Type to search

تلنگانہ

جسمانی آزادی نے ہمیں ذہنی غلام بنا دیا

جسمانی آزادی

ازقلم: شبنم اختر علی۔


کچھ سالوں پہلے جنوبی ایشیاء کا ایک بڑا حصہ برصغیر جو ہندوستان کے نام سے موسوم تھا، جس میں موجود ہندوستان، پاکستان، نیپال، بھوٹان، بنگلادیش، سریلنکا، وغیرہ شامل تھے۔

جہاں انگریز حکومت کا قبضہ تھا، جن کی سلطنت کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ انکے سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوسکتا۔

اتنی بڑی سلطنت کے مالک اور طاقتور ہونے کے باوجود مسلمانوں کی بدولت اور جد وجہد کے بعد 14/ اگست 1947 کا سورج انگریزی حکومت کو اپنے ساتھ لئے غروب ہوگیا تھا۔ اور 15/ اگست 1947 کو مکمل طور پر برصغیر ”ہندوستان“ آزاد ہوگیا۔
آج جس آزاد ملک میں ہم سانس لے رہے ہیں اس کی تعمیر اور تشکیل میں صد یاں لگ گیٸں ، یہ آزادی اتنی آسانی سے ہمارے حصّہ میں نہیں آئی ہے بلکہ اس آزادی کو حاصل کرنے کے لیے تقریباً ایک صدی سے زاٸد عرصے تک ہندوستان کی سرزمین پر خون کی ندیاں بہتی رہیں، ملک کا ذرہ ذرہ لہو لہان ہوتا رہا ، لاکھوں سینے چھلنی ہوتے رہے ، سیکڑوں مانگیں سونی ہوتی رہیں ،لاتعداد گودیں سونی ہوتی رہیں ، نہ معلوم کتنے معصوم بچے یتیم ہو گۓ ،کتنی بہنوں کو اپنے بھاٸیوں کی محبّتوں سے محروم رہنا پڑا ۔

غرض یہ کہ اس ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے ہندوستان کے بچّے بچّے نے اپنی جان کی بازی لگا دی ، خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان ، سکھ ہو یا عیسائی ،جین ہو یا پارسی نہ کوئی مذہب تھا ،نہ قوم، نہ فرقہ ،جزبہ تھا تو صرف اور صرف وطنیت کا، اپنے مادرِ وطن ہندوستان سے مَحبّت کا ،اپنے ملک پر سب کچھ لٹا دینے کا حوصلہ تھا ،جدّو جہد تھی تو صرف اپنے وطن کو آزاد کرانے کی ، ہندوستان کا بچّہ ، بوڑھا ،مرد عورت، نوجوان ہر فرد اپنی مٹی کی آزادی کے لیے ہر لمحہ جامِ شہادت پینے کے لیے تیار تھا ،اور اپنی جان کی بازی لگانے کو مستعد تھا۔

بہر حال! ہندوستان آزاد تو ہو گیا اور آج بھی آزاد ہی ہے لیکن کیا یہاں کے لوگ اب بھی آزاد ہیں؟

یہاں کے لوگوں کی آزادی پر بحث کرنے سے قبل ضروری سمجھتی ہوں کہ پہلے آزادی اور غلامی کا مفہوم واضح ہو جائے تاکہ بات کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہو۔

آزادی ایک احساس کا نام‌ ہے یہ ایک ایسا تحفہ ہے جسمیں ہر چیز سما سکتی ہے، یہ ایک ایسی چیز ہے جو لامحدود ہے جسکی کوئی حد نہیں، جس طرح ہم ہوا ، بادل، بارش، روشنی، خوشبو، خوشی، محبت، محسوس کرسکتے ہیں اور چھو بھی سکتے ہیں مگر قید نہیں کرسکتے ٹھیک اسی طرح آزادی کا بھی قصہ ہے، یہ ایک ایسی چیز ہے جسے ہم قید نہیں کرسکتے۔

اور اگر غلامی کی بات کی جائے تو غلامی صرف یہی نہیں ہے‌ کہ کسی شخص کو قید کردیا جائے یا کسی کو غلام بنا لیا جائے، جسطرح آزادی ہر چیز میں موجود ہوتی ہے اسی طرح غلامی بھی ہر چیز میں پا جاتی ہے۔

