Type to search

تلنگانہ

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں

ڈاکٹر علیم خان فلکی


مولانا کلیم صدیقی اور مولانا عمر گوتم کی گرفتاری پر کہیں کہیں مظاہرے ہوئے، کہیں پچیس آدمی، کہیں پچاس آدمی۔ کسی اردو اخبار کے کسی کونے میں احتجاج کی خبر اور تصویر شائع ہوگئی، فرضِ کفایہ ادا ہوگیا اور سب مطمئن ہوگئے۔ اس کے علاوہ مسلمان کر بھی کیا سکتے تھے؟ یہی جوش اور یہی غصہ کل جب حق پرست سیمی پر ایک سازش کے تحت امتناع عائد کیا گیا، کل جب جواں مردپاپلر فرنٹ پر جھوٹے الزامات لگا کر اس کے ممبرز کو ہراساں کیا گیا، کل جب زاکر نائیک کا شاندار دعوتی کام بند کروادیا گیا،اگر ساری جماعتیں اور سارے مسلک اُس وقت سڑکوں پر آتے تو آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔

اُس وقت ہزاروں کا سڑکوں پر نکلنا ممکن تھا، عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹانا بھی ممکن تھا۔ اس وقت کچھ پولیس والے، کچھ جج اور کچھ لیڈر پھر بھی بِکے ہوئے نہ تھے۔ لیکن تاریخ کا یہ سیاہ باب ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ جب بھی کوئی مسلک یا کوئی جماعت فاشسٹوں کی سازشوں کا شکار ہوئے، دوسرے مسلک اور دوسری جماعتوں نے اپنے محفوظ رہنے پر اطمینان کا سانس لیا، اور اپنے اپنے کارکنوں کو معتوب طبقہ سے دور رہنے کی تاکید کی۔ یہ بھی ہوا کہ اگر کسی جماعت کے کسی فعّال کارکن کو سازش کا شکار بنایا گیا تو خود اُس کی جماعت نے ہی اُس مجاہد سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ دفعتاً نہیں ہوتا دشمن کی چال یہی ہوتی ہے۔قوم میں کتنی حرارت باقی ہے یہ وقتاً فوقتاً چیک کرتے رہنے کے لئے وہ اس طرح کی گرفتاریاں اور انکاؤنٹر کرواتا رہتا ہے تاکہ ردّ عمل کا اندازہ لگایا جاسکے۔ اب یہ عالم ہے کہ پچیس پچاس آدمی سے زیادہ نہ کہیں مل کر احتجاج کرسکتے ہیں، نہ نیشنل میڈیا اس خبر کو کہیں شامل کرسکتا ہے۔

اور اگر کسی اخبار یا چینل نے آپ سے ہمدردی کی تو اس کو اشتہار دینے والوں کو روک دیا جاتا ہے۔ حیدرآباد اس کی بدترین مثال ہے کہ وہ شہر جہاں سے آزادی کے بعد سے پارلیمنٹ میں آج تک صرف مسلم نمائندہ ہی پہنچا ہے، اسی حیدرآباد کے بیچوں بیچ ایک غیرقانونی مندر سے فرقہ پرست جلوس نکال کر پورے شہر کی ٹرافک جام کردیتے ہیں، مندر کے سامنے لکڑیاں پِھرانے کے مظاہرے ہوتے ہیں، پولیس خود انہیں گھیر کر ان کی حفاظت کرتی ہے، لیکن اگر کوئی مسلمان جوابی ریالی تو دور کی بات ہے، صرف جلسہ بھی کرنا چاہے تو پولیس اجازت نہیں دیتی۔

