Type to search

تلنگانہ

وطن سے ہماری فطری محبت یا ایمانی محبت؟

وطن سے ہماری فطری محبت

قلم کار : امام علی مقصود شیخ فلاحی۔


آج پندرہ اگست ہے اور پورا ملک جشن آزادی منارہا‌ ہے نیز اپنے محب وطن ہونے کا دعویٰ بھی کر رہا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم جو اپنے وطن سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں ، یہ محبت فطری محبت ہے یا ایمانی محبت ہے ۔
اس بحث پر تحریر کرنے سے قبل مناسب سمجھتا ہوں کہ محبت کی قسمیں بیان کردوں۔

بنیادی اعتبار سے محبت کی دو قسمیں ہیں :

پہلا ۔ دکھلاوے کی محبت
یعنی جو صرف کسی کو دکھلانے کے لئے کی جائے حقیقت میں اس سے محبت نہ ہو۔

دوسرا ۔ حقیقی محبت
جو دکھانے کے لئے نہ ہو بلکہ کسی چیز سے حقیقت میں دلی محبت ہو۔

اب اس حقیقی محبت کی بھی دو قسمیں ہیں۔
(١) فطری محبت :
جیسے اللہ نے کچھ چیزوں کی محبت ہماری فطرت میں رکھ دی ہے جیسا کہ قرآن بھی شاہد ہے ، فرمان باری ہے :

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالۡبَـنِيۡنَ وَالۡقَنَاطِيۡرِ الۡمُقَنۡطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالۡفِضَّةِ وَالۡخَـيۡلِ الۡمُسَوَّمَةِ وَالۡاَنۡعَامِ وَالۡحَـرۡثِ‌ؕ ذٰ لِكَ مَتَاعُ الۡحَيٰوةِ الدُّنۡيَا ‌ۚ وَاللّٰهُ عِنۡدَهٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ ۞

ترجمہ:
لوگوں کی نگاہوں میں مرغوباتِ دنیا عورتیں، بیٹے، سونے چاندی کے ڈھیر، نشان زدہ گھوڑے، چوپائے اور کھیتی کھبا دی گئی ہیں۔ یہ دنیوی زندگی کے سر و سامان ہیں اور اللہ کے پاس اچھا ٹھکانا ہے۔

قارئین ! مذکورہ بالا محبت میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو ہمارے نفس کو اچھی لگتی ہیں یعنی اس کے پیچھے ہمارے نفس کی خوشنودی ہوتی ہے نہ کہ اللہ کی رضا و خوشنودی۔

(٢) ایمانی محبت
اور ایمانی محبت اس محبت کو کہتے ہیں جس میں ہمارے نفس کی خوشنودی نہ ہو بلکہ اللہ کی خوشنودی یا رضا شامل ہو اور یہ محبت کسی بھی چیز سے ہو سکتی ہے اور اس سے ہمارے ایمان کی تکمیل بھی ہوتی ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے:
“من احب للہ و ابغض للہ واعطی للہ ومنع للہ فقد استکمل الایمان”۔
یعنی جس نے اللہ کے لئے محبت اور اسی کےلئے بغض رکھا اور اسی کے لئے کسی کو کچھ عطا کیا اور اسی کے لئے روکا تو اس نے اپنے ایمان کا دعوی پورا کر دیا۔
قارئین ! اس محبت میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جس میں اللہ کی رضا موجود ہے۔

بہر حال
ابھی تک ہم یہ فرق کرنے کے قابل ہوئے ہیں کہ جب محبت نفس کی خواہش کی وجہ سے ہو گی تو فطری محبت کہلائے گی اور اگر اللہ کی رضا کی وجہ سے ہو گی تو ایمانی محبت کہلائے گی
لیکن یاد رکھیں کہ ایمانی محبت اور فطری محبت جن چیزوں سے ہوتی ہے انکا مختلف ہونا لازمی نہیں ہے بلکہ محبت کی وجہ کا یا علت کا مختلف ہونا لازمی ہے کیونکہ کبھی ایک ہی چیز سے ہماری محبت ایمانی بھی ہوتی ہے اور فطری بھی-

مثلاً – حالت جنگ میں مسلمان بیٹے کا اسکے مسلمان باپ سے ایمانی اور فطری محبت ہوتی ہے۔
اور کبھی ایک چیز سے ہماری ایمانی محبت تو نہیں ہوتی مگر فطری محبت ضرور ہوتی ہے جیسے حالت جنگ میں مسلمان بیٹے کے مد مقابل اسکے کافر باپ سے ایمانی محبت تو نہیں ہوتی ہے مگر فطری محبت ضرور ہوتی ہے۔

