Type to search

تلنگانہ

میں میں میں ۔ ایک خطرناک بیماری

aleem khan falki

کمانڈمنٹس آف لیڈرشِپ ۔ 2


میں یہ سمجھتا ہوں۔۔
میں حق بات کہتا ہوں۔۔۔۔
میں نے اتنے لوگوں کی مدد کی ہے۔۔۔

یہ ”میں میں میں“ کے وائرس سے ہر دس افراد میں سے نو افراد اس کے شکار ہیں۔ یہ قوم میں لیڈرشِپ کی کمی کا دوسرا سبب ہے۔ ہم نے پہلے کمانڈمنٹ میں یہ واضح کیا تھا کہ جب تک قوم ”چاہئے چاہئے“ کا پہاڑہ بند نہیں کرے گی یعنی ”حکومت کو یہ کرنا چاہئے، مسلمانوں کو وہ کرنا چاہئے“ قوم کسی بھی مثبت کا م کی طرف ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ دوسرا کمانڈمنٹ یہ ہے کہ اچھے لیڈر بننے کے لئے پہلے ایک اچھا والنٹئر بننا ضروری ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ یہ بیماری صرف عورتوں میں ہوتی ہے جو ہر ایک سامنے ”میرے ابا میری امی، ہمارا خاندان“ کی رٹ لگاتی ہیں۔ لیکن مشاہدات یہ بتارہے ہیں کہ مردوں میں یہ بیماری عورتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ کسی سے صرف دس منٹ گفتگو کیجئے وہ پانچ منٹ صرف یہ بتانے میں لگادیتا ہے کہ ”میں کتنا اہم ہوں“، جیسے
”میں کسی سے ڈرتا نہیں۔۔۔۔
”ہمارے دادا فلاں تھے، ہمارا خاندان فلاں ہے“
”فلاں فلاں تک میری رسائی ہے“

”ہمارا مسلک، ہمارے علما، ہمارا سلسلہ، ہمارا مدرسہ، ہماری جماعت، ہمارے لوگ ہی اصل دین پر قائم ہیں“
اس ”میں، میرا، میری، ہمارا“ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جو مخلص لوگ ہوتے ہیں بہت تیزی سے آپ سے دور ہوجاتے ہیں، جو بچ جاتے ہیں وہ چونکہ کوئی بھی مقصدِ حیات نہیں رکھتے اس لئے ایک چائے پر گھنٹوں ساتھ گزارنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ ان کو عام زبان میں چمچے کہتے ہیں۔ آپ یا تو انہی چمچوں کے ہوکر رہ جاتے ہیں یا پھر کسی کے آپ بھی چمچے بن جاتے ہیں۔

لیڈرشِپ کا دوسرا کمانڈمنٹ یہ ہے کہ آپ اِن ”میں، میں، میں“ کرنے والوں سے دور رہئے۔ ان کی اس عادت کو قرآن نے یوں واضح کیا ہے کہ ”لاتحسبن الذین یفرحون بما اتو و یحبون ان یحمدوا بمالم یفعلوا فلا تحسبنھم بمفازۃ من العذاب و لھم عذاب الیم۔ (سورہ آل عمران188)۔ یعنی جو لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں سے خوش ہوتے ہیں، بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں اور جو کام نہیں کئے وہ بھی اس طرح بیان کرتے ہیں گویا وہ انہی کی وجہ سے ہوئے اور اس طرح اپنی تعریف چاہتے ہیں، یہ مت سمجھو کہ وہ عذاب سے بچ گئے، ان کے لئے بڑا درد ناک عذاب ہے۔
یہ بات ایک حدیث میں بھی وارد ہوئی کہ قیامت میں تین لوگوں کو پیشانی کے بل بال گھسیٹ کر دوزخ کی طرف لایا جائیگا۔ ان میں سے ایک سخی ہوگا، دوسرا شہید اور تیسرا عابد۔ ان کو کہا جائیگا کہ تم نے یقینا نیک کاموں میں زندگی گزار دی، لیکن تمہارے دل میں یہ تھا کہ لوگ تمہاری سخاوت کی وجہ سے تمہاری عزت کریں، تمہاری بہادری سے مرعوب ہوجائیں، تمہارے ذہد وتقویٰ کے دیکھ کر متاثر ہوں، تمہیں یہ سب کچھ دنیا میں مل گیا اب یہاں جہنم کی آگ تمہارا انعام ہے“۔ اس ”میں“ کی کئی مثالیں ہیں۔ جیسے

