Type to search

تلنگانہ

میں اپنے فن کی بلندیوں سے کام لونگا۔۔۔ امبیڈکر کو سلام

tabrez hussain taj

ڈاکٹر تبریز حسین تاج
صحافی و ماہر امبیڈکر


آج یعنی 14اپریل دنیا کی ایک عظیم ہستی کا جنم دن ہے۔ جس نے ہندوستان کے اخراجی سماجی نظام کو شمولیاتی سماجی نظام میں تبدیل کردیا۔ اُس عظیم ہستی کو سارا عالم ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے نام سے جانتاہے۔اس مختصر مضمون میں آج امبیڈکر کے نظریات اور موجودہ حالات پر تبادلہ خیال کیا گیاہے۔

امبیڈ کر کا جنم 14اپرئل1891ء کو مدھیہ پردیش کے ماؤ میں ہوا۔(ماؤ کنٹونمنٹ میں اب امبیڈکر کی یادگار قائم کی گئی ہے جہاں سنگ مرمرکا مجسمہ لگایا گیاہے)امبیڈکر کے والد کا نام رام جی تھا اور والدہ کا نام بھیما بائی تھا۔والدین نے اُنکا نام بھیم راؤ رکھا۔

جبکہ اُنکے خاندان کا نام امباوادیکرتھا۔ اسکو ل میں انھیں انتہائی شفقت سے چاہنے والے ایک مد رس نے اُنکے نام کے ساتھ اپنے خاندان کا نام جوڑ کر اُنکے نام کو امبیڈکر لکھا۔اُسی نام سے اُمبیڈ کرنے شہرت حاصل کی۔امبیڈکر کے والد رام جی کا تعلق کونکن علاقے سے تھا۔

رتناگیری ضلع کے منجن گڑھ سے پانچ میل کے فاصلے پرانکا آبائی گاؤں موجود ہے۔امبیڈ کر کے دادا مالوجی سک پال کا تعلق مہار طبقے سے تھا۔ شودر(دلت) طبقے میں مہا ر طبقے کو کچھ حد برتری حاصل تھی کیونکہ اس طبقے میں علقمند اور باشعور افراد کی اکثریت تھی۔

ایسٹ اندیا کمپنی نے جس وقت فوج کو تشکیل دی تھی۔اُس فوج میں مہار طبقے نے بڑھی تعداد میں شامل ہوگئے تھے۔ امبیڈکر کے دادا مالوجی سک پال اس فوج میں صوبہ دار کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہے۔انکی دو اولاد تھی ایک لڑکا رام جی اور ایک لڑکی میراتھے۔

ذات پات و چھوت چھات کی شدید مخالفت انھیں میراث میں ملی کیونکہ ان کا خاندان کبیر داس کے اُصولوں کی تقلید کیا کرتا تھا جو ذات پات کی شدید مخالفت کرتا ہے۔امبیڈکر کو بچپن سے ہی ذات پات اور چھوت چھات کی وجہ سے سماج میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اِس کے باوجود امبیڈکر نے اپنی صلاحتوں کا لوہا ایسا منوایا کہ ساری قوم آج اُن ہی کے اُصولوں پر عمل پیرا ہے۔

وہ ہندوستان کے با بائے آئین ہیں کیونکہ آزاد ہندوستان کے دستور کے مسودہ کمیٹی کے صدرنشین ڈاکٹر بی آر امبیڈکر تھے۔اسی لئے ہندوستان کا آئین شمولیاتی سماجی نظام کی وکالت ہی نہیں بلکہ اسکی عکاسی بھی ہے۔آئین میں ملک کے تمام شہریوں کو بغیر کسی تفریق کے مساوی حقوق دئیے گئے ہیں یہ امبیڈکر کی ہی کوشش ہے۔

کاش ڈاکٹر امبیڈکر آئین سازی کی مسودہ کمیٹی کے صدرنشین نہ ہوتے تو شائد ہمارے دستور کی شکل و صورت کچھ اور ہی ہوتی۔بس یہی تمنا ہے کہ اس ملک کا اقتدار بھی امبیڈکر کے نظریات پر سنجیدیگی سے عمل کرنے والے ہاتھوں میں رہے۔تاکہ کوئی کمزور کسی بھی وجہ سے یعنی ذات پات مذہب رنگ نسل جنس، تعلیم، عہدوں کی بنیاد پر سماجی اخراجیت کا شکار نہ ہو۔

