Type to search

قومی

عائشہ… ترا شکریہ تو نے غافلوں کو جگا دیا

عائشہ ترا شکریہ

از قلم:۔ ڈاکٹر علیم خان فلکی


 جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی کہہ رہا ہے خودکشی حرام ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے اس کے ماں باپ نے حریص لڑکے سے اس کی شادی کیوں کی؟کوئی کہہ رہا ہے کہ مرنا تھا تو مرجاتی، یہ ویڈیو بناکر مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ دوسری طرف ہر کوئی کہہ رہا ہے یہ جہیز واقعی ایک لعنت ہے، اس کو ختم ہونا چاہئے۔عائشہ کے واقعہ نے دماغوں میں ہلچل پیدا کردی۔ لیکن اِس سے کتنے لوگوں کے دل نرم پڑگئے، کتنے لوگوں کے ضمیر جاگ گئے، یہ کہنا مشکل ہے۔

آیئے، مرحومہ عائشہ جس کو جہیز کی وجہ سے سابرمتی ندی، احمدآباد میں ڈوب کر خودکشی کرنی پڑی، اُس کے والد لیاقت علی خان کے درد میں ڈوبے جملے پر غور کرتے ہیں کہ ”میری عائشہ تو چلی گئی، اب وہ واپس نہیں آئے گی۔ اگر اُس کے اُس کمینے شوہر کو پھانسی پربھی لٹکا دو تو عائشہ واپس نہیں آئے گی، اب اتنا تو کرو!  میری قوم کی ہزاروں لاکھوں عائشاؤں کو بچالو“۔

وہ بہادر تھی۔ اس نے اپنی جان ضرور دے دی، لیکن جہیز اور کھانوں کی شوقین سوسائٹی پر لعنت کرگئی۔ جہیز کے لین دین کو خوشی سے جائز کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ مارگئی۔وہ ان بے شمار عائشاؤں کی آواز بن گئی جو اپنے معصوم بلکتے بچوں کو چھوڑ کر دنیا سے چلی گئیں۔ کسی کے شوہر نے ان کا گلا گھونٹ دیا، کسی کے ساس نے اسے جلا دیا۔ لیکن نہ وہ کسی اخبار کی خبر بن سکیں نہ پولیس تک ان کی رپورٹ پہنچ سکی۔

لیکن یہ عائشہ ایک ہمت والی تھی۔  وہ تو ایک منٹ میں اس لالچی مردوں کی دنیا سے نجات پاگئی، لیکن  جانے کتنی عائشائیں آج بھی ہر گھر میں ہیں، جو جان تو نہیں دے سکتیں، لیکن اِس جہیز کی وجہ سے ہر روز گُھٹ گھٹ کر مرتی ہیں۔ساسوں اور نندوں کے طعنے اور شوہروں کی مار کھاکر ایک زندہ لاش بن چکی ہیں۔ صرف عائشائیں نہیں، لاکھوں سیتائیں، اوشائیں اور ریکھائیں ہیں جن کو بچانے کی ذمہ داری عائشاؤں کے مسلمان شوہروں کی تھی، لیکن وہ مسلمان خود اسلام کے نام پر ایک دھبّہ ہیں۔ اور افسوس کی بات تو یہ بھی ہے کہ یہی عائشائیں جو یہ ظلم سہتے ہوئے زندگی گزار لیتی ہیں،وہی اپنے بیٹے بڑے ہونے پر بجائے اس ظلم کو ختم کرنے کے، آنے والی بہوؤں سے بدلہ لیتی ہیں، اور عائشاؤں کا یہ سلسلہ کہیں ختم نہیں ہوتا۔

