Type to search

تلنگانہ

حلیم نہیں کھائیں گے تو مر نہیں جائیں گے

haleem hyderabad
aleem khan falki

ڈاکٹر علیم خان فلکی

تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں سے خصوصی درخواست ہے کہ رمضان کے بابرکت مہینے کو رسوا نہ کریں۔ گودی میڈیا نے جس طرح تبلیغی جماعت کو نشانہ بناکر پورے ملک میں زہر پھیلادیا ہے، اب وہ تاک میں ہے کہ کب مسلمان افطار پارٹیوں یا تروایح کے لئے گھروں سے نکلیں اور کب حلیم کھانے کے لیئے ٹوٹ پڑیں، گویا حلیم نہیں کھائیں گے تو مرجائیں گے۔چند ایک پیٹ کوڑوں کی وجہ سے کتنے لاکھوں مسلمانوں پر مصیبت نازل ہوجاتی ہے ان مستی خوروں کو اس کا بالکل احساس نہیں ہے۔

ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے محلّے پرسخت نظر رکھے۔ جہاں جہاں حلیم کے دیغ لگ رہے ہوں، اس کے چبوترے بنائے جارہے ہوں یا گھروں سے سپلائی کا دھندہ ہونے والا ہو، ان کو سمجھائیں۔ اگر سیدھی طرح بات نہ مانیں تو پولیس کو اس کی اطلاع دیں۔ ایک حلیم کا اڈّہ پورے ملک میں مسلمانوں کو میڈیا میں ویلن بنادینے کے لئے کافی ہے، گودی میڈیا کے رپورٹرز کیمرے لے کر انتظار میں بیٹھے ہیں۔

یاد رکھیئے افطار کروانے کا روزہ رکھنے کے برابر اجر ہے لیکن ان کو افطار کروانے کا جن کو ایک کھجور بھی میسّر نہیں ہوا کرتا تھا۔ پیٹ بھرے رشتہ داروں کو جمع کرنا سنت نہیں بلکہ فیشن، دکھاوا اور اسراف ہے۔ افطار کا وقت جس میں دعاؤں کی قبولیت کی بشارت ہے، اتنے اہم وقت کو کھانے میں برباد کردینا سنّت کی برکتوں کوبرباد کرنا ہے۔

تراویح سنت ہے اور اس میں ایک قرآن کا سننا بھی سنت ہے۔ لیکن جب ہر مسلک کے علما ء فرمارہے ہیں کہ ایمرجنسی میں یہ گھروں پر بھی پڑھی جاسکتی ہے تو اس کے باوجود اگر کوئی مسجد میں یا گھر پر لوگوں کی جمع کرکے جماعت بنانے کی ضد کرے تو وہ بخدا خیر نہیں شر پھیلارہا ہے۔ جہاد نہیں خودکشی کررہا ہے۔ اس کی اس حماقت سے کتنے رپورٹرز اور کتنے دشمن چینلس کا TRP بڑھے گا اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والوں کا کتنا فائدہ ہوگا، اُسے اس کا اندازہ نہیں ہے۔ آپ تمام کی ذمہ داری ہے کہ ایسے لوگوں کو جاکر روکیں۔

تراویح میں قرآن سننے کا جہاں تک تعلق ہے، یہ بات یاد رکھیئے کہ سارے صحابہؓ قرآن کے حافظ نہیں تھے۔ کسی کو کچھ سورے یاد تھے تو کسی کو کچھ۔ اس لئے حضرت عمرؓ نے ایک ایسا نظام بنادیا کہ کوئی ایک جسے پوری قرآن یاد ہو وہ امامت کرے اور تمام کو تراویح میں قرآن سنادے، تاکہ سب کے لئے قرآن کے تمام احکامات کا Revision ہوجائے۔ صحابہؓ چونکہ عرب تھے، انہیں کسی ترجمے کی ضرورت نہیں تھی، وہ راست قرآن کو عربی میں سمجھ لیتے تھے، اس لئے تراویح کے ذریعے انہیں قرآن کو Revise کرنے کا ایک بہترین موقع مل جاتا تھا۔ اس سے پتہ چلا کہ تروایح میں جو اصل حکمت یا Wisdomپوشیدہ ہے وہ سال میں ایک مرتبہ پوری قرآن کو شروع سے آخر تک سمجھنا ہے۔

