Type to search

تعلیم اور ملازمت

ذرا نم ہو تویہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

از: ڈاکٹر تبریزتاج

ڈاکٹر تبریزتاج

ڈاکٹر تبریزتاج


صحافی واسکالر حیدرآباد


عالمی وباء کویڈ کی وجہ سے گزشتہ ایک برس سے روایتی تعلیم کی جگہ آن لائن تعلیم نے لی ہے۔ اگر ہم بات کریں تو سب سے زیادہ نقصان پرائیمری تعلیمی شعبے کوہی ہوا ہے۔ اسکول بند رہنے کی وجہ سے بچے گھروں تک محدود ہوکر رہے گئے ہیں۔تعلیمی سرگرمیاں ٹھپ پڑھ گئی ہیں۔انٹر نیٹ اور سیل فون کا چلن بڑھ گیا ہے۔اِن حالات کو دیکھتے ہوئے حیدرآباد میں مقیم حافظ محمد رضا کامل جامعہ نظامیہ نے گزشتہ برس ہی آن لائن قرآن لرننگ اکیڈمی قائم کی۔ اِن کی یہ کوشش انتہائی ثمر آور ثابت ہورہی ہے۔گزشتہ ایک برس کے دوران تقریباًایک سو سے زائد طلباء آن لائن کے ذریعے دنیا کے مختلف گوشوں سے جڑتے ہوئے قرآن کی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔حافظ محمد رضانے اپنے پاس موجود جدید ٹیکنک سے آراستہ اسمارٹ فون کا استعمال کرتے ہوئے اِن طلباء کو نہایت آسان انداز سے درس دے رہے ہیں۔وہ ہرطالب علم کیلئے ایک وقت مقرر کیا ہے اور یومیہ اُسکے مقررہ وقت پر سبق سنتے ہیں اور اگر وہ طالب علم یاد نہیں کرپا رہا ہے تو دوبارہ اُسے یاد کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حافظ رضاکا کہنا ہے کہ کلاس کا نظام انفرادی اور گروپ کی شکل میں ہے۔ دس دس طلباء کا گروپ بنایا گیا ہے۔جس میں ہرطالب علم سے اُس کا سبق سناجاتا ہے۔ جبکہ انفرادی کلاس کیلئے زیادہ وقت دیا جاتا ہے اِس میں بڑی عمر پیشہ ور افراد بھی اپنی سہولت کے مطابق قرآن پاک تجوید کے ساتھ سیکھ رہے ہیں۔

حافظ محمد رضاکی جانب سے قائم کردہ آن لائن قرآن لرننگ اکیڈمی کا بہترین کارنامہ یہ ہے کہ اِس اکاڈمی کی جانب سے پہلی بارآن لائن طریقہ کار پرتعلیم حاصل کرتے ہوئے صرف گیارہ ماہ کے قلیل عرصہ میں میرقاسم علی ولدمیر علمدار علی نامی طالب علم نے مکمل قرآن پاک کو تجوید کے ساتھ حفظ کیا ہے۔

نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تویہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

حافظ محمد رضا نے شاعر مشرق علامہ اقبال کے اِ س شعر کو عملی جامہ پہنایا ہے۔اور اِس کواپنی محنت کے ذریعے حقیقت میں بدل دیا ہے۔ہم سب یہ جانتے ہیں کہ عالمی وباء کویڈ کی وجہ سے دنیا بھر کی معیشتیں ڈگمگارہی ہیں۔ تعلیم نظام اُتھل پتھل ہوگیا ہے۔چاروسمت خوف کا عالم ہے۔ لیکن ایسے خوف کی تاریکی میں بھی حافظ رضا نے اُمید کادیا روشن کرتے ہوئے روشنیوں کو بکھیرنے کی کوشش کی جو کامیاب ثابت ہورہی ہے۔جب سے روئے زمین پر قرآن پاک کو نازل کیا گیا اُس وقت سے ہی اس کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے۔ لوگ اِسے اپنے سینوں میں محفوظ کررہے ہیں۔ یقناً یہ کلام اللہ سبحان و تعالی کا ہے اور اِس کا محافظ بھی اللہ سبحان وتعالی ہی ہے۔قرآن سے قبل جتنی آسمانی کتابیں آئیں اُنکی حفاظت کی ذمہ داری اُس قوم پر ہی عائد کی گئی تھی۔ لیکن قرآن کے حفاظت کی ذمہ داری صاحب کلام یعنی اللہ نے اپنے ذمہ لی ہے۔ یہی وجہ کہ قرآن پاک قیامت تک جوں کا توں قائم رہیگا اُس میں ایک نقطے کا نہ اضافہ ہوگا اور نہ ہی اُس سے زیروزبر حذف کیا جائیگا۔ اللہ تعالی نے ایک جانب وباء کی صورت میں تعلیمی نظام کو ٹھپ کردیا ہے تو دوسری جانب اس مشکل گھڑی میں بھی اپنے قرآن کے حفاظ کرام کو تیار کروارہا ہے۔

نعوذباللہ چند شر پسند عناصر قرآن کو لیکر بے بنیاد باتیں کررہے ہیں۔روئے زمین پر امن کے لئے اُتارے گئے قرآن کی چند آیتوں کو تخریبی کاروائیوں سے جوڑنے کی مذموم کوشش کررہے ہیں۔شائد اللہ نے اُنھیں اِن آیتوں کے مفہوم کو صحیح سمجھنے کی توفیق نہیں دی۔کاش اگر قرآن کے صحیح معنی اور مفہوم کو سمجھ جائیں گے تو ایسی حرکت نہیں کریں گے۔اللہ ہمیں محفوظ رکھے اِن کے شر سے۔

