Type to search

قومی

محمد ﷺ کی زندگی کے تمام ادوار ہمارے لئے بہترین تقلیدی نمونہ ہے

محمد ﷺ کی زندگی

محمد عامل ذاکر مفتاحی


آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد محترم حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب آپ کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ مدت ایک بدوی قبیلہ کے ساتھ بسر کی جیسا عرب کا رواج تھا۔

اس کا مقصد بچوں کو فصیح عربی زبان سکھانا اور کھلی آب و ہوا میں صحت مند طریقے سے پرورش کرنا تھا۔پیدائش کے بعد چار روز تک والدہ نے بیٹے کو دودھ پلایا اور پھر چھ دن ابو لہب کی لونڈی ثوبیہ نے دودھ پلایا۔ طائف اور دیگر صحت افزاء مقام سے دودھ پلانے والی مائیں ان آبادیوں میں بچے لینے آتی تھیں۔

یتیم دیکھ کر کئی عورتوں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گود نہ لیا۔ حلیمہ سعدیہ ہر اعتبار سے کمزور تھیں اور انہیں کوئی بچہ بھی نہیں ملا تھا لہذا انہوں نے گھر بغیر بچے جانے کے یتیم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گود لینا پسند کیا اور قافلے کے ساتھ واپس روانہ ہو گئیں۔حلیمہ نے سوچا میں بچے کو غسل کرا دوں۔

مشکیزہ میں پانی بھرنے لگیں تو وہ گویا ستاروں سے بھر گیا۔ بڑی حیران ہوئیں۔ جب غسل دیا تو پھر مشکیزے سے ستارے نکل رہے تھے۔ غسل کے بعد حضرت حلیمہ کے خاوند حارث نے کہا حلیمہ بکریوں کے تھن دودھ سے بھر گئے ہیں۔ حلیمہ نے کہا کہ میں بھی ایسا ہی محسوس کر رہی ہوں۔ بچے سیر ہو کر دودھ پیئں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ قافلے اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔

حلیمہ کے جو جانور آتے ہوئے چل نہیں رہے تھے وہ اب دوڑ رہے تھے۔

دو سال کے بعد حلیمہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر ان کی والدہ کے پاس آئیں مگر والدہ نے یہ کہہ کر انہیں واپس کر دیا کہ ابھی اپنے پاس ہی رکھیں۔ اچھی آب و ہوا میں صحت اور اچھی ہو جائے گی۔مزید دو سال بعد حلیمہ نے دیکھا کہ آپ گھر کے باہر کھیل رہے تھے ایک فرشتے نے آپ کا سینہ مبارک چاک کر کے قلب اطہر نکالا، اس کو آب زم زم سے دھویا اور پھر واپس سینہ مبارک میں جوڑ دیا۔ اس واقع سے حلیمہ خائف ہو گئیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو واپس والدہ کے پاس لے آئیں اور سارا ماجرہ بھی سنایا۔

چار سال کی عمر مبارک میں طائف سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو سال اپنی والدہ ماجدہ کے پاس رہے۔ چھ سال کے ہوئے تو والدہ محترمہ یسرب اپنے عزیز و اقارب سے ملانے لے گئیں۔ شوہر کی بھی قبر کی زیارت کی۔ ایک ماہ قیام فرمایا واپس پر ابواء کے مقام پر جو بدر شریف کے قریب ہی ہے، وہاں طبیعت خراب ہوئی اور ابواء کے مقام پر رحلت فرما گئیں۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھ سال کی عمر میں والدہ کی شفقت سے بھی محروم ہوگئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خادمہ ام ایمن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے کر دادا کے پاس آئیں اور ان کی امانت ان کے حوالے کر دی ۔ دادا کو پوتے سے انتہا کا پیار تھا۔ ان کو کھیلتا کودتا دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ دو سال دادا کے پاس رہے تو وہ بھی 83 سال کی عمر میں پوتے کو خیر بعد کہہ گئے۔ اب آپ کی ذمے داری آپ کے چچا ابو طالب پر آپڑی جو چالیس سال تک اپنے پیارے بھتیجے کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے اور ہر طرح ان کا خیال رکھا۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران میں ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذرا ہوگا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔

خلعت نبوت

۹/ربیع الاوّل مطابق ۱۴/فروری ۶۱۰/ کو جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر چالیس برس ایک دن تھی تو باضابطہ طور پر آپ کو الله رب العزت نے خلعتِ نبوت کے ساتھ ممتاز و مشرف فرمایا۔ بعثت نبوی ( آپ صلی الله علیہ وسلم کو نبوت ملنے کے بعد سے شروع ہونے والا زمانہ) کے پہلے سال نمازیں فرض کر دی گئیں، اٹھارہ رمضان المبارک کو جب آپ کی عمر چالیس سال چھ ماہ چھ دن ہوئی تو آپ پر قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا۔

