Type to search

تلنگانہ

نیوجنریشن کے والدین اوراسلام

نیوجنریشن کے والدین

از:۔  محمد محسن خلیلی قادری۔

موبائیل نمبر: 8977864279


                 اللہ تعالیٰ نے جس کسی کوبھی اولاد سے نوازاہے وہ بہت خوش نصیب ہیں۔ اکثر دیکھاجارہا ہے کہ نیوجنریشن کے والدین اپنے بچوں کی تربیت میں کوتاہیاں کررہے ہیں جس کے سبب بچوں میں خاص کربڑوں کاادب اوربات کرنے کاانداز بدل چکاہے۔یہ ایک حقیقت ہے جس کومیں خود کئی جگہ دیکھ چکاہوں۔

نیوجنریشن کے والدین اپنے بچوں کوتربیت دینے سے زیادہ اپنے گھرکے جھگڑوں میں مصروف ہوچکے ہیں اورایک دوسرے کی برائی کرتے کرتے دن،مہینے،سال گزرجاتے ہیں۔مگراولاد کی تربیت یادنہیں رہتی جس کی وجہ سے اولاد بگڑجاتی ہے اس کااندازہ تب ہوتاہے جب اولاد نوجوانی کی عمر کو پہنچ جاتی ہے۔ اورہم نے اولاد کی تربیت میں کمی کردی۔اب اس افسوس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔

 

 

اس حقیقت سے بھی ہرکوئی واقف ہے کہ گھروں میں جھگڑے زیادہ اس لئے ہوتے ہیں کہ گھرمیں شیطانی ماحول حدسے زیادہ رَچ بَس گیاہے۔گھرمیں نہ کوئی فجرکی نماز پڑھتاہے نہ کوئی ظہرکی نماز،نہ کوئی عصرکی نماز،نہ کوئی مغرب،نہ کوئی عشا ء کی نماز۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ کل قیامت کے دن سب سے پہلے جو سوال ہوگاوہ نمازکاہی ہوگا۔میں یہ کوشش کروں گاکہ اس مضمون کے ذریعہ آپ کو سمجھانے کی کہ اولاد کی تربیت اس زمانہ میں کیوں ضروری ہے۔

 

 

اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اولاد کی تر بیت کو والدین کی اہم ذمہ داری قرار دیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ انسان کو اولاد کی صورت میں نعمت دے تو اس پر لازم ہے کہ ان کی صحیح تر بیت کریں، والدین بچے کی پرورش کرنے والے ہوتے ہیں جسمانی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی۔ جب والدین بچوں کی تر بیت اچھی طرح کرتے ہیں تو پھر بچوں کے جسم ہی نشو ونما نہیں پاتے بلکہ ان کے دل ودماغ کی صلاحیتیں بھی کھلتی ہیں۔لہٰذا والدین کو بچوں کی تر بیت سے ذرا بھی غفلت نہیں کرنی چاہئے۔

 

یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے وہ کسان جو اپنے کھیت پر محنت نہیں کرتا، اس کے کھیت میں بہت سی ایسی خورد رُو گھاس اُگ آتی ہیں جو اس کی اصل فصل کو خراب کر دیتی ہیں اسی طرح والدین جب بچے کی تربیت کا خیال نہیں کرتے تو بچے کے اندر بہت سے بُرے اخلاق پیدا ہو جاتے ہیں جو اس کی اصل شخصیت کو بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضورﷺنے فرمایا ہے کہ ہر بچہ فطرتِ اسلامی پر پیدا ہو تا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بناتے ہیں۔(مسلم)بنیادی طور پر بچے کی شخصیت پر تین چیزوں کے اثرات پڑتے ہیں۔سب سے پہلے اس کے والدین اور گھر یا خاندان کا اثر، پھر گلی کوچے کا اثر اور پھر جس مدرسے یا اسکول میں وہ پڑھنے جاتا ہے اس کا اثر پڑتاہے۔

 

 

 لیکن والدین کی بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بچوں کے لیے صحیح تربیت کے ساتھ ساتھ صحیح راستہ متعین کرنے میں ان کی رہنمائی کریں۔حضرت لقمان علیہ السلام کی نصیحتیں تربیتی نظرئیے سے بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔سب سے پہلے توحید۔ رب کی وحدانیت کی تعلیم دی گئی ہے۔موجودہ زمانے میں جبکہ نوجوانوں کا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی ذات پر ایمان بے حد کمزور ہو گیاہے اور اس سلسلے میں وہ طرح طرح کے شکوک و شبہات میں مبتلا ہوچکے ہیں، ان تعلیمات کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ لہٰذا ایک باپ، استاد کو اپنے بیٹے، شاگرد اور مرید کے دل و دماغ پر اللہ کی وحدانیت اور اس سے محبت کاواضح تصور پیدا کرنا چاہیے۔

 

 