عائشہ کے واقعہ نے علماء اور مشائخین کو بھی زبان کھولنے پر مجبور کردیا۔ اب کئی علماء جو کل تک جہیز کو حرام کہنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ نہ ایسی شادیوں میں شرکت کرنے کو ناجائز کہنے کے لئے تیار تھے اب کہیں کہیں وہ جہیز کو حرام کہہ رہے ہیں۔ لیکن دعوتوں میں شرکت کے تعلق سے اب بھی خاموش ہیں، گول مول باتیں کرکے چندہ دینے والے امیروں اور مریدوں کو ناراض کرنے کا رِسک لینا نہیں چاہتے۔یاد رہے کہ جہیز کے سامان کی قمیت بمشکل ایک دو لاکھ ہوتی ہے لیکن منگنی کے دن کے کھانے، رخصتی کے دن کے کھانے اور جمعگی، نوروز، مبارکہ وغیرہ  جیسی بدعات کے کھانوں میں لڑکی والوں کا دیوالیہ نکل جاتا ہے۔ اسی کی وجہ سے لڑکی والے گھر بیچنے، سود پر قرض لینے یا پھر کئی غیراخلاقی طریقوں سے پیسہ لانے پرمجبور ہوجاتے ہیں۔ ان کھانوں کو پہلے حرام کیا جائے تو بات بنے گی۔ لیکن علمابے شمار عائشاؤں کی خودکشی یا قتل کے بعد اتنی مشکل سے جہیز کو حرام کہنے پر تیار ہوئے ہیں، ان کھانے کی دعوتوں کو حرام کہنے میں پھر انہیں پتہ نہیں کتنے سال لگیں گے،تب تک پتہ نہیں اور کتنی عائشائیں خودکشی کریں گی یا مارڈالی جائیں گی۔

 ہماری قوم کی مشکل یہ ہے کہ لوگوں نے یہود و نصرٰی کی طرح  پڑھنے، تدبر کرنے اور نافذ کرنے کا کام اپنے اپنے مسلک کے علما اور مشائخین پر چھوڑ دیا ہے۔”اتّخذوا احبارھم و رھبانھم ارباباً من دون اللہ“۔ اگرچہ کہ سماجی تنظیمیں اور مصلحین کئی ہیں جو قوم کو جگانے کے لئے مسلسل کوشش کررہے

 ہیں، لیکن یہ کام منبر و محراب سے ہی ممکن ہے، لیکن اس منبر و محراب پر جن لوگوں کا قبضہ ہے، ان کی اصلاح کی پہلے ضرورت ہے، یہ کام کون کرے گا؟فاتحہ، چہلم، برسی یا میلادالبنی کا کھانا جائز ہے یا ناجائزکے مسئلے پر مسجدیں اور مسلک الگ ہوجاتے ہیں۔ جبکہ ایسے کھانے کھلانے کی وجہ سے کسی کا گھر نہیں بِکتا، کسی کو قرض، چندہ یا بھیک مانگنا نہیں پڑتا۔ کسی کی لڑکی گھر سے بھاگنے پر مجبور نہیں ہوتی، لیکن پھر بھی کئی لوگوں کے نزدیک یہ کھانا کھلانا بھی اور کھانا بھی جائز نہیں۔ پھر جن کھانوں کی وجہ سے پورے خاندان کی اکنامی تباہ ہوجاتی ہے، لڑکی کے بھائی سب کچھ بہن کی شادی کے لئے لٹا کر ڈرائیور اور معمولی میکانک، سیلزمین یا ملازم بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جن کھانوں کے دیئے بغیر کوئی دامادآپ کی بیٹی سے شادی کے لئے تیار نہیں ہوتا،  ذہنوں پر اللہ کے خوف سے زیادہ لوگ کیا کہیں گے کا خوف طاری ہوجاتا ہے، ایسے شرک اور بدعات کی طرف لے جانے والے راستے کو بند کرنے کے لئے علما احتیاط اور مصلحت کے تحت جہیز اور ان کھانوں کو مکمل حرام نہیں کہہ سکتے۔

اگرچہ کہ چند علماے حق ہیں جنہوں نے ایسی شادیوں میں شرکت کو قطعی ناجائز اور حرام کہا ہے۔ جنکی ویڈیوز ہم نےیوٹیوب  پر IJMA کے نام سے جمع کردیا ہے، یہ ویڈیوز سوشیو ریفارمس سوسائٹی چینل کی Play list میں مل جائینگی۔لیکن علما کی اکثریت آج تک جہیز یا کھانے اگر خوشی سے دیئے جائیں تو جائز ہے کا فتویٰ دیتے آئی ہے۔ یہ لوگ اس جواز کو اکثر  فتاوٰی عالمگیری، درمختار، فتاوی نذیریہ یا فتوی ثنایہ سے ثاببت کرتے ہیں۔ فتاوے وحی نہیں ہوتے۔ فقہ کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ فتاوے یا اجماع کسی مخصوص وقت، مقام اور حالات کے تابع ہوتے ہیں۔