تبلیغ کی ابتداء اور مشکلات

نبوت ملنے کے تین سال بعد تک آپ خفیہ تبلیغ فرماتے رہے، جس کے نتیجے میں ۳۰ سے زائد افراد مسلمان ہوگئے، تین سال کے بعد آپ صلی الله علیہ و سلم نے اسلام کی تبلیغ علی الاعلان شروع کر دی، جس کے نتیجے میں کفار مکہ جو اس وقت بیت الله میں رکھے بتوں کو پوجا کرتے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے جانی دشمن بن کر آپ اور آپ کے صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم و صحابیات رضی الله تعالیٰ عنہن کو تکلیفیں پہنچانے لگے،

ان کفار مکہ کے مظالم جب حد سے بڑھنے لگے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے بعثت کے پانچویں سال اپنے صحابہٴ کرام رضی الله عنہم و دیگر اقارب کو جو تقریباً گیارہ مرد اور چار عورتوں پر مشتمل پندرہ افراد تھے، ملک حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیا ، پھر بعثت کے چھٹے سال حضرت حمزہ رضی الله تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنہ بھی اسلام لے آ ئے ، تو لوگ اعلانیہ اسلام میں داخل ہونے لگے، اسلام کی روز بروز بڑھتی ہوئی شان سے خوفزدہ ہوکر کفار مکہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے خاندان بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب کے مکمل مقاطعہ کے لیے ایک عہدنامہ لکھ کر بیت الله میں لٹکا دیا، اس طرح آپ صلی الله علیہ وسلم بعثت کے ساتویں سال ایک گھاٹی شعب ابی طالب میں اپنے تمام اقرباء ورفقاء سمیت مقید کر دیے گئے،

ان سخت حالات میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہٴ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کو ایک مرتبہ پھر ملکِ حبشہ کی طرف ہجرت کے لیے فرمایا، جن میں تراسی مرد اور بارہ عورتیں شامل تھیں، تین سال بعد اس شدید محاصرے کا خاتمہ ہوا۔ جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر تقریباً ۴۹ سال سات ماہ ہوئی تو ماہ شوال میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے چچا ابوطالب وفات پاگئے اور اس کے صرف تین دن بعد ہی حضرت خدیجہ رضی الله تعالیٰ عنہا کا بھی انتقال ہوگیا؛ اسی لیے آپ … نے اس سال کو عام الحزن(غم کا سال) فرمایا۔

حیاتِ طیبہ کے آخری لمحات

۱۱ھ میں سفر حج کے بعد ۲۶صفر ۱۱ھ بروز پیر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک سریہ جہاد روم کے لیے تیار فرمایا، جس میں حضرت صدیق اکبر رضی الله تعالیٰ عنہ، حضرت فاروق اعظم رضی الله تعالیٰ عنہ اور حضرت ابوعبیدہ رضی الله تعالیٰ عنہ جیسے اکابر شامل تھے؛ مگر اس کے امیر حضرت اسامہ رضی الله تعالیٰ عنہ مقرر ہوئے، یہ وہ آخری لشکر تھا، جس کا انتظام حضور صلی الله علیہ وسلم نے خود فرمایا، ابھی یہ لشکر روانہ نہ ہوا تھا کہ ۲۸/صفر ۱۱ھ میں آپ … کو بخار شروع ہوگیا، جب آپ … کا مرض طویل اور سخت ہوگیا تو ازواجِ مطہرات رضی الله تعالیٰ عنہما سے اجازت لے کر آخری ایام مرض میں عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہا کے گھر رہنے لگے، رفتہ رفتہ مرض اتنا بڑھ گیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم مسجد تک بھی تشریف نہ لاسکتے، ایسی صورت حال میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صدیق اکبر رضی الله تعالیٰ عنہ سے کہو کہ نماز پڑھائیں، تقریباً تیرہ دن متواتر یہ بخار رہا ارو ۱۲/ربیع الاوّل بروز پیر بوقت چاشت آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہاتھ کو بلند فرمایا: زبانِ قدسی سے اللّٰہم الرفیق الاعلیٰ کہتے ہوئے جسمِ اطہر سے روح انور پرواز کرکے عالمِ قُدس میں جا پہنچی، قمری سال کے مطابق اس وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی عمر ۶۳ سال چار دن تھی(۴۵)۔ انا لله و اناالیہ راجعون _

تحریر محمد عامل ذاکر مفتاحی
مدرسہ فاروقیہ و الفلاح کلاسس گوونڈی
برائے رابطہ 9004425429


 نوٹ: اس مضمون کو محمد عامل ذاکر مفتاحی نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔

1 Comment

  1. Imam Ali Falahi October 29, 2020

    Mashallah