Type to search

قومی

باتیں تیری الہام ہیں، جادو تیری آواز۔ (راکیش ٹکیت)۔

باتیں تیری الہام ہیں

امام علی مقصود شیخ فلاحی۔

متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔


آج تقریباً دو مہینے بیت چکے ہیں، اور کسان‌ وہیں کے وہیں بیٹھے ہوئے ہیں، کیوں کہ وہ قانون ہی ایسا ہے جو کسانوں کے خلاف ہے، وہ قانون ہی ایسا ہے جو اڈانی اور امبانی کا‌ سہارا ہے، وہ قانون ہی ایسا ہے جو ملک کی معیشت کو تباہ کرنے والا ہے، وہ قانون ہی ایسا ہے جو ملک کو پستی میں لے جانے والا ہے، وہ قانون ہی ایسا ہے جو غریبوں کے پیٹ پر لات مارنے والا ہے، وہ قانون ہی ایسا ہے جو غریب کسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا ہے، مزید اگر میں یوں کہوں تو‌ بےجا نہ ہوگا کہ وہ قانون ہی ایسا ہے جو ہماری اور تمہاری نسلوں کو غلامی کی زنجیروں میں دوبارہ جکڑنے والا ہے۔

کیونکہ اگر وہ قانون لاگو ہوجاے گا تو وہ منڈی جو آج تک حکومت کی نگرانی میں ایک قانون کے تحت چلتی تھی، اور اسکے ذریعے کسانوں کی کمائی بھی ہوتی تھی ، کیونکہ وہ قانون ہی ایسا تھا جو کسانوں کی فصلوں کی عدم خریداری پر انہیں کم از کم قیمتوں میں حکومت ان سے انکا فصل خرید تی تھی، اور انہیں کم از کم‌‌ منافع دیتی تھی، لیکن اب جو قانون لایا گیا ہے وہ قانون ایسا ہے جس کے ذریعے منڈی اس قانون کے دائرے سے خارج ہوکر نا اہلوں کے پاس چلی جائے گی، یعنی کہ اڈانی اور امبانی اسکے مالک ہوں گے پھر وہ اپنے حساب سے خرید وفروخت کرنگے، جس حساب سے چاہیں گے کسانوں کی فصلوں کو خریدیں گے، اور جس حساب سے چاہیں گے بیچیں گے، جس کی وجہ سے کسان بھی بھوکے مریں گے اور غریب بھی بھوکے مریں گے۔

انہیں معاملوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کسانوں نے ایک تحریک چلائی، اور اس کالے قانون کے واپسی کا حکومت سے مطالبہ کرنے لگی، لیکن حکومت نے ان کی نہ سنی، پھر کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے کسانوں نے چکہ جام کردیا، ہریانہ سے لیکر پنجاب تک یوپی سے لیکر بہار تک کھلبلی مچا کر رکھ دی، اور جوق در جوق کسانوں کی ٹولی آتی چلی گئی، اور دہلی کو نشانہ بناتی چلی گئی۔

پھر کیا ہوا لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا۔

جسے دیکھ کر حکومت کی ہوا اکھڑ گئی، لیکن پھر بھی دماغ ٹھکانے نہ آئی۔ اور کسان مسلسل اپنی باتیں رکھتے رہے، حکومت کو مناتے رہے، اپنی فریاد سناتے رہے، کسانوں کی جماعت بلاتے رہے، ہڑتال پر ہڑتال کرتے رہے، بھارت کو بند کرتے رہے، لیکن حکومت ٹس سے مس ہونے سے رکتی رہی۔

پھر کیا تھا؟ وہ دن‌ بھی آنے والا تھا، جس دن‌‌ کا انتظار تھا، جمہوریت کا آسرا تھا، وہ بھی کام نہ آتا تھا، اور وہ دن بھی آنے والا تھا، جس دن کو جمہوریت منایا جانا تھا۔

یہ وہ دن تھا جس دن دنیا کا سب سے بڑا یوم جمہوریہ منایا جاتا تھا، دہلی کے راج پتھ کو سجایا گیا تھا، ہزاروں کی تعداد کو بلایا گیا تھا، اور جس دن کے دید کی خواہش پوری دنیا رکھی تھی، سب کو اسی کا انتظار تھا۔

بہر کیف ! دو مہینے بیت گئے، حکومت بھی پریشان، کسان بھی پریشان، حکومت کی پریشانی اس وجہ سے کہ یہ لاکھوں کا مجمع ہٹے گا کیسے؟ اور کسانوں کی پریشانی اس لحاظ سے کہ یہ کالا قانون واپس ہوگا کیسے؟

چھبیس جنوری کی صبح ہوئی، کسانوں نے ریلی نکالی، تاکہ اب تو کم از کم شرم کے مارے کہ پوری دنیا اسے دیکھ رہی ہے، اس کالے قانون کو واپس کرلے!