اُس مخصوص وقت کے تقاضوں کے پیشِ نظر علما و فقہا قرآن و حدیث سے تعبیر یا تاویل یا استنباط کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔وقت، حالات اور مقام بدل جانے کے باوجود وہی  قدیم فتاوے یا اجماع اسی طرح نافذ ہوں ایسا ضروری نہیں۔ یہ بعد کے علما کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کے بدلنے کے ساتھ ہی قرآن و حدیث کی روشنی میں ازسرِنو جائزہ لیں، اور رہنمائی کریں۔  اگر بعد کے دور میں بھی ان قدیم فتوؤں کو جوں کا توں باقی رکھنے پر اصرار کیا گیا تو وہ مذہب، بدھ یا جین یا ہندومت کی طرح صدیوں پرانے احکامات کا پلندہ بن جاتا ہے۔ اور جدید نسل بغاوت پر اتر آتی ہے۔ اور ہماری تاریخ ان مثالوں سے بھری پڑی ہے۔

حضرت عمرؓ کا چور کے ہاتھ کاٹنے کی سزا کو ملتوی کرنا، متعہ اور حلالہ کی سزا مقرر کردینا، اور ایسی بہت ساری مثالیں ہیں۔ ماضی قریب میں بھی پرنتنگ مشین پر قرآن کو پرنٹ کرنا، لاؤڈاسپیکر پر اذان دیناجائز نہیں تھا۔ تصویر حرام تھی۔ علما کسی محفل میں اگر کیمرہ  یا ویڈیوگرافر کو دیکھ لیتے تو سخت ناراض ہوجاتے اور واپس چلے جاتے، سعودی علما نے شاہ فیصل کے زمانے میں ٹی وی حرام ہونے پر فتوے ہی جاری نہیں کئے بلکہ احتجاج بھی کیا۔ سعودی عرب میں ہی کچھ دہے قبل تک لائف انشورنس، میڈیکل انشورنس اور کار انشورنس حرام تھے۔ پردے کے معاملے میں سعودی میں اتنی سختی تھی کہ اگر کوئی عورت چہرے کا نقاب نہ کرتی تو اس کے شوہر کی شامت آجاتی، لیکن اب علما نے ہی فیصلہ دیا کہ چہرے اور ہاتھ کو کھلا رکھنا جائز ہے۔

ایک دور تھا انگریزی تعلیم، انگریزی نوکری اور انگریزی لباس حرام تھے۔ سرسید پر بھی اور ان کے کالج میں پڑھنے والوں پر بھی کافراور مرتد کے فتوے تھے۔ لیکن یہی فتوے دینے والے علما کی نسلیں آج اسی نظامِ تعلیم سے فراغت حاصل کرکے نکل رہی ہیں۔ مِسیار یعنی کنٹریکٹ میرج کبھی متعہ کے برابر تھا جس کی سزا زانی کی سزا تھی۔ لیکن اب پورے عالمِ عرب میں بالخصوص امیر خلیجی ملکوں کے علما نے مِسیار کوجائز کردیا ہے۔ پہلے بغیر محرم کے عورت کے لئے سفرِ حج پر جانا جائز نہیں تھا، اب ٹراویلنگ ایجنٹ کسی بھی غیر مرد کو محرم بنا کر بھیج سکتا ہے۔ پہلے عورت کو تعلیم کی اجازت صرف اتنی تھی کہ وہ ماں کو خط لکھنے کے قابل ہوجائے۔ عورت ناقص العقل اور ساقط الاعتبار سمجھی جاتی تھی، اب عورت سرجن ہے، جج ہے، پروفیسر ہے، پائلٹ ہے، سعودی میں تو فوج، کھیل کود،میں آچکی ہے۔ اولمپک اور فٹبال کلب کی کمیٹیوں میں داخل ہوچکی ہے۔

اس پوری بحث کا حاصل یہ ہے کہ نکاح کے معاملے میں بھی اب حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ اس پوری بحث کا حاصل یہ ہے کہ نکاح کے معاملے میں بھی اب حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ اب قدیم فتوؤں کو بنیاد بنا کر فتوے نہیں دیئے جاسکتے۔ اصولاً جس دور میں تھوڑا بہت خوشی سے جہیز یا کھانا دینے کا بھی فتویٰ دیا گیاتھا وہ بھی غلط تھا۔ وہی سانپ کا بچہ اب  ازدھا بن چکا ہے۔