گلی گلی مدرسے ہیں جن کی ضرورت نہیں۔ یہی متحرک علما یا حفاظ مل کر جو موجودہ مدرسے ہیں انہی کو مضبوط بنانا شروع کریں تو دینی تعلیم ترقی کرے گی اور ہر مدرسہ ایک کالج یا یونیورسٹی میں تبدیل ہوگا۔ لیکن ہر ایک کو ”بانی ۔ فاؤنڈر “ کہلانے کا جنون ہوتا ہے۔دو دو کمروں میں مدرسے چلانے کی وجہ سے دینی تعلیم کا معیار کہاں پہنچ گیا ہے یہ سبھی جانتے ہیں۔

این آر سی، سی اے اے، میں پانچ پانچ دس دس کے سینکڑوں گروپ بن گئے اور مختلف طریقوں سے احتجاج کرنے لگے۔ کوئی سڑکوں پر، کوئی سوشیل میڈیا پر۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گدھے گھوڑے سب برابر ہوگئے۔ حکومت بات کرتی بھی تو کس سے؟ کیا سینکڑوں لیڈروں کو جمع کرکے بات کی جاسکتی ہے؟ اگر تمام اپنی ”میں“ مٹا کر ایک بڑی جماعت کے والنٹئر بن جائیں تو ایک طاقت بن سکتے ہیں،پھر نہ کسی صفورہ کو گرفتار کیا جاسکتا ہے نہ شرجیل امام کو۔

 

ہمیں ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ جس وقت بال ٹھاکرے نے بمبئی میں قتل و خون کا بازار گرم کردیا تھا جس کے جواب میں داؤد ابراہیم نے دھماکوں سے بمبئی کو دہلا دیا تھا، نرسمہاراؤ جو اس وقت پرائم منسٹر تھا، وہ شیوسینا کے زخمیوں کے دیکھنے کے لئے بمبئی پہنچا۔ اس سے رپورٹرز نے پوچھا کہ کیا آپ مسلمانوں سے بھی ملے؟ اس نے جو ایک جملے میں جواب دیا تھا وہ عبرت ناک جملہ آج بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ اس نے کہا تھا ”میں کس سے ملتا؟“۔ یعنی تمام ہندو تو ضم ہوکر ایک طاقتور پارٹی بن چکے تھے جس کی لیڈرشِپ سے بات ہوسکتی تھی لیکن مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ ناگپاڑہ میں سو گروپ تھے، اندھیری میں دیڑھ سو اور بھیونڈی میں دو سو، ہر گروپ جس میں دو،دو، چار چار لوگ تھے ہر ایک شخص اپنے آپ کو بال ٹھاکرے کی طرح سمجھتا تھا کہ ”میں“ لیڈر ہوں۔ اب اگر کوئی حکومت بات کرے گی بھی تو کِس کِس سے؟

جہاں بھی مسلم ووٹ اتنے ہوتے ہیں کہ ان کے نمائندے کے جیتنے کے امکانات پورے پورے ہوتے ہیں وہاں کئی کئی لوگ الکشن لڑتے ہیں اور ایک دوسرے کے ووٹ کاٹتے ہیں۔ سب یہی سمجھتے ہیں کہ ”اسمبلی یا پارلیمنٹ میں ”میں“ جاکر مسلمانوں کی تقدیر پلٹ دوں گا۔ اور آخر میں جاتا ہے تو وہ شخص جاتا ہے جو سیکولر ووٹ لے کر ملک سے غداری کرتا ہے اور کچھ کروڑ روپیہ لے کر فرقہ پرست پارٹی جوائین کرلیتا ہے۔اگر دو دو چار چار ہزار ووٹ لے کر دشمنوں کو جِتانے کے بجائے اپنی ”میں“ کو قوم کی خاطر قربان کرکے اپنے آپ کو ایک جماعت بنائیں اور نظمِ جماعت قائم کرکے اپنے سے زیادہ قابل دوسرے کو سمجھیں تو اس سے اسلامی اخوت بھی قائم ہوگی اور سیاسی قوت بھی۔

لاک ڈاؤن کے دوران ہزاروں کی تعدا د میں لوگوں نے راشن تقسیم کئے۔ یہی کام سیاسی پارٹیوں نے بھی کیا جیسے آر ایس ایس، کانگریس، کمیونسٹ وغیرہ۔ جتنا ان تمام پارٹیوں نے جملہ خرچ کیا اس سے کہیں زیادہ مسلمانوں نے تقسیم کردیا۔ فرق یہ تھا کہ ہمارے لوگ اپنے اپنے طور پر تقسیم کرتے رہے، پاکٹ لینے والا پاکٹ لے کر بھول گیا کہ یہ کون تھے۔ لیکن جن پارٹیوں سے اسے پاکٹ ملا، اُسے یاد رہا کہ فلاں پارٹی نے میری مدد کی تھی۔ اس طرح وہ صرف پاکٹ لے کر نہیں گیا بلکہ ایک پارٹی کے پورے منشور Menifesto کو وہ اپنے ذہن میں بسا کر گیا جس سے پارٹیاں مضبوط ہوئیں۔ اس کا اثر پورے ملک پر پڑتا ہے لیکن ہمارے معصوم لوگ سمجھتے ہیں۔