اور نہ مسلم پارلیمنٹرین کی غیرت جاگتی ہے کہ خود ان کے حلقہ میں منافرت کا مظاہرہ ہورہا ہے، ہزاروں کی تعداد میں غنڈے جمع ہوکر دندناتے پھر رہے ہیں، اور وہ کوئی جوابی کاروائی کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ سقوطِ حیدرآباد کا جشن منانے مرکزی وزیرِ داخلہ آکر اسی غیر قانونی مندر میں پوجا کرکے ایک ضلع میں جاتا ہے اور بدترین ہیٹ اسپیچ دیتا ہے اور جھوٹ کہتا ہے کہ نظام نے تین ہزار دلتوں کو پھانسی کی سزا دی تھی۔ سارے مسلم پارلیمنٹرین اور مسلم اسمبلی ممبرز کے علاقے میں یہ سب کچھ ہورہا ہے، لیکن نمائندوں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ اگر کوئی اس کے خلاف آوازِ حق بلند کرنا چاہے تو یہی لوگ پولیس کے ذریعے ایسی آوازوں کو خاموش کروادیتے ہیں۔ یہی حال پورے نارتھ انڈیا کا ہو چکا ہے، بالخصوص یو پی کے الکشن کے لئے ہر وہ طریقہ استعمال کیا جارہا ہے جس کے ذریعے مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ مشتعل کیا جاسکے۔ جو چیف منسٹر فاشسٹ نہیں ہیں، وہ فاشسٹوں سے زیادہ خطرناک ہیں، کیونکہ اگر انہوں نے اپنے اسٹیٹ میں فاشسٹوں کے خلاف کسی بھی قسم کے احتجاج کی اجازت دی تو فاشسٹوں کے ووٹ لے جانے کا خطرہ ہے اس لئے اسی خوف سے وہ خود مسلم دشمنی کا جھنڈا اپنے ہاتھوں میں رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔

اور افسوس کی بات یہ ہے کہ جو مسلمان ذرا سا بھی دم رکھتے ہیں، وہ ان کے ساتھ ہیں، کیونکہ انہیں ای ڈی کا خوف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جماعتیں خطرہ مول لینے تیار نہیں، درگاہیں خاموش ہیں، ظلم اور استحصال کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا نصاب مدرسوں میں پڑھایا نہیں جاتا، اور اہلِ سیاست اپنی اپنی منافقتوں میں لگے ہوئے ہیں۔ عوام میں نئی لیڈرشِپ پیدا کرنے اور اس کا ساتھ دینے کا دور دور تک کوئی شعور نہیں۔ عوام اتنی بے حِس اور بے پروا ہوچکی ہے کہ قوم میں تبدیلی لانے کا ان میں دور دور تک کوئی شعور نہیں۔

آیئے بات حل کی کریں۔ آج امت کی جو بھی اخلاقی حالت ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی بھی نبی ؑ کے دور میں حالات کیا اس سے مختلف تھے؟ وہی خودغرضی، وہی دنیاپرستی اور موت سے خوف، وہی مال اور اقتدار کی ہوس، وہی حق سے انحراف، وہی اپنی اپنی سہولت کی دین پرستی، وہی اللہ کے دیئے ہوئے قانون سے ٹکراؤ۔ سب کچھ وہی ہے، اس لئے اب وہ چند لوگ جن کے دل میں ایمان کی چنگاری موجود ہے، اچھی طرح سمجھ لیں کہ اگر آپ کے دل میں اب بھی اس سرزمین پر عدل، انسانیت، مساوات اور حقوقِ انسانی قائم کرنے کی تمنّا جاگ رہی ہے، تو آپ ہی انبیا کے وارث ہیں۔

بار بار قرآن یہ کہہ کر ہمت بڑھاتا ہے کہ ”اچھی طرح سمجھ لو کہ اکثریت تمہارا ساتھ کبھی نہیں دے گی، اکثریت کافروں ہی کی ہوگی، اکثریت منافقوں اورناشکروں ہی کی ہوگی“، اک آگ کا دریا ہے اور تیر کے جانا ہے۔اگر یہ تمنا آ پ کے دل میں جاگزیں ہے تو یہ ایک الہام ِ الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سے کچھ کام لینا چاہتا ہے۔ آپ کا سب سے بڑا دشمن نہ کوئی فاشسٹ ہے، نہ یہودی نہ نصرانی، آپ کا دشمن صرف وہ خوف ہے جس کا جال آپ کے اطراف بچھا دیا گیا۔ قانون کا خوف، موت کا خوف، اولاد کے مستقبل کے خوف۔ جو اس خوف سے باہر نکل گیا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد کس طرح آتی ہے یہ جاننے کے لئے ماضی میں جاکر موسیٰ ؑ یا جنگ بدروحنین پڑھنے کی ضرورت نہیں، افغانستان کی مثال آپ کے سامنے ہے کہ کس طرح انہوں نے آج کی ساری متحدہ طاقتورترین فوجوں کو شکست دی۔ جس دن وہ کابل میں داخل ہوئے، اُس دن سی این این نے جو رپورٹ پیش کی وہ عبرت کے لئے کافی ہے۔ دن بھر کی کاروائیوں کو پیش کرنے کے بعد جو نیوز ریڈر عورت تھی، اس نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ یہ آخری جملہ کہا کہ ”ایک طرف بیس سال مریکہ کی زیرِ تربیت رہنے والے سرکاری فوجی تھے جو عصری ہتھیاروں سے لیس تھے، تو دوسری طرف وہ معمولی عمامہ پوش شلوار قمیصوں والے تھے جن کے پاس ایک ہی ہتھیار تھا، وہ یہ تھا کہ وہ موت سے ڈرتے نہیں تھے“۔ اللہ تعالیٰ کے انعاموں میں سب سے بڑا انعام یہ ہے کہ ”لاخوف علیھم ولا ھم یحزنون“۔ وہ دلوں کو خوف سے پاک کردیتا ہے۔جب تک خوف دل میں ہے، کوئی ایمان کی حلاوت پا ہی نہیں سکتا چاہے وہ کتنی نمازیں پڑھ لے، چاہے کتنے عمرے یاحج یا خیرات و زکوٰۃ ادا کرلے۔