ہوا یوں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے لے کر ائمہ کرام اور مشائخینِ اولین کے زمانے تک لڑکی والوں سے کوئی سامان یا کھانا لینے کا دور، دور تک کوئی تصور نہیں تھا۔ پھر اورنگ زیب عالمگیر کے عہد تک جب 1617ء میں فتاویٰ عالمگیری شائع ہوئی، وہاں تک آتے آتے مہارانی جودھابائی کی لائی ہوئی کئی رسمیں مسلمانوں میں داخل ہوگئیں۔

پھرفتاویٰ نذیریہ، ثنایہ جو بالترتیب 1913 اور 1973 میں مکمل ہوئیں، ان کے دور تک شادی کے دن کا کھانا اور تھوڑا بہت جہیز مسلمانوں میں عادت بن چکی تھی۔ لیکن اس وقت بھی خدا خوفی کا وجود تھا۔ اگر کسی کو جہیز یا کھانا مل جائے تو وہ منع نہیں کرتا تھا اور اگر کچھ بھی نہ ملے تو وہ شکایت بھی نہیں کرتا تھا۔ لیکن تاریخ نے ایسا بدترین پلٹا کھایا کہ 1857 کے بعدشمالی ہندوستان کے مسلمان اور 1948 کے بعد حیدرآباد کے مسلمان جو کبھی بڑی بڑی جاگیریں، عہدے اور اختیارات رکھتے تھے، سب کچھ ان سے چِھن گیا۔

غربت و افلاس کا عذاب ان پر مسلّط ہوا۔ لگ بھگ یہی دور تھا جب بھوپال، ویجاپور، لکھنو وغیرہ کے مسلم نوابوں کا خاتمہ ہوگیا۔ مسلمانوں کا سب کچھ لوٹ لیا گیا، نوکریاں ختم کردی گئیں۔ جن کے پاس تھوڑی بہت جائدادیں تھیں انہوں نے اپنی بیٹیوں کی شادیوں میں ختم کردیا۔ جو تھوڑا بہت بچا تھا وہ بھی پوتیوں اور نواسیوں کی شادی میں لٹ گیا۔ جب مسلمانوں کے پاس کچھ نہ رہا تو انہیں جہیز کے ہندو رواج میں پناہ ملی جس میں لڑکی اپنے ساتھ سسرال کو مال لے کر آتی تھی۔

غربت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اس میں سب سے پہلے ایمان بِکتا ہے۔ رزقِ حلال اور رزقِ حرام کا فرق مٹ جاتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ لڑکی کونقد مہر دینے کے بجائے الٹا اس سے مال وصول کرنا، اپنے مہمانوں کی ضیافت لڑکی والوں کے خرچ پر کرواناحرام ہے، حرام اس لئے کہ کسی کو مشقّت میں ڈالنا ظلم ہے، اور ظلم حرام ہے، یہ سب جانتے ہوئے بھی لوگ علما کے فتوے کے مطابق خوشی سے دینے اور لینے کے نام پر سب کچھ وصول کرنے لگے۔

دو قسم کے لوگ وجود میں آئے۔ ایک وہ مہذب بھکاری تھے جو مانگتے نہیں تھے لیکن لڑکوں کا رشتہ انہی لڑکیوں کے گھر بھیجتے تھے جہاں سے بغیر مانگے بہت کچھ مل جاتا تھا۔ دوسری قسم کے لوگ وہ تھے جن کی حیثیت کو دیکھ کر کوئی نہ لڑکی دیتا تھا نہ مال۔ لیکن جب لڑکیوں کی شادیاں رُکنے لگیں تو پھر لڑکی والوں کو چاہے خوشی سے ہو یا نہ ہو، خوشی سے ہی کہہ کر جہیز اور کھانے دینے پڑے۔

اگرچہ کہ یہ ایک بدعت تھی، لیکن علما نے نہ جانے کس مصلحت کی بنا یہ فتویٰ دیا کہ ”اگر لڑکی کے ماں باپ خوشی سے دیں تو جائز ہے، مانگ کر لیا جائے تو ناجائز ہے“۔ یہ وہ تاریخی بنیادی غلطی تھی جس کی سزا آنے والی نسلوں کو آج مل رہی ہے۔ اس وقت کا بویا ہوا یہ اجازت کا بیچ آج ایک تناور درخت بن چکا ہے، جس کے زہریلے پھلوں سے پوری سوسائٹی تباہ ہے۔