لیکن حکومت نے ایک ایسی چال چلی کہ کسانوں کی جماعت بکھرنے لگی، اور اپنے گھروں کو جانے لگی۔
وہ اس طرح کہ چھبیس جنوری کے ٹریکٹر پریڈ میں کچھ لوگ لال قلعے میں پہنچ گئے اور وہاں جاکر لگے ہوئے ترنگے کی بے حرمتی کی، جس جگہ پر خالص ترنگے کو لہرایا جاتا ہے وہاں پر ایک دوسرے پرچم کو لہرایا گیا، جس جگہ پر خالص وزیر اعظم ترنگا لہراتا ہے ، اس جگہ پر کسانوں نے اپنا جھنڈا لہرایا تھا، جب کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

بہر حال وہ ویڈیو جس میں کسانوں نے اپنا جھنڈا لال قلعہ پر لہرایا تھا وہ لوگوں میں منتشر ہوگیا۔

پھر اسی ویڈیو کو لیکر گودی میڈیا اپنے گھناؤنے چہرے کے ساتھ منظر عام پر آئی ، پھر اپنی‌گندی اور سڑیل زبان سے یہ بات عام کردی کہ دیکھو ان کسانوں نے کیسے ترنگے کی بے حرمتی کی، ساتھ ہی ساتھ حکومت نے دہلی کی انٹرنیٹ سروس کو بھی بند کردیا، تاکہ کسان اپنی بات نہ رکھ سکیں، اور دلالی میڈیا کو اپنی گودی میں بٹھا کر اس سے ایسا کام لیا کہ چند ہی گھنٹوں میں کسان بدنام ہو گئے، انکی جماعت بکھرنے لگی، وہ اپنے گھروں کو جانے لگے۔

اور گودی میڈیا جو انکی محنت مزدوری پر پلتی رہی، انکے اگائے ہوئے اناج کھاتی رہی، انکی بنائ ہوئ روٹی توڑتی رہی، مزید انہیں بدنام کرنے کے لئے پرزور طاقت لگاتی رہی، انہیں خیالستانی کہتی رہی، دیش دروہی کہتی رہی، دیش کا غدار بناتی رہی، آتنک وادی بتلاتی رہی ، اور انہیں بھگانے کی اور انکے احتجاج کو ختم کرنے کی کوشش کرتی رہی۔
جسکی وجہ سے پھر وہی نعرے گونجنے لگے کہ ، دیش کے غداروں کو گولی مارو‌ سالوں کو۔
قارئین! کیا جو بھی اپنے حق کے لئے وہ دیش کا غدار بن جاتا ہے؟ پھر وفادار کون ہے؟ کیا وفادار وہی ہے جو دلالی کرے؟ کیا وفادار وہی ہے جو گودی میں بیٹھے؟

جب حکومت کی نظر میں کسان بھی غدار ہے، جامعہ میں پڑھنے والا بھی غدار ہے، علی گڑھ میں پڑھنے والا بھی غدار ہے، جے این یو میں پڑھنے والا بھی غدار ہے، تو وفادار کون ہے؟ وہی نا! جو اسکی دلالی کرے، وہی نا! جو اسکے تلوے چاٹے، وہی نا! جو اسکے گود‌ میں بیٹھے۔
وہی وفادار ہے نا!