سوال یہ ہیکہ اب کرنا کیا ہے؟ کرنا وہی ہے جو کام عمر گوتم، کلیم صدیقی یا زاکر نائیک نے کیا ہے۔ جس مقصد سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سرزمین پر پیدا کیا تھا وہ کام آج تک ہم نے کیا ہی نہیں۔ ہم نے ہزار سال حکومت کی، مغل، خلجی، تغلق، نظام، قطب شاہی وغیرہ نے کبھی یہ کام نہیں کیا۔ ہمارے آباواجداد نے کبھی یہ کام نہیں کیا، اسی کا نتیجہ ہے کہ اب اُس قوم کی سب سے نچلی ذاتیں بھی ہمارا وجود برداشت کرنے تیار نہیں۔ اب سوائے دینِ حق پہنچانے کے ہمارے پاس اس ملک میں باقی رہنے کے لئے کوئی راستہ نہیں۔ اس دین کو پہنچانے کے لئے صرف تقریریں یا جلسے کافی نہیں۔ ہر شخص ایک عملی نمونہ بن جائے تو کوئی عجب نہیں کہ وہ کروڑوں ذاتیں خودبخود ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں گی اور اس ملک کا نقشہ بدل جائیگا۔ ایک بہت ہی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ اگر مسلمان مرد، مرد بن جائیں اور اپنی شادیاں راجپوتوں یا دوسرے مشرکوں کی سنّت کے بجائے رسول اللہ ﷺکی سنّت پر کرنا شروع کرکے کروڑہا روپیہ بچا کر اپنی اور اپنے ملک کی ترقی پر لگائیں، اگر مسلمان وکیل جھوٹ نہ بولنے کی قسم کھالیں، اگر مسلمان ڈاکٹر کوویڈمیں جس طرح عوام کو لوٹا گیا، اس طرح کی لوٹ مار کبھی نہ کرنے کی قسم کھالیں، اگر مسلمان اسکول یا کالج کے مالکان حرام ڈونیشن یا فیس کو کم کرکے غریبوں کے لئے تعلیم کو آسان کردینے کی قسم کھالیں، اگر مسلمان عہدیدار رشوت اپنے لئے حرام کرلیں، اگر مدرسے صدیوں پرانے نصاب کو ختم کرکے قرآن و حدیث کی عصری تعبیرکرنے والے مضامین پڑھائیں، اگر لڑکے اور لڑکیاں اس موبائیل اور انٹرنیٹ کے گندے کیچڑ سے باہر نکل کر اپنا وقت تعمیری کاموں میں لگانے کا فیصلہ کرلیں، اگر ہمارے سیاستدان آج تک کی لوٹی ہوئی دولت کو قوم کے نام وقف کردیں اور اپنی اولادوں کو حرام کی عمارتوں میں نہیں رکھنے کی قسم کھالیں تو بخدا آج جتنے فاشسٹ آپ کو اس ملک سے نکالنے کے لئے یا آپ کو سب سے نچلی ذات بناکر رکھنے پر تلے ہوئے ہیں، وہی سارے آپ کو سرآنکھوں پر بٹھائیں گے۔ ورنہ آج جو کچھ ہورہا ہے وہ تو صرف ایک ٹریلر ہے، بہت جلد آپ کی حالت وہی ہونے والی ہے جو برما، افریقہ، آسام، گجرات، چین، اور اسپین میں ہوچکی ہے۔ مصطفی کمال اتاترک تو یوں ہی بدنام تھا، مسقتبل قریب میں ہر مسلم ملک میں ایسے اتاترک پیدا کردیئے جائیں گے جس کی مثال آج کا سعودی عرب، امارات وغیرہ ہیں۔


ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد
+91 9642571721

Tags:

You Might also Like