لاک ڈاؤن، کورونا اور مودی سرکار : ایک تجزیاتی نظر
تحریر___
صدیقی محمد اویس، میراروڈ، ممبئی۔
لاک ڈاؤن !
یہ لفظ شاید ہی کسی نے کورونا وبا سے پہلے سنا ہوگا !
اس لاک ڈاؤن کے دوران نہ جانے کتنوں نے اپنے عزیزوں کو کھویا !
سینکڑوں مزدور پل بھر میں لقمہ اجل بن گئے !
کوئی کورونا وبا کی وجہ سے تو کوئی بھوک سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا !
کیا ملک کا نظام اتنا کمزور ہوگیا ہے ؟
آئیے کورونا کے ابتدائی دور پر نظر ڈالیں۔ ہندوستان میں کورونا کی کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے کہ ۳۰ جنوری ۲۰۲۰ کو کیرالہ کے ایک طالب علم میں کورونا پوزیٹو پایا جاتا ہے۔ معلومات کے مطابق طالب علم چین کے ووہان شہر سے ہندوستان لوٹا تھا۔ اب حکومت پر یہ اہم ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ چوکنا ہوجائے اور صحیح اقدامات کرے۔
۲۲ مارچ ۲۰۲۰ کو وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک بھر میں جنتا کرفیو کا اعلان کیا اور پھر ۲۴ مارچ کو پہلی دفعہ ۲۱ دن کے لئے پورے ملک میں لاک ڈاؤن لگایا گیا۔ یہ ہندوستان کی تاریخ کا عجیب و غریب واقعہ تھا۔۔۔ ۲۳ مارچ کی رات جب وزیراعظم نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔۔۔ تو عوام میں افرا تفری کا ماحول پیدا ہوگیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگ الٹے پاؤں بازاروں کو دوڑے تاکہ ضروریات زندگی کا سامان خرید سکے۔ ایک طرف یہ تھا کہ اب شاید راشن وغیرہ نہیں مل پائے گا تو دوسری طرف یہ جھٹکا لگا کہ اب جب سب کچھ بند کردیا گیا ہے تو پیسے کہاں سے آیئں گے۔ یعنی عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ! غریب، مزدور اور متوسط طبقے کی تو زندگی ہی تھم گئی تھی۔
حکومت کا بھی غیر ذمہ دارانہ بیان تھا کہ جب لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جارہا ہے تو تمام چیزیں تفصیل سے بتائی جانی چاہیے تھی تاکہ عوام کو بھی اطمینان ہو۔ بالآخر کچھ وقت بعد حکومت کی جانب سے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے لاک ڈاؤن کی تفصیلات جاری کی گئیں۔
بہرحال یہ تو رہا لاک ڈاؤن کا ابتدائی دور، بعدازاں جب پورا ملک مکمل لاک ڈاؤن کی نذر ہوا تو عوام کو اور زیادہ تشویشناک حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ نوکری پیشہ افراد، مہاجر مزدور وغیرہ کے معاشی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ بڑے بڑے معاشی ادارے، کمپنیاں ٹھپ پڑ گیئں۔ اور لوگ ذہنی دباؤ میں مبتلا ہوگئے۔ یہاں تک کہ بعض واقعات ایسے بھی گزرے کہ لوگوں کے گھر پر کئی دنوں تک فاقے ہوئے اور بالآخر پورا کے پورا خاندان ایک ساتھ خودکشی کرنے پر مجبور ہوا۔ تو کہیں مزدور کئی سو کلومیٹر پیدل اپنے وطن کی طرف نکل پڑے۔۔۔ کیونکہ نہ تو انکے پاس پیسے تھے، نہ نوکری اور تو اور حکومت کی جانب سے نہ کوئی موثر انتظام تھا، یہاں تک کے کھانے کو کھانا اور پینے کو پانی تک مہیا نہیں تھا۔ یہ مودی سرکار کے لئے بے حد شرمناک بات تھی کہ جو مزدور ملک ترقی کے لئے خون پسینہ ایک کرتے ہیں وہ پیدل چلنے اور خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ حکومت کی نا اہلی تھی کہ وہ سخت فیصلہ Strict Decision لینے اور اسے صحیح ڈھنگ سے لاگو کرنے میں ناکام رہی۔
اصل میں تو حکومت کو ٹیسٹنگ کے لئے موثر انتظامات کرنے چاہئیے تھے۔ مسافروں کے لئے اسکریننگ کا انتظام ہونا چاہئے تھا۔ عوام کے لئے اور مزدوروں کے لئے راشن و ضروریات زندگی کی اشیاء کا انتظام کرنا چاہئے تھا۔ لیکن ہماری حکومت اور وزیراعظم امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی خاطر میں مصروف تھے۔ واضح رہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ فروری میں ہندوستان تشریف لائے تھے جبکہ ہندوستان میں کورونا کا پہلا کیس جنوری کی آخر میں مل چکا تھا۔
ہندوستان چین کا پڑوسی ملک ہے۔۔۔ اور چین میں تقریبا نومبر سے ہی کورونا کا قہر جاری تھا اور تو اور کورونا کے اثرات ہندوستان پر ہونا ایک ظاہر سی بات تھی۔
کیا ہماری حکومت اس سے بے خبر تھی ؟
خیر ہم تائیوان کی مثال لے سکتے ہیں۔۔۔ تائیوان بھی چین کا پڑوسی ہے۔۔۔ لیکن انہوں نے بہترین انداز میں کورونا بحران کو کنٹرول میں رکھا۔ اس کے علاوہ ہماری ملک ہی کی ریاست۔۔۔ ریاست کیرالہ نے بھی ملک بھر کورونا وبا پر زبردست حکمت عملی کے تحت کام کیا اور کامیاب ہوئے۔ کیرالہ نے شروعات سے ہی ٹیسٹنگ میں بڑھوتری کی اور پھر مسافروں کی بڑے پیمانے پر اسکریننگ کی۔ اور تو اور قرنطینہ مراکز پر بھی اچھے انتظامات کئے۔ مزدوروں کو راشن وغیرہ کی سہولیات فراہم کی اور بھی بہت کچھ۔ دوسرے ملکوں کو دیکھنا تو دور کی بات۔۔ یہ ہمارے ملک کی ایک کامیاب مثال ہے۔
کیا وزیراعظم اور مرکزی حکومت کو کیرالہ سے کچھ سیکھنا نہیں چاہئے تھا ؟
خیر اب ملک بھر دن بدن میں کورونا کیسیس میں غیر معمولی اضافہ ہوتا جارہا ہے ! باوجود اس کے اب لاک ڈاؤن میں ڈھیل دی جارہی ہے۔ عوام کے مابین اب بھی بہت سے مسائل ہیں اور روزانہ نئے نئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اسکولز اور کالجز فیس مانگ رہے ہیں۔۔۔ لوگوں کے لائٹ بلس بڑھا چڑھا کر بھیجے جارہے ہیں۔۔۔ لوگوں کی تنخواہیں کاٹ کر دی جارہی ہیں۔۔۔ تو کہیں لوگوں کو نوکری سے نکالا جارہا ہے۔۔۔۔ ملک کی معیشت آخری سانسیں لے رہی ہے اور حکومت کو اپنی سیاست سے فرصت نہیں ہے !