بہر کیف –
اوپر کی بحث کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں اب یہ دیکھنا ہوگا کہ وطن سے ہماری فطری محبت ہے یا ایمانی محبت ؟

قارئین ! موضوع پر بحث کرنے سے قبل دو باتیں ذہن نشین کرلیں۔

١۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کی زمین سے محبت تھی اور وہ فطری محبت تھی یہی وجہ تھی کہ جب آپ صلّی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ جارہے تھے تو اس وقت فرمایا تھا :

ما أطيبَكِ مِن بلدةٍ وأحَبَّك إليَّ، ولولا أنَّ قومي أخرَجوني منكِ ما سكَنْتُ غيرَكِ.
(صحيح ابن حبان عن عبد الله بن عباس، الصفحة أو الرقم: 3709)

ترجمہ: ہجرت کے موقعے پر مکہ کو مخاطب کرکے آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اے مکہ! تو کتنا پاکیزہ اور میرا محبوب شہر ہے، اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی میں کہیں اور نہ رہتا.

معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے وطن سے فطری محبت تھی ۔

٢۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پر غالب نظام سے محبت نہیں بلکہ نفرت تھی جو ایمانی نفرت تھی اور اسی وجہ سے انھوں نے فطری محبت کو قربان کر دیا اور مدینہ ہجرت کر گئے۔ جیساکہ مذکورہ حدیث گواہ ہے۔
اشارة النص سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اگر مکہ کا نظام درست ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں کے نظام سے بھی محبت کرتے اور وہاں سے ہجرت نہ فرماتے۔

اب ان‌ دو باتوں کے ذریعے ہم یہ بآسانی معلوم کرسکتے ہیں کہ وطن سے ہماری محبت فطری ہو یا ایمانی۔ جسکی چند صورتیں ہیں :

١- وطن کی زمین سے ہماری فطری محبت ہوسکتی ہے اور اسکے نظام سے ہماری ایمانی محبت بھی ہوسکتی ہے۔
اور یہ وہاں ہوسکتا ہے جہاں ہمارا اپنا ملک ہو جسکی زمین سے ہماری فطری محبت ہو گی اور اس میں شریعت نافذ ہو تو اسکے نظام سے ہماری ایمانی محبت بھی ہو گی جیسے سعودی عرب کے باشندوں کی سعودی عرب سے محبت۔

٢۔ وطن کی زمین سے ہماری فطری محبت ہوسکتی ہے اور اسکے نظام سے ہماری ایمانی نفرت بھی ہوسکتی ہے
اور یہ وہاں ہوسکتا ہے جو ہمارا اپنا ملک ہو جسکی زمین سے ہماری فطری محبت ہو گی اور اس میں شریعت نافذ نہ ہو تو اسکے نظام سے ہماری ایمانی نفرت ہو گی جیسے مسلم ہندوستانیوں کی ہندوستان سے محبت۔

معلوم ہوا کہ ملک ہندوستان سے ہماری فطری محبت ہے نہ کہ ایمانی۔


 نوٹ: اس مضمون کو امام علی بن مقصود شیخ فلاحی نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔

Tags:

You Might also Like

6 Comments

  1. Hashmat Begum August 15, 2020

    اسلام وعلیکم ۔۔۔کیا ہم بھی کچھ لکھکر یہاں بھیج سکے ہیں
    حشمت بیگم ام۔ے مانو حیدرآباد ۔

    1. Urdu Post Admin August 15, 2020

      آپ اپنا مضمون اس نمبر پر واٹس اپ کرسکتے ہیں۔
      9395555500

  2. Sahban khan August 16, 2020

    ماشااللہ آپ کے مدلل اور مثالوں سے منطبق مضمون نےفطری اور ایمانی محبت کے درمیان بین فرق واضح کر دیا لفظوں کے حسن انتخاب اور مناسب استعمال نے مضمون نگاری کی ایک اہم مثال آپ نے قائم کردی اوربوقت قرات اس بات کا احساس ہوا کہ یہ ہیں مبتدی مضمون نگار کسی اعلی سطح پر فائز مضمون نگار سے کم نہیں اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت دین کی صحیح ترجمانی اوردینکی صحیح خدمت کرنے کی توفیق نصیب فرمائے آمین

    1. Imam Ali shaikh August 16, 2020

      آمین یا رب العالمین

  3. ماشاءاللہ آپ نے بہت ہی مدلل و مفصل تحریر کشی کی ہے اللہ مزید ترقیوں سے نوازے

    1. آمین