اخبار نے عوام کے دلوں میں غیر ملکی حکومت کا خوف دور کیا اور صداقت پر رہ کر اپنی بات کہنے کا درس دیا۔

اور اگر “الہلال” اخبار کی بات کی جائے تو امداد صابری “تاریخ صحافت اردو” میں الہلال اخبار کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے ادارت میں الہلال نے ہندوستان کے عوام کو انگریزوں کے خلاف جدو جہد کی ہی دعوت نہیں دی تھی بلکہ انہیں یہ بھی بتایا تھا کہ انگریز سامراج کے خلاف انکی جدوجہد تمام آزاد پسند اقوام کی جدوجہد کا ایک جزء ہے۔

اس طرح الہلال نے ہندوستان کے مجاہدین آزادی کے ذہنی افق کو وسعت بخشی اور انکے عزائم و ارادوں کو پختگی دی۔

بہر حال! پتہ یہ چلا کہ وطن کی آزادی میں اردو صحافت نے ایک اہم کردار ادا کیا اور ہندوستانیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں اردو صحافت نے ایک اہم رول نبھایا ہے اور اردو صحافت ہی کے ذریعے ہندوستانیوں میں آزادی وطن کا تصور پیدا کرکے ملک ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا گیا ہے۔


 نوٹ: اس مضمون کو امام علی بن مقصود شیخ فلاحی نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔

Tags:

You Might also Like