 قرآن کریم میں حضرت لقمان علیہ السلام کی یہ نصیحت ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:ترجمہ:”اے میر ے پیارے بیٹے،اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانابے شک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔“ (لقمان:13) حضرت لقمان علیہ السلام نے سب سے پہلے اپنے بیٹے کو عقیدہئ توحید اور اللہ کی وحدانیت کا تعارف کرایا ہے، کیوں کہ اگر عقیدہئ توحید درست ہوجائے تو اللہ کی بندگی اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔عقیدہئ توحید یہ ہے کہ اللہ ہی خالق و مالک ہے اور اسی کی خالص بندگی کرنی ہے اور اسی کے ہوکر رہنا ہے۔ یہی عقیدہ ایک نوجوان کو عدل وانصاف پر قائم رکھ سکتا ہے اور اسی عقیدہ سے اس کی منتشر زندگی میں ٹھہراؤ آسکتا ہے۔

 

دوسری نصیحت یہ کی کہ اللہ کے علم سے کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ ترجمہ:”اے میرے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہوپھروہ خواہ کسی چٹان میں ہویاآسمان میں ہو یازمین میں ہو اسے اللہ ضرور لائے گا۔“(لقمان:16)نئی نسل کے ذہنوں میں یہ تصور راسخ کرناہوگاکہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہورہا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے ہر لمحہ اور ہر آن باخبر رہتاہے، اتناہی نہیں بلکہ انسان کے دل میں پیداہونے والے خیالات اور اس کے حرکات و سکنات سے بھی باخبر رہتاہے۔

 

 

 اس سے بھی زیادہ باریک چیز یعنی پتھرمیں پائے جانے والے کیڑے کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ بخوبی جانتاہے۔اگر یہ تصور والدین اپنی اولاد کے ذہن میں راسخ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سمجھ لیں کہ برائیوں کا طوفان اور فساد زدہ سماج بھی ان پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔تیسری نصیحت اللہ سے قریب ہونے یعنی نماز کو قائم کرنے کے متعلق ہے۔ یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ (لقمان:17)اور چوتھی نصیحت سماج کو صحیح و سالم اور صحت مند رکھنے کے حوالے سے ہے جس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ انجام دینے کی ہدایت ہے۔ اس کے بعد اس راہ میں جن مصائب ومشکلات کا سامنا کرنا پڑے ان پر صبر کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔اب سلسلہ شروع ہوتا ہے ان اخلاقی برائیوں کا جو حقیقت میں انسانی زندگی کے لیے تباہ کن ہیں۔ترجمہ:”لوگوں کے سامنے اپنی گردن نہ اَکڑاؤ۔“(لقمان:18)یعنی تکبر کے ساتھ لوگوں سے معاملہ نہ کر واور نہ ہی منہ پھیر کر بات کرو۔

 

 حضرت لقمان علیہ السلام کا ارشادہے:ترجمہ: ”یعنی زمین پر اتراکر نہ چل اللہ خودپسند اور فخرجتانے والے کسی بھی شخص کو پسند نہیں کرتا۔“(لقمان:18)یہاں اس بات کی تفہیم کرائی گئی ہے کہ علم و عمل کے لئے خود پسندی،متکبر اور فخر جتانے والے شخص کو اللہ تعالیٰ ہر گز پسند نہیں کرتا ہے۔

 

آخری نصیحت یہ تھی کہ بیٹے اپنی آواز پست کرکیوں کہ چیخنا چلانایا سخت لہجہ میں بات کرنا مؤمن کا شیوہ نہیں ہے۔ترجمہ: ”اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز کو پست کر بے شک سب سے بری آواز گدھے کی ہے۔“ (لقمان:19) حضرت لقمان علیہ السلام کی ان نصیحتوں اور ان کی حکمتوں کو سب سے پہلے والدین کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے اورپھر ان سے ملنے والی رہنمائی میں اپنی نسل کی تربیت کرنی چاہیے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ سورۂ لقمان کا خاص طور پر بہ غور مطالعہ کریں اور قرآن و حدیث کو عام طور پر اپنے لیے رہنما بنانے کی فکر کریں۔ایک صحت مند سماج کوکن بنیادوں اور اصولوں پر تشکیل دیا جائے،کن برائیوں سے بچانے کی تلقین ہو اور کن خوبیوں کو پروان چڑھایا جائے۔ یہ ایسی کار آمد نصیحتیں ہیں کہ ان کے بغیر نہ تو ایک خوبصورت خاندان اور معاشرہ کا وجود ممکن ہے اور نہ ہی نئی نسل کی دینی واخلاقی تربیت کی جاسکتی ہے۔والدین صرف نیک اولاد کی تمنا نہ کر یں بلکہ اولاد کو نیک بنانے کی کو شش بھی کریں۔

 