ہم کئی نوجوانوں کو تقدیر پر شکوہ کرتے ہوئے دیکھا ہے جبکہ کامیابی ان ہی کے قدم چومتی ہے جو کام کو شروع کرتے ہوئے سخت محنت اور سنجیدگی سے آگے قدم بڑھاتے ہیں۔حافظ محمد رضاکی یہ سعی آج کے اِس پُرآشوب دور میں نوجوانوں کے لئے مثل اور مشعل راہ کا کام کررہی ہے۔ کیونکہ ایک جانب درس قرآن سے خدمت کا فریضہ بھی ادا ہورہا ہے اور دوسری جانب وقت دینے کے عوض فیس کی شکل میں آمدنی بھی ہورہی ہے۔یعنی حافظ رضا نے اپنے پاس موجود کم وسائل میں ہی خود کو زمانے سے ہم آہنگ کردیا۔ کیونکہ زمانے میں وہی کامیاب ہوتے ہیں جو زمانے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ورنہ اپنے ساتھ نہ چلنے والوں کو زمانہ فراموش کردیتا ہے۔جب یوروپی ملکوں میں پرنٹنگ میشن ایجاد ہوئی تھی اُس وقت ترکی میں اس کے استعمال پر پابندی لگادی گئی تھی۔لیکن جب بعد میں اِس کی اہمیت اور افادیت کو سمجھا گیا تب تک ایک سوبرس بیت گئے تھے۔ لہذا اِس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں جدید ٹیکنالوجی پر تنقید کرنے کے بجائے اِس کے مثبت استعمال کو یقینی بنانے کی کوشش کریں۔تب ہی ہم زمانے کے ساتھ شانہ باشانہ چل سکتے ہیں۔

یہاں یہ بات ضروری ہے کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے دنیا سکڑ گئی ہے۔ بلکہ ایک جال سے مربوط ہوگئی ہے۔ڈاٹا کا دور ہے لہذا ہمیں بھی اپنی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ جدید ٹیکنالوجی سے مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔تاکہ دینی علوم کے تشنہ گان تک صحیح علم پہنچ سکے۔ انٹرنیٹ پر موجود مواد کو ہمیں سمجھنے کیلئے ایک معلم کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جو جانتا ہے وہی درس دے سکتا ہے۔اگر جاننے والے کے بغیر ہم علم سیکھنے کی کوشش کریں گے تو معنی اور مفہوم کو غلط سمجھیں گے۔موجودہ حالات کی وجہ سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ دینی مدارس کے طلباء کو بھی جدید ٹیکنالوجی کے علم سے آراستہ کرنا وقت کی اشد ضرورت بن گئی ہے۔ کیونکہ یہ طلباء جب جدید ٹیکنالوجی پر عبور حاصل کریں گے تو اُس میں دین کی صحیح تبلغ کا کام بخوبی انجام دے سکیں گے۔ہمیں بیان بازی نہیں بلکہ اِس میدان میں عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ اس نوجوان حافظ محمد رضا نے پہل کی اور اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر کامیابی کی سمت آگے بڑھ رہا ہے۔ایسے نوجوانوں کی کی ہمت افزائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مزید نوجوان حفاظ اس طرح کی خدمات انجام دے سکے۔ کیونکہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ نہ کر تقدیر کا شکوہ مقدر آزماتا جا ملے گی خود بہ خود منزل قدم آگے بڑھاتا جا آن لائن قرآن لرننگ اکیڈمی کی جانب سے فی الحال آن لائن طریقے سے مختلف کورس سکھائے جارہے ہیں۔جن میں حفظ القرآن، تجوید،نورانی قاعدہ،اردوزبان،نماز کے طریقے اور حدیث،اسلام کے بنیادی عقائد،نماز جنازہ کا طریقہ،اور ہفتہ واری روحانی اجتماع وغیرہ شامل ہیں۔سیکھنے والوں کی جانب سے اچھا ردعمل بھی مل رہا ہے۔اس اکاڈمی کے تعلق سے مزید جانکاری کے لئے قارئین کرام اکاڈمی کی ویب سائٹ https://sites.google.com/view/qlar/home
پر ربط پیداکرسکتے ہیں۔دنیا کے کسی بھی کونے سے گھر بیٹھے دینی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔
حافظ محمد رضانے اپنے مستقبل کے منصوبے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس اکاڈمی کو وسعت دینا چاہتے ہیں۔اپنے مزید ہم خیال نوجوانوں کی مدد سے اِسے آگے بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ دین وملت کی خدمت ہوسکے اور لوگوں کو اپنی سہولت کے مطابق اپنے گھر پر ہی آن لائن پڑھنے کی سہولت دستیاب ہوسکے۔

اِس نوجوان کی اِس مثالی خدمات کو لیکر مقامی لوگوں میں بھی کوفی خوشی دیکھی جارہی ہے۔کیونکہ انٹرنیٹ کے اِس دور میں نوجوانوں کی اکثریت سیروتفریح کے مواد سے لطف اندوز ہورہے ہیں لیکن ایسے میں بھی اس نوجوان نے اُمید کی شمع روش کرتے ہوئے سماج میں تعمیری رول نبھا کرمثال قائم کی ہے۔ آج ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے۔جو کچھ کرناچاہتے ہیں اور اُس کیلئے عملی اقدامات شروع کردیتے ہیں۔اِس مضمون کو تحریر کرنے کا مقصد اِس نوجوان کی ہمت افزائی کرنا اور ساتھ ہی ساتھ اِس طرح کی سوچ وفکر رکھنے والے نوجوانوں کو پیدا کرنا ہے تاکہ گوشہ گوشہ میں آن لائن تعلیم کی ایسی اکاڈمیاں قائم ہوجائیں۔

Tags:

You Might also Like