اب یہ جہیز اورکھانے اس دور میں داخل ہوگئے جہاں یہ سب کچھ دیئے بغیر لڑکی کی شادی ناممکن ہے۔اگر شادی ہو بھی تو اس لڑکے سے نہیں ہوسکتی جو لڑکی کا آئیڈیل ہو۔ المعروف کالمشروط بن گیا۔ کیا لیڈر کیا علما، کیا مرشِد کیا عام آدمی سب اس چلن کے گڑھے میں اس تیزی سے گرتے گئے کہ اب نکلنا ممکن نہیں۔ جو لوگ قوم کی تقدیر بدلنے والے سمجھے جاتے  تھے، جب وہی اس گڑھے سے باہر نہیں نکل سکتے تو پھر عائشہ جیسی کمزور، بے سہارا لڑکیاں خودکشی کے علاوہ اور کیا کرسکتی تھیں۔

اس پوری تباہی کے ذمہ دار وہی علما، مشائخین اور فقہا ہیں جنہوں نے پہلی بار امیروں اور نوابوں کی دل جوئی کے لئے خوشی سے دینے کا جواز پیش کیا بلکہ ایسی خرافات میں شرکت کرکے دلہا دلہن کو آشیرواد پیش کرنے کا  ایک چلن بنادیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ مدرسوں اور  درگاہوں کو بڑانذرانہ دینے والے یہی نواب اور رئیس ہوا کرتے تھے، جن کے گھر کی عالیشان شادیوں، بے پناہ جہیز اور شاہانہ دسترخوانوں کوناجائز کہہ کر کوئی بھی مولوی یا مرشد اپنے چندے بند نہیں کرواسکتا تھا۔ اور یہی روش آج تک چل رہی ہے۔

کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ سارے علما، فقہا اور مشائخین جن کی ہربات کو عوام فتوی کے طور پر لیتی ہے، یہ لوگ پھر سے اجتہاد کریں اور امت کو اصل سنتِ نبوی کی طرف پلٹائیں؟ برکت صرف سنّت کو نافذ کرنے میں ہے۔ یہ سنت ہوہی نہیں سکتی کہ ایک گھر میں برکت ہی برکت آئے یعنی دلہا کے گھر میں گیارہ ہزار مہر، اور وہ بھی ادھار میں، ایک نوکرانی بھی آجائے ساتھ میں سارے گھر بھر کا سامان بھی لائے، لیکن دوسرے گھر میں مصیبت ہی مصیبت آئے۔ کیا یہ سنت ہوسکتی ہے؟

علما فیصلہ دیں کہ اگر سنّت سے واقعی برکت آتی ہے تو پھر دونوں گھروں میں برکت کا نزول ہو۔ چند امیروں کے لئے یہ سنت اپنی شان دکھانے کے کام آئے تو اکثریت جو مفلوک الحال ہے ان کے گھروں میں بے برکتی، بے روزگاری اور افلاس داخل ہوجائے۔ صحیح سنت کی برکتوں کے نظام کو لانے کے لئے علما فقہا اور مشائخین پر لازم ہے کہ ہر اس تقریب کو حرام کریں جو قرآن واضح طور پر اشارہ دیتا ہے۔

”یاایھاالذین آمنوا لا تاکلوا اموالکم بینکم بالباطل“ کہ ائے ایمان ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقے سے یعنی جھوٹ اور دھوکہ کے ذریعے مت کھاو۔ خوشی سے دینے اور لینے کا بہانہ ایک دھوکہ نہیں تو اور کیا ہے؟امیر جو دے رہے ہیں، وہ خوشی سے نہیں بلکہ دکھاوے، شان اور تکبر کی بنا دے رہے ہیں۔ اور جو لوگ  استطاعت نہیں رکھتے، وہ پھر بھی دینے پر مجبور ہیں وہ ایک سوشیل بلیک میل ہے۔ دونوں غیر قوم کی نقل کررہے ہیں جو حرام ہے۔

