Type to search

تلنگانہ

بلی کا بکرا ۔۔۔آخر کب تک!!!

بلی کا بکرا

از قلم :عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری


ڈاکٹر کفیل خان کو سات ماہ بعد عدالت کے حکم سے کل بری کیا گیا ۔ان کا گناہ کچھ ایسا تھا ہی نہیں کہ ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ ہو۔

کسی بچےّ سے پنجرہ کھل گیاہے

پرندوں کی رہائی ہو رہی ہے

بے قصور انسان سات ماہ جیل میں سڑایا گیا۔ اس پرتشددہوا ، بھوکا پیاسارکھا گیا ۔ اس کی ماں، بیوی اور بچےّ تل تل اذیت میں روز مرتے رہے۔

شور ہے کنج قفس میں داد کا فریاد کا
خوب طوطی بولتا ہے ان دنوں صیاد کا

یہ سب کس کی نااہلی سے، کس کے غلط الزام سے،کس کس کے اشارے پر اور کس کس کی غلطی کی سزا ملے بے گناہ کو۔جن کے جرم کیمرے میں قید ہیں، شواہد موجود ہیں وہ آزاد پھر رہے ہیں ایسی ہی تصویر تبلیغی جماعت کے افراد کو جیل میں رکھ کران پر بھونڈے الزام لگا پیش کی گئی تھی ۔۔۔۔کیا انصاف اسی کا نام ہے؟؟
کیا پہلے کی طرح اب بھی میڈیا اس پر ڈبیٹ کے لیے پینل بٹھائے گا جیسا وہ ملزم کو گھنٹوں میں مجرم ثابت کر دیتا ہے۔ کیااُسی طرح دن بھر ڈاکٹر کفیل کی بے گناہی کی خبر چلائے گا،؟؟؟؟
کیا ٹی وی اینکر عدالت کے فیصلے، اور ڈاکٹر کفیل کی مظلومیت پر سیر حاصل تبصرے دکھائیں گے۔۔۔۔ گلا پھاڑ کر اور چلاّ چلاّ کر بولنے والا نیشنل میڈیا اپنی ذمّہ داری نبھائےگا۔

میڈیا تو انصاف کا ترجمان ، غیر جانب دار، حق کا طرفدار ہوتا ہیے۔ وہ عوام کو ان کا حق دلانے کے لیے ترجمان ہوتا ہے۔

مظلوموں کے مسائل عوام کی طرف سے پیش کرنا اور ان کے حق کے لیے کوشش کرنا اس کا فرض ہے ۔ وہ انسانوں کا نمائیندہ ہےخود نہ سرکار ہے نہ عدالت نہ حاکم !!. ۔۔۔

ادھر چند برسوں میں اس کی یہ ابترحالت کیسے ہوگئ ۔کون ہے اس کا ذمّہ دار!!! اور اب کون پوچھے گا سوال؟؟؟؟۔۔۔
من کی بات میں اب انصاف اور کام کی بات بھی کرنی ہوگی جناب۔۔ اپنا محاسبہ اور خاطیوں کی گوشمالی بھی آپ پر قرض ہے حساب۔ اور بے قصور وں، بے گناہوں سے ہمدردی اور ان کا جائز حق دلانا لازمی ہےصاحب ۔ اب بھی بہت بڑی تعداد جیلوں میں محبوس اپنی باری کی منتظر ہے۔

ان کےپاس قانونی لڑائی لڑنے کے لیے پیسے نہیں کیوں کہ وہ خود اپنا گھر چلانے والے غریب لوگ ہیں ۔ ان میں کورٹ کچہری کے چکّر لگانے اور روپیہ خرچ کرنے کی طاقت کہاں۔ ان کے پیچھے ان کے غریب اور بیمار والدین اور چھوٹے بچّے ہیں۔ وہ بھی آس لگائے بیٹھے ہیں ۔کتنے قیدی ایسے بھی ہیں کہ جرم معمولی ہے اور دسیوں سالوں سے پس زنداں ہیں ۔معاملات فیصل ہی نہیں ہوتے۔انھیں بھی جلدانصاف ملے گا تو اگے بڑھے گا ترقّی کرے گا انڈیا۔

ہم خون کی قسطیں تو کئی دے چکے لیکن

اے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ہوتا


 نوٹ: اس مضمون کو عبد العظیم رحمانی ملکاپورنے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔

Tags:

You Might also Like

1 Comment

  1. Your Comment ماشاء اللہ بہت عمدہ رپورٹنگ کی آپ نے اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور اللہ کر زور قلم اور زیادہ
    بہت بہت مبارک