 والدین اپنی اولاد کے مزاج اور صلاحیتوں کا بخوبی جائزہ لیں اور دانشمندی سے ایک ایک خوبی کو پروان چڑھائیں۔بچوں کو ہمیشہ سچ بولنے،ایمانداری اور بھلائی کے کام کر نے کے علاوہ دوسروں کی مدد کی ترغیب دیں تاکہ ان کا بیٹا معاشی حیوان کے بجائے ایک سچا انسان بنے۔والدین تر بیت میں بچوں کی عمر اور استعداد کا لحاظ رکھنے سے نہ صرف بچوں کی طاقت کو صحیح رُخ دے سکتے ہیں بلکہ ان کی بہت سی برائیوں کو دور بھی کر سکتے ہیں۔ بچوں پر ان کی صلاحیت سے زیادہ بوجھ ڈالنا ایک حماقت ہے جس سے بچوں کی فطری صلاحیتوں کو شدید نقصان پہنچتاہے۔ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر کے لئے والدین بچوں کو اپنے حقوق کے علاوہ پڑوسیوں کے حقوق،رشتے داروں کے حقوق، چھوٹے بڑوں کے حقوق اور اساتذہ کے حقوق کی تعلیم و تر بیت کا اہتمام کریں۔

 

بچوں میں تہذیب کو پروان چڑھانے کے لئے انھیں ملاقات کے آداب،نشست و بر خاست کے آداب،مجلس کے آداب وغیر ہ کی تر بیت فراہم کر نابھی ضروری ہے تاکہ بچے مہذب زندگی بسر کرسکیں۔بچے کوجب سمجھ آجائے کہ صحیح کیاہے اورغلط کیاہے تو ان سے گھر کے چھوٹے موٹے کام لیے جائیں اور ان کو بطورِ تحفہ یا جیب خرچ کچھ پیسے دئیے جائیں۔

 

 بچوں کو سکھائیں کہ پیسے کی بچت بہت ضروری ہے، پیسے بچاکر ضرورت کی کوئی چیز خریدی جاسکتی ہے یا کسی ضرورت مند کی مدد بھی کی جاسکتی ہے یہ عمل اللہ کو بھی بہت پسند ہے۔بچوں میں بچت کا رجحان پیدا کرے اوریہ بھی بتائیں کہ فضول خرچی سے بچنا بہت اچھی عادت ہے۔ قرآن و حدیث میں فضول خرچی ناپسندیدہ عادت ہے اور یہ کہ فضول خرچی سے بچنے کے باعث انسان کبھی تنگ دست نہیں ہوتا۔اوربچوں کو جذبات کے اظہار کی آزادی دی جائے اور اگر وہ کسی غلطی کا ارتکاب بھی کر بیٹھیں تو احسن طریقے سے ان کوسمجھائیں۔

 

بچوں کے سب سے پہلے استاد والدین ہوتے ہیں۔ بچے کتابوں اور کلاس روم سے کہیں زیادہ اپنے والدین سے سیکھتے ہیں۔ والدین جو سب سے اہم باتیں اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں ان میں ایسے ہنر اور خیالات ہوتے ہیں، جو ساری زندگی ان کے ساتھ رہتے ہیں اور جن کو اپنا کر یا تو وہ ایک کامیاب اور خوشگوار زندگی گزارتے ہیں یا پھر اپنے والدین سے سیکھے ہوئے عادات و اطوار کے نتیجہ میں نہایت تلخ اور ناکام تجربات سے دوچار ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو والدین بچے کو عزت و احترام کے حوالے سے بتاتے ہیں۔

 

پیدائش کے بعد سے ہی جب والدین دوسروں کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتے ہیں اور خاص کر اپنے بچوں کے ساتھ تو بچے ان کا مشاہدہ کرتے ہیں اور خود بھی ایسا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جن گھروں میں میاں بیوی کے آپسی جھگڑے اور گالی گلوچ کا ماحول ہوتا ہے، میاں بیوی اپنے والدین اور ساس سسر کا احترام نہیں کرتے وہاں پلنے والے بچے بڑوں سے ادب و احترام کی اہمیت کوسمجھ نہیں پاتے۔ آخر میں میں اپنی بات ختم کرتے ہوئے یہ کہنا ضرور چاہونگا کہ بھروسہ، عزت واحترام اور ایمان داری، والدین روزانہ کی بنیادپر انھیں سکھائے اور بتائے جبکہ والدین کا رویہ اس کے برعکس ہو تو بچوں میں اخلاقی خوبیوں کا فروغ اور استحکام ناممکن ہوجاتا ہے۔

جو بچے دوسروں کا احترام کرتے ہیں ان کے دل و دماغ پر ادب واحترام نقش ہوکر رہ جاتا ہے اور وہ معمولی سی بات پر بھی کسی کا شکریہ ادا کرنا نہیں بھولتے اور یوں وہ خوش اخلاق انسان بن جاتے ہیں۔یہ اس صورت میں ہوتاہے جب والدین اور گھر کے افراد خود انہی خوبیوں اور عادتوں کا پیکر ہوں۔


 نوٹ: اس مضمون کو محمد محسن خلیلی قادری نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