Type to search

قومی

ٹیکنالوجی کا بڑھتا رجحان اور کتابوں کا مطالعہ

ٹیکنالوجی کا بڑھتا رجحان

از قلم :۔ صوفیہ یوسف
طالب علم
سنگم بیجبہارا، اننت ناگ۔

Email: sofisufaya1999@gmail.com


دور حاضر کو ہم ” ڈیجیٹل دور” بھی کہہ سکتے ہے۔ یہ دور ایک ایسا دور ہے جہاں ہر چیز انسان کے انگلیوں کے اشاروں سے چلتی ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ سب کچھ ڈیجیٹیلائیز ہوگیا ہے۔

موبائل فون، لیپ ٹاپ، ٹیبلیٹ، کمپیوٹر کچھ ایسے آلات ہیں جنکی مدد سے ہم گھر بیٹھے بیٹھے کوئی بھی کام انجام دے سکتے ہے۔ گوگل کی مدد سے ہم دنیا کے کسی بھی کونے میں رہ کر کوئی بھی جانکاری حاصل کرسکتے ہیں۔

ٹیکنالوجی کی مدد سے انسان چاند سے لے کر سمندر کی گہرائیوں تک تک پہنچ گیا۔ دور حاضر کی مصروفیات اور زندگی کی تیز رفتاری میں انٹرنیٹ ہمارا خاصا وقت بچا لیتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی مدد سے ہی ہم دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رابطہ کرسکتے ہیں۔ غرض ٹیکنالوجی نے ہماری زندگی کو آسان بنا دیا ہے۔

ڈیجیٹل دور نے جہاں زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے وہی شعبہ تعلیم پر بھی اپنا خاصا اثر ڈالا ہے۔ ڈیجیٹل دور کا ہی ایک شاہکار ہے آڈیو بکس جہاں اب لوگ کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بجائے انکو سن سکتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کے لئے ہیں جنکے پاس کتابوں کا مطالعہ کرنے کا وقت نہیں ہیں۔

جہاں ڈیجیٹل دور نے ہمارا کام آسان کیا تو وہی ہمارے اندر کتابوں کے مطالعہ کا شوق ختم کردیا ہیں۔ ڈیجیٹل دور نے ایک طرف ہمیں آسانی فراہم کی تو دوسری طرف ہمیں کاہل اور سست بنا دیا ہیں۔

اس ڈیجیٹل دور میں ہم انٹرنیٹ کے عادی بن چکے ہیں جہاں ہمیں ہر چیز بنی بنائی ملتی ہیں۔ لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ جو چیز، جو علم ہمیں کتابوں کا مطالعہ کرنے سے ملتا ہے وہ ہمیں آڑیو بکس سے کبھی حاصل نہیں ہوتا۔

کتابوں کی اہمیت اور ضرورت کسی بھی دور میں کم نہیں ہو سکتی کیونکہ یہی ہمارا سہارا اور دوست ہوتی ہیں۔ہر شخص قائل ہے کہ مطالعہ کرنے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ہر شخص مطالعہ نہیں کرتا البتہ جو لوگ مطالعہ کرتے ہیں وہ اس کے فائدے حاصل کرتے ہیں۔ مطالعہ کرنے سے ایک انسان میں علم، بیداری اور عقل میں اضافہ ہوتا ہے۔ کتابوں کا مطالعہ کرنے سے ہی ایک انسان جاہل سے مختلف ہوتا ہے۔ جتنا ایک انسان مطالعہ کرتاہے اتنا ہی اس انسان میں شعور بڑھتا ہے۔

لیکن آج کے اس ماڈرن اور ڈیجیٹل دور میں مطالعہ نہ کرنے کی شکایت عام ہے۔ تعلیم یافتہ افراد کی ایک بڑی تعداد لاپرواہی، کسل مندی اور بے توجہی کے باعث مطالعہ نہیں کرتی، بعض لوگ اپنی ملازمت سے مطمئن ہوکر مطالعہ چھوڑ دیتے ہیں۔

تجارت پیشہ افراد اپنی کاروباری مصروفیات کا بہانہ بناتے ہیں اور جو لوگ مطالعہ کرتے ہیں ان میں سے بھی بیشتر افراد بے ترتیب مطالعہ کرتے ہیں، کبھی کوئی کتاب اٹھالی، کبھی کوئی کتاب دیکھ لی، اس لئے مطالعہ کے باوجود کچھ حاصل نہیں کر پاتے اور حاصل مطالعہ لکھنے کی توفیق تو بڑے نصیب والوں کو حاصل ہوتی ہے۔ہم کتب کا مطالعہ کیوں کریں ایسی کون سی چیز ان میں پوشیدہ ہوتی ہے جو بنا مطالعہ ہمیں مل نہیں سکتی۔اس بات کو سمجھنے کے لئے پہلے ہمیں کتابوں کو سمجھنا ضروری ہے۔

آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق کتاب سے مراد ایک ایسا تحریری یا مطبوعہ مقالہ ہے جو متعدد صفحات پر مشتمل ہو اور جسے تہہ کرکے ایک طرف سے سجا دیا گیا ہو۔

کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی ہوتا ہے کہ دنیا کے کم و بیش تمام مذاہب کے پاس ان کی اپنی متبرک کتاب موجود ہے۔ ان کتابوں اور صحیفوں میں اس وقت کی اقوام اور فرقوں کو راہ راست اور زندگی کے صحیح اصولوں اور ضابطوں پر عمل پیرا ہونے کی جابجا تلقین کی گئی ہے۔