جب دلالی میڈیا نے لوگوں کو بھڑکا دیا اور کسانوں کو بدنام کردیا، انہیں دیش کا غدار اور آتنکواد کہہ دیا تو کیا ہوا؟

وہی ہوا جو ہونا تھا، احتجاج ختم ہونے کو تھا، لوگ گھروں کو جارہے تھے، اور اب ایسا نظر آرہا تھا کہ سچ میں احتجاج اپنے اختتام پر ہے۔ لیکن نہیں ! معاملہ کچھ الٹا ہوگیا۔

راکیش ٹکیت ، جوکہ بھارتیہ کسان یونین کا ترجمان ہے، دہاڑتا ہوا باہر نکلا اور دودھ کا دودھ، پانی کا پانی کردیا، اس نے واضح طور پر کہا کہ جس نے لال قلعہ پر ترنگے کی بے حرمتی کی ہے وہ کوئی کسان نہیں بلکہ بھاجپا کا پلا شاہ کا ساتھی دیپ سدھو‌ نامی شخص تھا جو اس ہنگامے میں پیش پیش تھا، ماناکہ اس ہنگامے میں کسانوں کی ایک قلیل جماعت تھی لیکن اس میں بھی مودی اور شاہ کا ساتھی دیپ سدھو سب سے آگے تھا، اسی نے لال قلعہ پر چڑھ کر اپنے جھنڈے کو لہرایا تھا، یہ ایک الگ موضوع ہے کہ اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرلیا گیا ہے، لیکن کیا کسی کو پتہ ہے کہ وہ ابھی کہاں ہے؟ نہیں۔

بہر حال ! اسی نے کسانوں کو بہکایا اور لال قلعہ کی جانب انکو لیکر روانہ ہوا،یہی وجہ تھی کہ اس وقت لال قلعہ کے پاس پولیس کی ایک جماعت ہاتھ پر ہاتھ دھرے کرسی پر ٹیک لگائے بیٹھی تھی، اور انہیں روکنے کے بجائے سارا تماشا دیکھ رہی تھی۔
راکیش ٹکیت نے بڑے دردانہ انداز میں اور آنسوؤں کے بوچھار میں کہا کہ آج ملک کے کسانوں کو حکومت بدنام کرنے پر تلی ہوئی ہے، انہیں مارنے کی کوشش کر رہی ہے، اس نے یہ بھی کہا کہ آج میرے کسان کو حکومت برباد کرنے پر تلی ہوئی ہے، انہیں مارنے کی سازشیں رچی جارہی ہیں، انکے پانی سپلائی پر روک لگا دی گئی ہے،۔
بھاجپا کے تین سو لوگ ہمارے ارد گرد اسلحوں کے ساتھ موجود ہیں، لیکن میں ایسا نہیں ہونے دوں گا، کسانوں کو برباد نہیں ہونے دوں گا، میں یہیں پیٹھا رہوں گا، اگر اس کالے قانون کو واپس نہیں لیاجائے گا تو میں یہیں پر خود کشی کرلوں گا، اور میں تب تک پانی نہیں پیؤں گا جب تک میرا کسان خود مجھے پانی لاکر نہیں دے گا۔
گویا راکیش ٹکیت کی آنسوں میں کسانوں کی للکارا تھی ، اور انہیں پکار رہی تھی۔

اس ویڈیو کو وائرل ہونا ہی تھا کہ کسانوں میں دوبارہ کھلبلی مچ گئی، جو جہاں تھا وہیں رک گیا، اور جو اپنے گھر کو پہنچ گیا تھا وہ دوبارہ تیاری کرنے لگا۔

اور یہ خبریں آنے لگیں کہ غازی آباد، مظفر نگر، فتح آباد، چرکھی دادری، روہتک، باغ پتھ، حصار، ہمانی، ان سب جگہوں سے کسان راکیش ٹکیت کے ساتھ کے لئے غازی پور بورڈر روانہ ہونے لگے ہیں۔
اسکے علاوہ راکیش ٹکیت کے بڑے بھائی نریش ٹکیت نے بھی یہ اعلان کردیا کہ سارے کسان غازی پور پہنچے اور جو کسان راستے میں ہیں وہ دوبارہ لوٹ جائیں۔

ہریانہ سے بھی خبریں آنے لگیں کہ کسانوں کی جماعت ٹریکٹر لےکر نکل پڑی، دیکھتے ہی دیکھتے جس غازی پور بورڈر کو آدھی رات میں خالی کرنے کی دھمکی دی گئی تھی وہ پھر سے بھر نے لگا۔
پھر ہوا وہی جو راکیش ٹکیت کی آرزو تھی۔اب تو احتجاجیوں کی تعداد اور زیادہ ہوگئی اور جم کر اس کالے قانون کی مخالفت شروع ہو گئی۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر ،
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا ۔


 نوٹ: اس مضمون کو امام علی بن مقصود شیخ فلاحی نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