میں پوری ایمانداری سے یہ بات رقم کرہا ہونکہ کسی بھی مملکت میں فرد ہی اُسکی اکائی ہوتا ہے۔ اگر کسی مملکت میں سماجی بہبود کے فوائد سے کسی کو ذات پات مذہب رنگ نسل وجنس کی بنیاد پر محروم رکھا جاتا ہے تووہ مملکت کبھی ترقی کے منازل طئے نہیں کرسکتی ہے۔

مملکت میں موجود تمام افراد کی خوشخالی ہی مملکت کے صحت مند ہونے کی علامت ہے۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے صحافت کا استعمال بے زبانوں کی آواز بننے کیلئے کیا تھا۔امبیڈکر نے3اپریل 1927ء کو ”بہشکریت بھارت “ نام سے پندرہ روزہ مراٹھی اخبار شروع کیا۔

یہ اخبار کچلے دبے اور اچھوت طبقات کی آواز تھا۔بحیثیت ایڈیٹرامبیڈکر نے اپنی تحریروں سے اونچی ذاتی کے ہندؤں کا منہ توڑ جواب دیتے تھے۔اگر مہاراشٹر یا ملک کے کسی اخبار میں اس سلسلے میں کچھ تنقید ہوتی امبیڈکر فوراً اس پندرہ روزہ مراٹھی اخبار بہشکریت بھارت میں جواب دیتے۔

ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے اس عمل سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر دور میں میڈیا کے ایک گوشے نے کمزوروں کے خلاف نفرت کی رویہ رکھا ہے۔ آج اس پُرآشوب دور میں ہم اگر ہندوستان کے اہم میڈیا پر نظر ڈالیں تو یہ محصوص ہوتا ہے کہ وہ ہندوستا کے مسلمانوں کے خلاف ذہر اُگل رہا ہے۔

کسی بھی مسئلہ کو مسلمانوں سے جوڑ کر سماج منقسم کرنے کی مذموم کوشش میں لگا ہوا ہے۔ میڈیا کا یہ گوشہ امبیڈکر کی جانب سے دیئے گئے بولنے کے حق (حق اظہار خیال) کا غلط استعمال کرہا ہے۔چاہئے لو جہاد ہو کہ مآپ لینچگ یا پھر کرونا وبا کے اس درد بھری گھڑی میں تبلیغی مرکز کا معاملہ ہو۔

ہمیں امبیڈکر کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئیے نفرت پھیلانے والے اس تعصب میڈیا کہ خلاف حق کی آواز بلند کرنا چاہئے۔جو لوگ امبیڈکر کے اُصولو ں کی تقلید کرتے ہیں اُنھیں سیاسی وابستگی، مذہب اور ذات پات سے اوپر اُٹھ کر اس گھڑی میں حق کا ساتھ دینے کیلئے ایک جٹ ہونے کی ضرورت ہے۔

اگر اس وقت ہم امبیڈکر کے اُصولوں سے سمجھوتہ کریں گے تو شائد یہ ملک ہمیں معاف نہیں کریگا۔آج وقت ہے ملک کے ثقافت اور اُسکی عظمت کو بچانے کا کیونکہ ہندوستان یکساں تہذیب کی علامت نہیں بلکہ کثرت میں وحدت کی نشانی ہے۔

یہ ملک کسی ایک مذہب یا ذات کا نہیں بلکہ یہ ملک یہاں بسنے والے تمام شہریوں کا ہے۔امبیڈکر نے اپنی زندگی میں جس طرح حالات کا مقابلہ ڈٹ کرکیا ہے۔آج تمام مظلوموں کو امبیڈکربنے کی ضرورت ہے۔امبیڈکر نے کبھی بھی ہتھیار کا استعما ل نہیں کیا۔اُنہوں نے تعلیمی قابلیت سے ہی سماج میں اپنا لوہا منوایا ہے۔

آج بھی جو اپنے آپ کو کمزور ویامظلوم سمجھتے ہیں کہ انھیں چاہے وہ اپنے اندر ایسی صلاحتیں پیدا کرکے اپنے کو سماج اوروقت کی اشد ضرورت بنائیں تاکہ سماج انھیں ا اخراج کے بجائے شمولیت کیلئے باہیں کھولے۔ جس کیلئے ہرمظلوم اور کمزور فرد کو یہی منتر گانا ہوگا کہ

میں اپنے فن کی بلندیوں سے کام لونگا

مجھے مقام نہ دو میں خود مقام لونگا

جئے ہند جئے جئے ہند

Tags:

You Might also Like