Type to search

تعلیم اور ملازمت

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی۔ زندگی کا مقصد بزبان علامہ اقبال۔

زندگی کا مقصد

:امام علی مقصود شیخ فلاحی۔


یوں تو مقصد زندگی کے تشخص میں اکثر لوگ کج فہمی کے شکار ہیں اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہے کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے، اور بہت ہی رنج والم کی بات ہے کہ امت مسلمہ جسے اللہ نے اپنے پیارے رسول محمد ﷺ اور اپنی آخری کتاب یعنی قرآن کریم کے ذریعہ مقصد زندگی سے پوری طرح آگاہ کرا یا تھا، آج وہ امت اسی سے غافل ہوکر کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی طرح دنیوی زندگی اور اس کے متعلقات کو اپنی زندگی کا مقصد بنا رہی ہے۔

 

مال و دولت ، آرام و آسائش کی چیزوں کا حصول، دنیوی جاہ و منصب اورحشم و خدم کی تمنا ہی اب اکثر افراد کی زندگی کا مقصد بن گیا ہے۔

جبکہ یہ دنیا نہ توآرام و آسائش کی جگہ ہے اور نہ ہی اس کے حصول کی کوشش اس عارضی زندگی کا مقصد ہے۔
قرآنی تعلیمات کے مطابق یہ تمام چیزیں جن کے لئے لوگ کوشاں ہیں انسان کی آزمائش کے لئے ہیں نہ کہ آشائش کے لئے بلکہ انسان کا وجود ہی مکمل آزمائش سے عبارت ہے ،

 

جیسا کہ فرمان باری ہے :
الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً
(سورۃ الملک:۲)
’’اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے‘‘۔

قارئین : انسان اگر کائنات کے اندر پھیلی ہوئی اشیاء پر غور و فکر کرے تو اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہے گا کہ تمام چیزیں خواہ وہ نباتات ہوں یا جمادات، پانی کا نظام ہو یا پھر مکمل نظام شمسی کا ، یہ سب انسانی ضروریات کی تکمیل کے لئے ہی پیدا کئے گئے ہیں۔

جب ہر چیز کے وجود کا ایک مقصد ہے اور وہ بلا واسطہ یا بالواسطہ حضرت انسان کی خدمت میں مصروف رہ کر اپنے مقصد وجود کو پورا کررہی ہے۔

تو کیا انسان جو اس کائنات میں مخدوم کی حیثیت رکھتا ہے اور تمام مخلوقات سے برتر و اشرف ہے یوں ہی بے مقصد اور بے کار پیدا کیا گیا ہے ؟ ہرگز نہیں۔ کسی نہ کسی مقصد کے تحت پیدا کیا گیا ہے۔

 

اب سوال یہ ہے کہ وہ مقصد کیا ہے جس کے لئے اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا؟
تو اسکا جواب میں علامہ اقبال کی زبان میں دنیا مناسب سمجھتا ہوں، کیونکہ آج ہی کا وہ دن ہے جس دن علامہ اقبال کی سرزمین سیالکوٹ میں ولادت ہوئی اور یہی وہ شخصیت ہے جسنے شاعرانہ انداز میں اسلام کو عام کرنے کی کوشش کی ، اقبال نے جب اپنی بالغ نظری کو استعمال کیا اور لوگوں کی حالت کو قریب سے دیکھنے کی کوشش کی تو آپ کی نظر میں لوگوں کی زندگیاں بالکل بدحالی و متوالی کے شکنجے میں کسی ہوئی نظر آئی ، وہ اس طرح کہ لوگ ایک دوسرے کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں ، لوگ حقوق العباد و حقوق اللہ کو پامال کئے جارہے ہیں، رسول اللہ کے دیئے ہوئے مشن کو فراموش کیئے جارہے ہیں، جاہ و منصب کے لالچ میں آکر قرآن و سنت کو چھوڑے جارہے ہیں، اور مقصد زندگی کو بالکل نظر انداز کیئے جارہے ہیں تو اور خود اپنی ذات کو بھولے جارہے ہیں تو اقبال کی زبان برجستہ یہ کہہ اٹھی کہ :

 

“اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن”

اس شعر کو لیکر اگر میں اپنے تخیل کا سیر کرتا ہوں تو میرا تخیل مجھے یہ کہتا ہے کہ علامہ اقبال اس شعر کے ذریعے اصل میں قرآن پاک کی آیت کریمہ

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن (الذاریات:۵۶)

یعنی ’’ہم نے انسان و جنات کو نہیں پیدا کیا مگر اپنی عبادت (بندگی) کے لئے‘‘۔

کی دعوت دے رہے ہیں اور لوگوں کو سمجھا رہے ہیں کہ اے لوگوں اب تو باز آجاؤ، کب تک انگریزوں کے تلوے چاٹتے رہو گے؟ کب تک انکے نقش قدم پر چلتے رہو گے ؟ کب تک خدا وند عالم کی نافرمانی کرتے رہو گے؟ کب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے اعتراض کرتے رہو گے؟
ارے تم میری بات نہ مانوں ، میری پرواہ نہ کرو کم سے کم اپنی تو پرواہ کرلو ، میرے نہ بنو کم از کم اپنے خود کے تو بن جاؤ۔

 

“اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن”

قارئین ! اگر ذرا غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ علامہ اقبال نے تو مقصد زندگی کو اپنے اس شعر میں کھول کر رکھ دیا۔