اس کے بغیر ہماری نمازیں، روزے، تراویح اور دعائیں بالکل ایسے ہیں جیسے کوئی بغیر روح کا جسم۔ لیکن ہم عرب نہیں ہیں، عربی ہماری زبان نہیں ہے اس لئے قرآن کو راست سمجھنا ہمارے لئے ممکن نہیں۔ ہم کیا کریں؟ کیا بغیر سمجھے بوجھے اسی طرح ہم شبینے ادا کرتے رہیں جو صدیوں سے کرتے آرہے ہیں، جس سے قرآن سے قریب ہونے کے بجائے اور دور ہوتے جارہے ہیں؟

کیا وجہ ہے کہ لوگوں کی Majority اگرچہ کہ نمازوں، روزوں، تراویح اور نفل عمروں کی بے انتہا شوقین ہے لیکن ان کے نزدیک قرآن کو سمجھنا بہت زیادہ ضروری نہیں، ایسا کیوں ہے؟ لوگ قرآن کو سمجھے بغیر اپنی اپنی عبادتوں پر بہت مطمئن ہیں، ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ سے کتنا نقصان ہورہا ہے، انہیں اس کا اندازہ کیوں نہیں ہے؟ اس کا سبب نہ تو ان کی دین سے دوری ہے اور نہ دین سے بیزاری۔ اس کا سبب یہ ہے کہ امت ایک ایسی سازش کا شکار ہوئی ہے جس سازش کو رچنے والے نہ یہودی تھے نہ نصرانی، نہ فاشسٹ ہیں نہ کمیونسٹ۔ یہ غلطی Blunder ہمارے اپنوں کی ہے۔ چاہے انہوں نے یہ غلطی جان بوجھ کر کی ہو یا انجانے میں۔ اس غلطی کو سمجھنے کے لئے ہمیں ”تاریخِ ترکِ قرآن“ The History of Abandoing Quran کو پڑھنا پڑے گا۔ لیکن فی الحال یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں ہے، یہ پھر کبھی انشااللہ۔

آج کا ہمارا موضوع صرف اتنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں لاک ڈاؤن کی شکل میں ایک عظیم موقع عنایت فرمایا ہے۔ ہم اس سال قرآن کو ایک بار مکمل معنوں کے ساتھ Revise کرسکتے ہیں۔ افطار کو سادہ اور مختصر کریں اور مغرب سے عشا ء تک پورے خاندان کے ساتھ قرآن کو سمجھنے کے لئے وقف کردیں۔ آپ چاہے جس مسلک کے ہوں۔ آپ ہی کے مسلک کے کئی علما، حفاظ اور مفتی آپ کے شہر میں موجود ہیں جو آپ کے گھر آکر روزانہ قرآن کو آیت بہ آیت سمجھا سکتے ہیں۔

اگر یہ ممکن نہیں ہے تو یوٹیوب پر کئی ویڈیو اور آڈیو موجود ہیں، تفسیروں کی کتابیں ہیں۔ اپنے پورے خاندان کے ساتھ گھنٹہ دیڑھ گھنٹہ قرآن پر لگانا مشکل نہیں ہے۔ اس کے بعد کسی بھی ایک حافظ کو گھر پر مدعو کرکے ان سے پورے خاندان کے ساتھ تراویح میں قرآن سنیئے۔ افطاریوں پر ہزاروں روپیہ یوں بھی ہم صرف دس پندرہ منٹ کے منہ کے چٹخاروں پر ضائع کرڈالتے ہیں بلکہ Flush کرڈالتے ہیں۔ اس سے ہزاروں بلکہ لاکھوں درجے بہتریہ ہے کہ یہی پیسہ آپ اگر ان علما و حفاظ پر خرچ کردیں جو آپ کو قرآن سمجھاکر، سنا کر کبھی نہ ختم ہونے والا علم اور اجر دلوائیں گے۔ ان شاء اللہ۔

ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی
9642571721

 نوٹ: اس مضمون کو ڈاکٹر علیم خان فلکی صاحب نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ اس سے اردو پوسٹ کا کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔

Tags:

You Might also Like