آج اکثر ہندوستانی آزادی کے باوجود غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔

آج ہمارے معاشرے کا یہ حال بن چکا ہے کہ جب تک شادی بیاہ میں جہیز کا تصور پیش نہ کیا جائے تب تک شادی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، آج کا نوجوان جب تک جہیز میں گاڑی نہیں لیتا تب تک وہ شادی نہیں کرتا کیونکہ اسکا ذہن گاڑی کی غلامی میں جکڑ چکا ہے۔

اس لئے وہ آزاد ہونے کے باوجود بھی غلامی کا شکار رہتا ہے، اس لئے آج کے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ خود کو اس غلامی سے آزاد کریں۔

اسی طرح آج کل بہت سے لوگوں کی یہ حالت بن چکی ہے کہ جب تک وہ نشہ نہیں کرتے تب تک انکے اندر چستی پیدا نہیں ہوتی، جب تک وہ نشے کی حالت میں چور نہیں ہوتے تب تک وہ سکون کی نیند سو نہیں پاتے، اس لئے انہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ خود کو اس نشے کی لت سے آزاد کریں۔

غرض یہ کہ آزادی کی کوئی حد نہیں ہے، کیونکہ آزادی کا تعلق ہر شعبے سے ہے چاہے وہ مذہب کا شعبہ ہو یا سیاست کا شعبہ، معیشت کا شعبہ ہو یا حق گوئی کا شعبہ۔

قارئین! بظاہر ہم آزاد تو ہیں لیکن پھر بھی نادیدہ طور پر غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔

کیونکہ اب یہ نئی نسل دین کو اپنے نئے نظریہ سے دیکھنے لگی ہے، اور لڑکیوں نے کہنا شروع کر دیا کہ پردہ نظر کا ہوتا ہے کسی اور کا نہیں۔

اور اسی جملے نے آدھی امت مسلمہ کی لڑکیوں کو برہنہ کر دیا۔

اور سب کی اپنی پرسنل لائف ہے، اس سوچ نے امت مسلمہ کے باپ بھائیوں کو بے غیرت کردیا۔

آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی آزاد نہیں ہیں، زنجیریں نہیں ہیں لیکن پھر بھی ان دیکھی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ دشمن نے ہمیں ہماری ذہنی صلاحیتوں، ہماری سوچوں کو جکڑا ہوا ہے اور ہم پاگلوں کی طرح ان کے اشاروں پر رشک کررہے ہیں، اور سوچ‌ رہے ہیں کہ ہم آزاد ہیں۔

لیکن در اصل ہم آزاد نہیں رہے، کیوں کہ نہ ہمیں سیاست میں برابر آزادی ملی، نہ مذہب میں برابر آزادی ملی، جہاں بھی ہیں ڈر کر ہیں، جھاں بھی ہیں جھک کر ہیں، جہاں بھی ہیں پریشانی میں ہیں، نہ اپنے مذہب میں بالکل آزاد ہیں، نہ خلافت و سیاست میں بالکل آزاد ہیں، نہ کمانے اور کھانے میں بالکل آزاد ہیں، نہ مسجد و مدرسے میں بالکل آزاد ہیں، نہ اپنے نظریے میں بالکل آزاد ہیں، ہر طرف سے جکڑے ہوئے ہیں، کہیں فکری اور ذہنی طور پر جکڑے ہوئے ہیں، تو کہیں ظلم و بربریت کے زنجیر میں جکڑے ہوئے ہی۔

لہذا یہ کہنا کہ ہم آزاد ہیں بالکل درست نہیں ہے بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ ہم آزاد ہوکر بھی آزاد نہیں ہیں اسی لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ذہنی طور پر آزاد ہوں، جہیز جیسے گھناؤنے فعل سے بھی آزاد ہوں، نشے کی لت سے بھی آزاد ہوں، دوسروں کو تکلیف دینے سے بھی آزاد ہوں، دوسروں کی برائی کرنے سے بھی آزاد ہوں، مذہبی اعتبار سے بھی آزاد ہوں اور سیاسی و معاشی اعتبار سے بھی آزاد ہوں۔


 نوٹ: اس مضمون کو شبنم اختر علی نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