اگر یہ لوگ یہی کام کرتے ہوئے صرف ایک بڑی جماعت کا بینر ہی لگا لیتے تو ایک اجتماعیت کو مضبوط کرتے۔ پاپولرفرنٹ، جماعتِ اسلامی، اہلِ حدیث، تبلیغی جماعت یا کسی بھی بڑی جماعت کو اگر اپنے کام کا کریڈٹ دِلاتے تو قوم ان جماعتوں سے جڑ کر ان کو بھی کریڈت دیتی۔ کچھ لوگ اپنی ”میں“ اس طرح بیچ میں لاتے ہیں کہ ”مجھے شہرت پسند نہیں“، ”میں سمجھتا ہوں کہ فلاں فلاں جماعت میں یہ یہ خامی ہے“، ”میں جماعتوں کے لیبل لگانے کا قائل نہیں“۔ ”میں صرف اللہ کے لئے یہ کام کررہا ہوں، کسی اور کو خوش کرنے کی مجھے ضرورت نہیں“۔

شہرت کی خواہش کے بغیر کام کرنا یقینا بہت اچھا جذبہ ہے لیکن یاد رہے کہ یہ ایک زبردست شیطانی وسوسہ بھی ہے۔ کیونکہ جس اللہ نے شہرت کی خواہش سے منع کیا ہے اسی اللہ نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ ”واعتصموا بحبل اللہ جمیعاّ“ یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو، یعنی ایک مضبوط جماعت بن جاو۔اپنی اپنی دیڑھ اینٹ کی مسجدیں بنانے کا انجام دیکھنے کے بعد کم از کم اب تو یہ سمجھنا چاہئے کہ آپ چاہے لاکھ امیر ہوں، تعلیم یافتہ ہوں، دانشور ہوں، عالمِ دین ہوں، یا جو بھی ہوں، اگر ہار سے جڑے تو نقلی موتی بھی اصلی ہیرے کی طرح لگتا ہے ورنہ اصلی ہیرا بھی چوروں کے کام آتا ہے۔ یاد رکھئے آپ ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں۔ یہاں انفرادیت Individuality کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، Masses کی اہمیت ہوتی ہے۔

یہ طاقت اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب سب اپنی اپنی ”میں“ کی طاقت کو ایک بڑی طاقت میں ضم کردیں۔ ورنہ اگر ہر شہر میں پانچ ہزار آرگنائزیشنس ہوں، پانچ ہزار پریسیڈنٹ، پانچ ہزار وائس پریسیڈنٹس اور پانچ ہزار جنرل سکریٹری ہوں، ہر آرگنائزیشن میں پانچ دس کارکن ہوں اور ہر آرگنائزیشن اپنی پوری توانائیاں صرف کرکے دو دو لاکھ چار چار لاکھ روپیہ جمع کرکے سماجی خدمات کرتی ہو، تو مجموعی طور پر پوری قوم کے کتنے افراد کا نقصان ہورہا ہے اور کتنے پیسے کا نقصان ہورہا ہے اس کا اندازہ لگا لیجئے۔ دو دو چار چار لاکھ سے چھوٹے چھوٹے فلاحی کام ہوتے ہیں جس سے سو دو سو لوگوں کی ہی مدد ہوتی ہے۔ لیکن ایک جماعت بن کر یہ پیسہ جمع کرلیں تو ہزاروں کروڑ بنتا ہے جس سے انڈسٹری یا یونیورسٹی یا میڈیا ہاؤس قائم ہوجاتا ہے۔

لوگ خود صدر یا نائب صدر بن کر خوش ہیں، اپنی ”میں“ کو کسی بڑی طاقت میں ضم نہیں کرسکتے، نتیجہ کیا ہے یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیجئے۔ بڑی جماعت کے ساتھ ہونے سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ ایک آٹو والے بھی ہیں تو ہاتھ میں پستول لے کر گھوم سکتے ہیں کوئی پولیس والے میں آپ کو روکنے کی ہمت نہیں ہوتی جیسا کہ آپ نے ابھی حالیہ دہلی کے فسادات میں دیکھا۔ لیکن اگر آپ چھوٹی چھوٹی تنظیموں کے صدر بھی ہوں، مرسیڈس گاڑی میں بھی پھرتے ہوں تو ایک پولیس والے سے بھی بات کرنے کے لئے کار سے اتر کر جاکر باادب کھڑا ہوکر بات کرنا پڑتا ہے۔ اپنے آپ کو کسی بڑی طاقت میں ضم کردینا اتنا ہی مشکل ہے جتنا مشکل بتوں کو چھوڑ کر ایک خدا کے آگے جھکنا ہوتا ہے، جسے علامہ اقبال نے یوں کہا کہ

