سعودی عرب میں بنا برقعہ کے گھوم رہی خواتین کی تصویریں وائرل
سعودی عرب،13ستمبر(اردو پوسٹ ڈاٹ کام) ٹیوٹر پر سعودی عرب کی بنا برقعہ والی تصویریں وائرل ہورہی ہے۔ اس تصویر میں خواتین بنا عبایا کے نظر آرہی ہے۔ مشیل الجلود نامی یہ خاتون 33 سال کی ہے، جو عبایا چھوڑ ویسٹرن کپڑوں وائٹ پتلون اور آرینج جیکٹ میں مال کے باہر گھومتی نظر آئی۔ مال کے باہر موجود بھیڑ انکو گھورتے دیکھے۔ لیکن خاتون بنداس انداز میں وہاں سے گذری۔
Defiant #Saudi woman Mashael al-Jaloud stunned onlookers on the streets of Riyadh by walking around without wearing the abaya.
“There are no clear laws, no protection. I might be at risk, might be subjected to assault from religious fanatics because I am without an abaya.” pic.twitter.com/6KzlG9g34U
— Kumail Soomro (@kumailsoomro) September 13, 2019
صرف مشیل الجلود Mashael al-Jaloud ہی نہیں بلکہ 25 سال کی سماجی کارکن منحیل Manahel al-Otaibi بھی عبایا چھور ویسٹرن وائٹ ٹی۔شرٹ اور ڈینم ڈنگری میں سڑکوں پر گھومتی دیکھی۔
ابھی تک سعودی عرب یا خاص کر اسلامک ملک میں خواتین کالے رنگ کا روایتی عبایا یا برقعہ پہنی ہے۔ وہاں اس لباس کو خواتین کی پاکیزگی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ لیکن اب سعودی پرنس محمد بن سلمان کے ایک انٹرویو کے بعد یہ بدلاؤ نظر آرہا ہے۔
The trend underscores a bold push for social liberties by young #Saudis that may outstrip the monarchy’s capacity for change. Manahel al-Otaibi, a 25-year-old activist, has also foregone the garment. #HumanRights #WomensRights pic.twitter.com/hlmb1pEnla
— Eman al-Hathloul (@EHathloul) September 12, 2019
دراصل سال 2018 میں شہزادہ محمد بن سلمان نے سی بی ایس کو دیئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ڈریس کوڈ میں چھوٹ دی جاسکتی ہے ان کا کہنا تھا کہ یہ پوشاک اسلام میں لازمی نہیں ہے۔ لیکن اسکے بعد بھی کئی باضابطہ قانون نہیں بننے کی وجہ سے یہ عمل برقرار ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہے جب سعودی عرب کی خواتین نے برقعہ کے خلاف اپنی آواز اٹھائی ہے۔ اس سے پہلے سوشل میڈیا پر سعودی عرب کی خواتین نے اس طرح کے پابندی کے خلاف عبایا بنا اپنی تصویر ڈالی ہے۔
لیکن بنا عبایا کے اس طرح سعودی عرب کی خواتین کا عوامی جگہ پر گھومنے کا معاملہ پہلی بار آیا ہے۔