Type to search

تلنگانہ

ہم عید کی شاپنگ کیوں نہ کریں ؟

Shopping-in-Hyderabad
Imam Ali bin Maqsood Sheikh Falahi

امام علی بن مقصود شیخ فلاحی

 از قلم : امام علی بن مقصود شیخ فلاحی۔

قاریئین جیسا کہ آپ تمامی حضرات اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ آج تالا بندی کا 55واں دن ہے اور ہر شخص اس بات سے بھی بخوبی واقف ہے کہ تالا بندی کا معنی یہ ہوتا ہے کہ ہر نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی جائے جس سے یہ بات بھی بالکل عیاں ہو جاتی ہے کہ تالا بندی میں دوکانوں پر بھی قفل لگا یا جائے اور عوام کو خرید وفروخت سے باز رکھا جائے لیکن ہم اپنی حکومت کے بڑے ہی ممنوع ہیں کہ ہماری حکومت نے رمضان المبارک اور عیدالفطر کا لحاظ رکھتے ہوئے دوکانوں اور بازاروں سے رابطہ اور خرید وفروخت پر اعلان مثبت جاری کردی ہے-

جس کے ناطے مسلم عوام الناس کے مابین خوشیوں کا لہر آپڑا ہے لیکن مسلمانوں کا وہ طبقہ جسکا شمار خواص میں ہوتاہے یعنی کہ وہ طبقہ جو مسلم عوام کی رہبری کرتا ہے ‌انکی جانب سے یہ ہدایت جاری کی گئی ہے کہ اس آنے والے عیدالفطر میں کوئی بھی شخص خریداری نہ کرے جسکی وجہ سے یہ ہدایت نامہ عوام کے درمیان سوالیہ نشان بن چکا ہے کہ آخر عید الفطر کی خریداری سے کیوں منع کیا جارہا ہے ؟

تو اس سوال کا جواب میں کچھ اس طرح دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ جن لوگوں کو یہ ہدایت جاری کی گئی ہے وہ ہیں مسلمان، اور مسلمان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی شریعت اسلامیہ کے بتلائے ہوئے طرز پر بسر کرتاہے اور قرآن کا فرمان ہے کہ جب بھی اسلام یا مسلمانوں پر کسی الزامی یا آلامی خدشہ کا‌ اندیشہ ہو تو پہلے ہی سے مسلمانوں کو احتیاط برتنا شروع کر دینا چاہئے۔

جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مدنی دور میں بے شمار منافقین آپ کے ساتھ گھل مل کر رہا‌کرتے جبکہ آپ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ ہمارے درمیان منافق موجود ہیں لیکن آپ ان پر کوئی ردعمل نہیں کرتے تھے، انہیں کچھ نہیں کہتے تھے ، کیوں ؟ اسلئے کہ اسلام‌ پر الزامی خدشہ کا‌ اندیشہ تھا کہ اگر ان منافقین کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مارتے یا قتل کر تے تو وہ لوگ جو فی الوقت اسلام قبول نہیں کیے ہیں اسی طرح وہ احباب جو نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے ہیں جنکا‌ ایمان ابھی کمزور ہے وہ خیال کرتے کہ محمد لوگوں اپنے ہمراہ لیجاتے ہیں اور انہیں قتل کر دیتے ہیں۔ اس الزامی خدشہ سے بچنے کے واسطے اور اسلام پر آنچ نہ آنے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ کوئی منفی قدم نہیں اٹھاتے تھے۔

اسی طرح مسجد ضرار کا مسئلہ لے لیجئے جس میں آلامی خدشہ کی وضاحت موجود ہے جسے قرآن نے بڑے ہی دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے، قرآن کہتا ہے

والَّذِیْنَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرارًا وَّ کُفْرًا وَّ تَفْرِیْقًام بَیْنَ الموٴمِنِیْنَ وارصادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰہ وَرَسُولَہ مِنْ قَبْل ط وَلِیَحْلِفُنَّ اِن اردنا اِلاَّ الْحُسْنٰی ط وَاللّٰہُ یَشْہَدُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْن ط (التوبہ: ۱۰۷)

اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ
حنین کے بعد جب ابوعامر نے محسوس کرلیا کہ عرب کی کوئی طاقت اسلام کو کچلنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی تو بھاگ کر ملک شام پہنچا اور منافقین مدینہ کو خط لکھا کہ میں قیصر روم سے مل کر ایک لشکر جرار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں لانے والا ہوں جو چشم زدن میں ان کے سارے منصوبے خاک میں ملادے گا، اور مسلمانوں کو بالکل پامال کرکے چھوڑے گا۔

(العیاذ باللہ) تم فی الحال ایک عمارت مسجد کے نام سے بنالو جہاں نماز کے بہانے سے جمع ہوکر اسلام کے خلاف ہر قسم کے سازشی مشورے کیے جاسکیں اور قاصد تم کو وہیں میرے خطوط وغیرہ پہنچادیا کرے اور میں بذات خود آؤں تو ایک موزوں جگہ ٹھہرنے اور ملنے کی ہو۔ یہ خبیث مقاصد تھے جن کے لیے مسجد ضرار تیار ہوئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو بہانہ یہ کیا کہ یا رسول اللہ ! خدا کی قسم ہماری نیت بری نہیں بلکہ بارش اور سردی وغیرہ میں یا مخصوص بیماروں، فاقوں اور ارباب حوائج کو مسجد قبا تک جانا دشوار ہوتا ہے۔ اس لیے یہ مسجد بنائی گئی ہے۔ تاکہ نمازیوں کو سہولت ہو اور مسجد قبا میں تنگیٴ مکان کی شکایت نہ رہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ وہاں چل کر نماز پڑھ لیں تو ہمارے لیے موجب برکت اور سعادت ہو۔