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

یہ چھوٹی چھوٹی تنظیمیں گھاس پھوس کی طرح ہوتی ہیں، یا سمندر کے جھاگ کی طرح ہوتی ہیں۔ جب تک مالی مدد ملتی رہے، یہ کام کرتی ہیں۔ لیکن قوم کا اصل مال کا اور ذہین افراد کا سرمایہ یہ کھا جاتی ہیں۔ بڑی جماعتیں بھی افراد اور مال کی محتاج ہوتی ہیں اور یہ بھی۔ نہ بڑی جماعتیں اپنے منصوبوں کی تکمیل کرسکتی ہیں اور نہ یہ، دونوں کے دونوں ناکام رہتے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ اتنی بڑی بڑی جماعتیں ہیں کیا کررہی ہیں؟ جواب یہی ہے کہ جماعتیں توکام کررہی ہیں لیکن جماعتوں کے جسم میں جس خون کی ضرورت ہے وہ ان چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو قائم کرنے والے پورا چوس لے رہے ہیں۔

 

سیرتِ صحابہؓ کے اس واقعہ کو یاد رکھئے۔ ایک جنگ کے موقع پر ایک صحابیؓ تشریف لائے اور فرمایا کہ ”میرے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں سوائے میرے نام کے، کیا میں میرا نام دے سکتا ہوں؟“۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہاں تم اپنا نام بھی دے سکتے ہیں۔ جنگ کے ختم ہونے کے بعد جب لوگ مالِ غنیمت جمع کروارہے تھے تو اندھیرے میں ایک صحابی ؓ منہ پر رومال رکھے ہوئے آئے اور کچھ مال جمع کروایا۔

جمع کرنے والے نے جب نام پوچھا تو کہا کہ ”میں جس کے لئے یہ کام کررہا ہوں وہ میرا نام جانتا ہے“ سبحان اللہ۔ یہ تھا صحابہؓ کا وہ جذبہ جس کی وجہ سے وہ کم تعداد میں ہوکر بھی بڑی سے بڑی فوجوں کو شکست دے سکتے تھے، اور آج کروڑوں میں ہوکر بھی ہر محاذ پر ہم ذلیل ہیں۔ کیونکہ ہم ہر کام میں ”مجھے کتنی اہمیت دی جارہی ہے“ یہ ضرور دیکھتے ہیں۔ امام غزالیؒ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ ”اگر امام سلام پھیرتے ہوئے ترچھی نظر سے دیکھ لے اور صرف یہ سوچے کہ آج میرے پیچھے اتنے لوگوں نے نماز پڑھی ہے، اس امام کی نماز فاسد ہے۔ مقتدیوں کی نماز ہوجاتی ہے۔“۔آج آپ ہر شخص کی زبان سے کیا یہ نہیں سنتے کہ

”آج میرے جلسے میں اتنے ہزار لوگ تھے“
”اتنے لوگوں نے میری تقریر سن کر اسلام قبول کرلیا“
”فیس بک پر مجھے اتنے Likes ملے، ٹوئیٹر پر میرے اتنے Followers ہیں، یوٹیوپ پر میرے اتنے viewers ہیں“
”میرے مضامین فلاں فلاں اخبارات میں شائع ہوتے ہیں“

ایک عظیم مفکر نے فرمایا تھا کہ ایک عظیم الشان عمارت بنانی ہو تو اس کی بنیاد کے اینٹ اور پتھر بنو۔ ہر شخص کو اس عمارت کی Lighting یا دروازے یا کھڑکیاں بننے کی خواہش ہے لیکن بنیاد کے پتھر کوئی بننا نہیں چاہتا۔ لیڈرشپِ کا دوسرا کمانڈمنٹ یہی ہے کہ اپنے آ پ کو صحابہؓ کی طر ح والنٹیر بنالیں پھر اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا سپہ سالاری دے گا، جسے چاہے گا خلافت عطا کرے گا، اور ہم اقلیت میں بھی ہوکر حکومت کریں گے، ورنہ اگر سعودی عرب یا پاکستان کی طرح اکثریت بھی ہوجائیں تو غلام ہی رہیں گے، امریکہ کے چین کے اور روس کے۔ یا پھر ورلڈ بنک کے قرضے اتارتے ہوئے کئی نسلوں کی زندگی غربت اور افلاس میں گزر جائیگی۔ اگر ہم اسمبلی یا پارلیمنٹ میں گئے بھی تو جس جماعت کے ذریعے جائیں گے اس جماعت کے زرخرید غلام کی طرح ہوں گے۔ ان غلاموں کو آج بی جے پی، کانگریس، ٹی آر ایس، بی ایس پی، وغیرہ میں دیکھ لیجئے۔

 

ڈاکٹر علیم خان فلکی
9642571721
صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدرآباد
@aleemfalki

Tags:

You Might also Like