گویا کہ خدا تعالیٰ نے خود انسانوں کی ہدایت کے لئے اپنے پیغمبروں پر کتابیں نازل فرمائیں اور خدا کے پیغامات کا یہ سلسلہ برابر جاری رہا۔ حتیٰ کہ اس نے اپنے پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کے ذریعے آخری پیغام بھی قرآن مجید کے ذریعے ہی ارسال فرمایا۔

قرآن مجید جو دنیا کے لیے آفاقی پیغام پر مبنی ہے اس کی ابتدا ہی لفظ ’’کتاب‘‘ سے ہوتی ہے۔ یعنی ذٰلک الکتاب لا ریب فیہ۔ یوں یہ بات قابل غور ہے کہ انسانوں کی ہدایت اور پیغام رسانی کا بہترین ذریعہ خدا بزرگ و برتر نے کتاب ہی کو ٹھہرایا ہے۔

کتاب ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی ہدایت کرتی ہے۔ اس کے ذریعہ ہم ماضی کے سبق آموز واقعات اپنی آئندہ زندگی کے لئے مشعل راہ بناتے ہیں۔ کتاب صرف کاغذ کے خشک اوراق کا مجموعہ نہیں ہیں بلکہ زندگی کی گوناگوں عملی مصروفیات، تجربوں، عمل اور عقل، چلنا پھرنا وغیرہ کا ایسا خزانہ ہیں جس کی مدد سے ہر شخص اپنی زندگی کی خامیوں کو دور کر سکتا ہے۔

کتابوں کی مدد سے دماغ اور ذہن تسکین پاتے ہیں۔ اچھی کتاب ہماری رہبری اور عزم مسلسل پیدا کرتی ہے۔ اس کے مطالعے سے ہم اپنی کمزوریوں سے آگاہ ہو کر اپنی فکر کو روشنی بخشتے ہیں۔

لاعلمی ایک بڑا جرم ہے۔ اس سے نجات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ کتابیں ہیں۔ کتابیں امیر اور غریب، جوان ، بوڑھے، بچے، عورت، مرد سب کے لیے یکساں اہمیت کی حامل ہیں۔ ان پر کسی ایک طبقہ یا کسی ایک جنس کا حق نہیں بلکہ اس سے پوری انسانی برادری یکساں طور پر فیض یاب ہو سکتی ہے۔ کتابوں کو پڑھنے والے اپنی دلچسپی کے مطابق اپنی پسند کی کتاب پڑھ سکتے ہیں۔

مشہور فلسفی ایمرسن کا کہنا ہے ’’اچھی کتاب مثالی دوست اور سچا ساتھی ہے جو ہمیشہ سیدھے راستہ پر چلنے کی صلاح دیتی ہے‘’ ۔ ایک عالم کے مطابق کتاب ہی وہ واحد چیز ہے جو ایک انسان کو اپنے خالق سے ملا سکتی ہے۔ سقراط نے خوب کہا ہے ’’جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا مستحق نہیں وہ تو زندہ مردوں کا قبرستان ہے۔‘‘

لیکن اب ٹیکنالوجی اتنی تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے کہ اب یہی کتابیں ہمارے پاس آڈیو بکس کی شکل میں موجود ہیں۔ لیکن اس بات کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کا ایک بہت بڑا اثر ہمارے صحت پر پڑرہا ہے جسکی وجہ سے آجکل اکثر لوگ آنکھوں کے امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

ہر ایک چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک ہوتا ہے اسکے فاہدے اور دوسرے اسکے نقصانات اس چیز کا دارومدار اس چیز کے استعمال پر ہے اگر ہم اس چیز کو صحیح معنوں میں استعمال کرے تو ہم اس سے فائدہ حاصل کر سکتے ہے اور اگر ہم اسکا غلط استعمال کرتے ہیں تو ہم خصارہ اٹھاے گے۔

اگر ہم ٹیکنالوجی کا صحیح طریقے سے استعمال کرتے ہیں تو ہمارا کافی وقت بچھ سکتا ہے لیکن دوسری طرف اسی انٹرنیٹ پر ایسی ایسی ویب سائٹس موجود ہیں جہاں ہماری نوجوان نسل تباہ و برباد ہوسکتی ہیں۔ اب یہ ہم تک ہے کہ ہم اس ٹیکنالوجی کو کن کاموں میں لگایئے گے کیا ہم اسکو اپنی زندگی کو سدھارنے میں لگایئے گے یا پھر اسکو بگاڈنے میں۔

جب کورونا وائرس جیسی خطرناک بیماری دنیا بھر میں پھیل رہی تھی تب یہی ٹیکنالوجی ہی تھی جس سے مستفید ہو کر طلبہ نے اپنی تعلیم جاری رکھی تھی ۔ اب ایک اہم ذمہ داری طلبہ کے والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ دیکھے کہ انکے بچے انٹرنیٹ پر کونسی چیز دیکھ رہے ہیں۔

ٹیکنالوجی وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اور ہمیں اسکو اسکے فاہدے اور نقصانات کے ساتھ اپنانا ہوگا اور خود بھی اسکا صحیح استعمال کرنا ہوگا اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی سکھانا ہوگا تب ہی یہ ہماری کامیابی کاباعث بنے گا نہ کہ ہماری تباہی کا۔


 نوٹ: اس مضمون کو صوفیہ یوسف نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