یہ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل دیکھ کر بعض سادہ دل مسلمان حسن ظن کی بنا پر ان کے جال میں پھنس جائیں۔ آپ اس وقت تبوک جانے کے لیے پابہ رکاب تھے۔ فرمایا کہ اللہ نے چاہا تو ایسا ہوسکے گا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس ہوکر بالکل مدینہ کے قریب پہنچ گئے تب جبرئیل امین یہ آیات لے کر آئے جن میں منافقین کی ناپاک اغراض کو مطلع کرکے مسجد ضرار کا پول کھول دیاگیا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالک ابن خشم اور معن ابن عدی کو حکم دیا کہ اس مکان کو گراکر پیوند زمین بنادو۔ انھوں نے فوراً حکم کی تعمیل کی اور جلاکر خاک سیاہ کردیا۔ تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری،
بہر حال حاصل کلام یہ برآمد ہوا کہ جب بھی اسلام پر یا مسلمانوں پر کسی الزامی یا آلامی خدشہ کا اندیشہ ہو تو پہلے ہی سے مسلمانوں کو احتیاط برتنا چاہیے۔

اب ذرا اپنے موضوع پر لوٹتا ہوں کہ آج جو مسلمانوں کو عید پر خریداری سے روکا جا رہا ہے اس کی وجہ بھی یہی الزامی یا آلامی خدشہ ہے ۔ وہ اس لئے کہ اس ملک میں مسلمان پہلے ہی سے نشانے پر ہیں اور اس ملک کی میڈیا کا کیا کہنا وہ تو ہاتھ دھو کر مسلمانوں کے پیچھے پڑی ہے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے پر تلی‌ ہوئی ہے ، رات دن ٹیلی ویژن پر ہندو مسلم کی بحث ہو رہی ہے،

ابھی چند دنوں قبل تو میڈیا نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لئے مرکز نظام الدین کا مسئلہ چھیڑا اور مسلمانوں کو کورونا وائرس کا موجد ٹھہرا دیا صرف اس وجہ سے کہ مرکز میں کچھ مسلمان اکٹھا پھنسے ہوئے تھے، جبکہ اس معاملہ پر مرکز والوں نے دہلی پولیس کو باخبر بھی کیا تھا‌ لیکن دہلی پولیس نے اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا اور بعد میں وہی دہلی پولیس نے مولانا سعد صاحب کو گرفتارکر لیا اور میڈیا کو موقع ملا تو اس نے کورونا جہاد جیسا نعرہ بھی لگانا شروع کر دیا ۔

انہیں تمام معاملوں کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلم لیڈروں نے دوربینی کے ساتھ کام لیا اور مسلم عوام کو عید پر خریداری سے منع کردیا‌۔

وہ دور بینی کیا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ ابھی تک تو تالا بندی کا سلسلہ کافی وسیع ہو چکاہے اور اب چوتھی کڑی کی شروعات ہو چکی ہے اور جب دوسری کڑی کی ابتدا ہوئی تھی تو مسلمانوں پر کافی طنزیہ کلام کئے گئے تھے کہ کورونا وائرس کو مسلمانوں ہی نے منتشر کیا ہے اور اسی بنا پر حکومت نے‌تالا بندی کا دوسرا سلسلہ جاری کیا ہے اور بھی طرح طرح کے طنز کسے جارہے تھے کیونکہ پہلے ہی کڑی میں مرکز نظام الدین کا مسئلہ برآمد ہوا تھا ،

لیکن فی الوقت تو ماشاء اللہ سب ٹھیک ہے اور میڈیا کے پاس مسلمانوں کا کوئی مدعی نہیں ہے تو ہو سکتا کہ عیدالفطر کی خریداری پر جب کسی دوکان پر مسلمانوں کا ہجوم ہو اسی کو میڈیا گرفت میں لے لے اور دوبارہ مسلمانوں کو بدنام کرنا شروع کر دے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسی ہجوم میں سے کسی کو کورینٹائین میں داخل کردے اور یونہی کسی پر کورونا مثبت‌ ثابت کردے اور پھر اسی کے پیش نظر 5ویں تالا بندی کا اعلان کردے اور پھر دوبارہ مسلمانوں پر طنزیہ کلام کسے جانے لگیں۔

بہر کیف ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم لیڈروں نے یہ خیال کیا کہ شاید اسلام یا مسلمانوں پر الزامی یا آلامی خدشہ ظاہر ہو سکتا ہے تو اسی لیئے عیدالفطر کی خریداری سے منع کردیا۔

 نوٹ: اس مضمون کو امام علی بن مقصود شیخ فلاحی نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔

Tags:

You Might also Like

1 Comment

  1. Jamshed May 19, 2020

    Masllha