بعض علما اس لین دین کو مباح کہتے ہیں، یہ جھوٹ ہے۔ مباح اس عمل کو کہتے ہیں جو رسول ﷺ نے خود نہیں کیا لیکن منع بھی نہیں فرمایا۔ شادی مباح اس لئے نہیں ہوسکتی کہ آپ نے خود شادیاں کی ہیں، بیٹیوں کی شادیاں کی ہیں اور بڑے بڑے صحابہؓ نے بھی کی ہیں۔ جو طریقہ ان لوگوں کا تھا وہ قیامت تک کے لئے مسلمانوں کے لئے شریعت بن گیا۔ اس طریقے سے انحراف کرنا بغاوت ہے اور شریعت کے خلاف ہے۔ ایسی شادیوں میں جانے والے اصل مجرم ہیں جو سنتوں سے انحراف کے چلن کو مضبوط کرنے والے ہیں۔

بعض علما شادی یا منگنی کے کھانوں کو جو لڑکی والوں سے وصول کیا جاتا ہے، مہمان نوازی کی احادیث سنا کر جائز کرتے ہیں۔ مہمان اورمدعوین میں فرق ہے۔ مہمان اچانک آجاتا ہے جس کی ضیافت کرنااخلاقی فرض ہے۔ لیکن جو لوگ خاص طور پر بلائے جاتے ہیں بالخصوص دلہا والوں کی طرف سے,  وہ مہمان نہیں بلکہ باراتی ہیں، وہ مہمان اگر ہیں تو دلہا کے مہمان ہیں۔

ان کی ضیافت لڑکی کے باپ پر ہرگز واجب نہیں۔ لیکن چونکہ دلہاوالوں نے اسی شرط پر شادی کی ہے کہ اگر ہمارے اتنے باراتیوں کی ضیافت کروگے تو ہم یہ شادی کرینگے۔ ”کل شرطِِ لیس فی الکتاب فھو باطل“ یعنی حدیث ہے کہ ایسی ہر شرط جو کتاب اللہ میں نہیں وہ باطل ہے۔ ایسے باراتی جو دلہا کے مہمان ہیں لیکن لڑکی کے باپ کے خرچ پر دعوت اڑا رہے ہیں وہ ظالم ہیں

بعض علما یہ بہانہ کرتے ہیں کہ جہیز یا کھانوں کی ممانعت کا قرآن میں صریح حکم موجود نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو لمبی لمبی داڑھیوں، ٹوپیوں، ہرے پیلے لال عماموں کا حکم بھی صریح طور پر قرآن میں نہیں ہے۔ اور نہ سگریٹ یا حشیش یا چرس کانام لے کر صریح حکم دیا گیا۔ قرآن میں نہ نماز کی رکعتوں کا تذکرہ ہے اور نہ اذان کاطریقہ۔ یہ تمام احکامات علما نے ”من یطع الرسول فقد اطاع اللہ“ یعنی”جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی“سے اخذ کیئے ہیں۔

پھر کیا وجہ ہے کہ ہر ہر حکم رسول ﷺ کے عمل سے لے کر اس کو واجب، فرض، موکّدہ، غیرموکّدہ، نفل یا پھر حرام، ناجائز، مکروہ وغیرہ میں Catogarise کردیا گیا لیکن شادی کے پورے طریقے کو سنّت سے خارج کرکے قبیلے، خاندان، عرف یا ماحول کے تابع کردیا گیا۔ یہاں پر سنّت واجب قرار کیوں نہیں پائی؟ رسول اللہ ﷺ کی شادی کے مکمل طریقے کو اپنانافرض ہے؟ واجب ہے؟ سنّت موکّدہ ہے؟ غیر موکّدہ ہے؟ نفل ہے؟ ضروری نہیں ہے؟ علما بتائیں کہ شادی کا طریق کس زمرے میں آتا ہے۔

اسی طرح اگر کوئی رسول اللہ ﷺ کے طریقے سے ہٹ کر اس میں ہندوؤانہ رسمیں داخل کردے، ایسی شادی کی کسی بھی تقریب میں جانا حرام ہے، مکروہ ہے، ناجائز ہے، ثواب ہے یا کیا ہے یہ علما اور فقہا کھل کر بتائیں۔

ڈاکٹر علیم خان فلکی.

صدر سوشیوریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد،

  واٹس اپ: 7386340883


 نوٹ: اس مضمون کو ڈاکٹر علیم خان فلکی نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔

Tags:

You Might also Like