کہ اگر تو میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن کیونکہ انسان اپنا اسی وقت بن سکتا ہے جب وہ خود اپنی ذات کو سمجھے کہ‌ میں کیا ہوں؟ میں کیوں پیدا کیا گیا ہوں؟ میری زندگی کا‌ مقصد کیا ھے؟

اگر انسان اپنی مقصد زندگی کو سمجھ جاتا ہے اور
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن (الذاریات:۵۶)
کا اقرار بھی کرلیتا ہے اور اس پر عمل پیرا بھی ہوجاتا ہے تو اسکی نیا پار ہوجاتی ۔

لیکن افسوس صد افسوس اکثر مسلمان اس بات کو جانتے ہیں اور اپنی زبان سے اس آیت کا اقرار بھی کرتے ہیں لیکن ان کی زندگی کی روش یہ بتاتی ہے کہ انہوں نے اس کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں بنایا

بلکہ بعض مسلمانوں کے قول و عمل سے تو ایسا ظاہرہوتا ہے کہ ان کے نزدیک اس دنیا کی زندگی کے علاوہ کوئی اور زندگی ہے ہی نہیں اور انہیں حیات بعدالموت اور جزا و سزا سے کوئی سابقہ ہی نہیں پڑنے والا۔

اورایک دوسرا طبقہ ان مسلمانوں کا ہے جو کسی نہ کسی درجہ میں اللہ کی عبادت کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتا ہے اور اسے پورا کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے لیکن وہ لفظ ’عبادت‘ کی ناقص فہمی کا شکار ہے۔ اس کے نزدیک ‘عبادت‘ صرف نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ و صدقات، قربانی، دعا و اذکار وغیرہ تک ہی محدود ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں عبدیت اور بندگی کا کوئی تصور اس کے نزدیک ہے ہی نہیں اسی لئے وہاں وہ اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے۔

اب یہ اسی کج فہمی کا نتیجہ ہے کہ بعض لوگ نماز و روزے کے تو بڑے پابند دیکھے جاتے ہیں لیکن معاملات ان کے انتہائی خراب ہوتے ہیں جسکی وجہ سے وہ اپنے مقصد زندگی میں ناکام ہوجاتے ہیں۔

ارے مقصد زندگی ہونے کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس کے دائرہ کی وسعت زندگی کے تمام شعبوں کو محیط ہو اور حقیقت میں ہے بھی ایسا ہی ہے۔

آئیے اسے سمجھنے کے لئے چند مفکرین کا سہارا لیا جائے۔

 

مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک
عبادت کا لفظ تین معانی پر مشتمل ہے: (۱) آقا کی وفاداری (۲) آقا کی اطاعت (۳) آقا کا ادب و احترام۔
یعنی بندہ وہی ہے جو آقا کا وفادار ہو کہ جھکے تو اسی کے سامنے جھکے ، مانگے تو اسی سے مانگے ،اورواسی کو اپنا رب تسلیم کرے کسی اور کو شریک نہ کرے ۔

اسی طرح وہ آقا کا اطاعت گذار ہو، اگر وہ حکم کرے کہ نماز پڑھو تو نماز پڑھا جائے، اگر وہ حکم کرے کہ جھوٹ نہ بولو تو جھوٹ بولنے سے باز رہا جائے ایسا نہ ہو کہ صرف اسکا نام‌لیا جاے اور اسکی تعریف پر تعریف کیا جائے۔
اسی طرح آقا کا ادب و احترام کرے کرے جیسے ہی نماز کو بلاے فوراً جاے، جیسے ہی کوئی حکم کرے فوراً اسے پورا کرے ۔

اب اگر یہ تینوں چیزیں کسی شخص میں موجود ہوں تو وہی اصل میں خدا کا بندہ ہے ۔

اسی طرح شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ نے اپنی تصنیف ’کتاب العبودیہ‘ میں عبادت کی تعریف ان الفاظ کے ساتھ کی ہے:

’’عبادت ایک جامع لفظ ہے جو اللہ تعالیٰ کے تمام محبوب و پسندیدہ، ظاہری و باطنی اقوال و اعمال( افعال) کو شامل ہے، چنانچہ نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج، بات میں سچائی، امانت کی ادائیگی، والدین سے حسن سلوک، رشتہ داروں سے نیکی، وعدوں کو پورا کرنا، نیکی کا حکم، برائی سے روکنا، کفارومنافقین سے جہاد، پڑوسیوں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور زیر دست انسانوں اور جانوروں کے ساتھ بھلائی، دعا، ذکر، قرأت اور ان جیسی اورباتیں سب عبادات ہیں، اسی طرح اللہ و رسول ؐ سے محبت، اللہ کا ڈر اور اس کی طرف رجوع، دین کو اسی کے لئے خالص کرنا، اس کے حکم پر ڈٹ جانا، اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا، اس کی قضاء و قدر پر راضی رہنا، اس پر توکل کرنا، اس کی رحمت کی امید اور اس کے عذاب کا خوف اور ان جیسی اورباتیں بھی اللہ کی عبادات ہیں ‘‘۔

اب اگر کوئی شخص ان‌ تمام چیزوں سے پیوست ہو تو وہی اقبال کی مذکورہ شاعری کا مصداق بن کر مذکورہ بالا آیت کریمہ کا مصداق بنے گا اور اپنے مقصد زندگی میں کامیابی حاصل کرے گا۔


 نوٹ: اس مضمون کو امام علی بن مقصود شیخ فلاحی نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔

Tags:

You Might also Like