Type to search

تلنگانہ

انصاف کیلئے ملک کے موجودہ قوانین میں ترمیم کی ضرورت

اسکولی نصاب میں اخلاقیات کو کیا جائے لازمی۔


ملک میں آئیے دن عصمت ریزی کے واقعات ہورہے ہیں۔ معصوم بیٹیاں درندوں کی ہوس کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ ریپسٹ جیل کی سلاخوں کے پیچھے سرکاری خزانے سے تین وقت کاپیٹ بھرکھاناکھاکر محفوظ زندگی گزار رہے ہیں۔کیونکہ ہمارے موجودہ نظام انصاف میں ایسی سہولت موجود ہے کہ ملزم ٹرائل کورٹ میں مجرم ثابت ہونے کے بعد بھی اپیل کرتے ہوئے قانونی فوائد حاصل کرسکتا ہے۔ورنگل کے ہنمکنڈہ میں معصوم بچی کی عصمت ریزی کامعاملہ ہمارے سامنے ہے۔

اسی سال جون میں پروین نامی درندے نے ایک نو ماہ کی معصوم بچی کے ساتھ انتہائی بدبختانہ حرکت کرتے ہوئے معصوم کاقتل کردیا تھا۔ اسی رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا۔اس کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 376، عصمت ریزی، دفعہ 366، عورت کا اغوا،  دفعہ302،قتل کے بشمول بچوں کو جنسی استحصال کے تحفظ سے متعلقPOCSO ایکٹ2012لگایا گیا۔تلنگانہ کی پولیس نے انتہائی تیزی سے تفتیش انجام دیتے ہوئے تمام ثبوتوں کو عدالت میں پیش کیا۔

فاسٹ ٹریک کورٹ (تیزگام عدالت) نے گواہوں کی سماعت اور ثبوتوں کی بنیاد پرصرف دو مہینوں کے اندرہی ملزم پروین کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنائی۔قانون میں دئیے گئے حق کا سہارا لیتے ہوئے مجرم نے تلنگانہ ہائی کورٹ سے اپنی سزاء کے خلاف اپیل کی۔حیدرآباد ہائی کورٹ نے اس درخواست کی سماعت کرتے ہوئے فارسٹ ٹریک کورٹ کی جانب سے دئیے گئے فیصلے کو برقراررکھا لیکن سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا۔اور آخری سانس تک جیل میں قیدوبندرکھنے کا حکم دیا۔راقم یہاں عدالت کے فیصلے پر تنقیدنہیں کریگا۔ کیونکہ عدلت نے قانون میں موجود اختیارات کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا ہے۔

ایک ذمہ دار شہری ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم عدلیہ کا عزت واحترم کریں۔لیکن ایک شہری ہونے کے ناطے میں نظام انصاف پر اپنی رائے ضرور دے سکتا ہوں۔  میں غیر مطمین اس لئے ہونکے ملک کاموجودہ نظام ِانصاف،انتہائی قدیم  اور آزادی سے قبل بنایا گیا  برطانوی دور کا ہے۔جسٹس کے تھری ٹائرسسٹم کو اب بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ہم ایک ایسا موثر قانون بنائیں جہاں صرف مقررہ وقت پر انصاف ہو اور سزاؤں پر عمل آواری ہونی چاہئے۔قتل اور عصمت ریزی کے معاملوں میں تیزگام تفتیش ہونی چاہئے۔ ٹرائل کورٹ میں اگر جرم ثابت ہوتا ہے تو اپیل کیلئے سیدھے سپریم کورٹ ہونی چاہئے جہاں پر بھی یہ لزوم رکھا جائے کہ اگر ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا جارہا ہے تو ٹرائل کورٹ کی جانب سے دی گئی سزا کو کم کرنے یا اُسے بدلنے کا اختیاراپیل کورٹ کو نہیں ہونا چاہئے۔

بس اپیل میں یہی ہو کہ فیصلہ درست ہے یا فیصلہ غلط ہے۔اگر اسطرح کے قوانین مرتب کئے جائیں گے تو یقیناجلد سے جلد سزائیں مل جائیں گی اور سرکاری خزانے پر بھی بوجھ نہیں پڑیگا۔سخت سزائیں ہونے سے لوگ غیر انسانی حرکت انجام دینے سے ڈرجائیں گے۔گزشتہ دنوں حیدرآباد میں ہوئے عصمت ریزی اور قتل کے معاملے کے قصواروں کو بھی جلد سے جلد سزا ہونی چاہئے۔راقم یہ اُمید کرتا ہے کہ نربھیہ کے مجرموں کو بھی جلد سے جلد اُنکی سزا انہیں دی جائیگی۔مجرمین کو سزا کے لئے موجودہ قانون میں تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھنا ہے کہ کوئی بھی بے قصور جبراً قصوروار نہ قراردیا جائے۔ٹرائل کورٹ میں دونوں فریقین کو اپنا اپنا موقف رکھنے کی مکمل آزادی دی جانی چاہئے۔ایک گوشہ،ملزمین کی قانونی چارہ جوئی کے حق کوبھی چھینے کا مطالبہ کررہا ہے۔ اگر ایسا بھی کیا گیا تویہ بھی انصاف کاقتل ہوگا۔انصاف  جذباتی نہیں بلکہ سچ اور حق پرمبنی ہونا چاہئے۔کسی بھی شخص پرگناہ کرنے سے پہلے سزاکا خوف اُس پرطاری ہونا چاہئے تب ہی ایک مہذب سماج بن سکتا ہے۔

سماجی سائنسدانوں کو اس بات پر بھی غور وفکر کی ضرورت ہے کہ آخر سماج میں عصمت ریزی کی شرح میں کیوں اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے کیا وجوہات ہیں کہ اس طرح کی حرکتیں انجام پارہی ہیں۔بچے ہی سماج کا مستقبل ہوتے ہیں۔گھرسے ہی ایسی پرورش ہونی چاہئے جہاں اخلاق کا درس ہو۔ اسکولوں میں بچوں کو صحیح اور غلط کے بارے میں اخلاقیات کو ایک لازمی نصابی مضموں کے طورپر پڑھا یا جائے۔تاکہ اُس میں روحانی خوف پیدا ہو۔دنیا کا کوئی بھی مذہب یا کوئی بھی سماج اس طرح کی حرکتوں کونہ تو برداشت کرتا ہے اور نہ ہی اسکی تعلیم دیتا ہے۔ بلکہ ہر مذہب اور ہر سماج اسکی مخالفت کرتا ہے۔

لہذا ایک مشترکہ مہذب سماج میں ایسے درندوں کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہونا چاہئے۔عصمت ریزی کے مجرمین کو سرعام پھانسی دینی چاہئے۔شمعیں روشن کرنے، احتجاج منظم کرنے کی نہیں بلکہ قانون بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری مظلوم بیٹیوں کوانصاف ملے۔بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤکا نعرہ نہیں بلکہ بیٹی کو عزت کے ساتھ جینے کا ادیکار ملنا چاہئے۔بیٹیوں کو دن اور رات بے خوف و خطر گھومنے اور پھرنے کا ماحول ملنا چاہئے۔کسی بھی سطح پر کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔

تبریزحسین تاج 

 اسکالر وصحافی حیدرآباد۔


وضاحت : یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ مضمون کو من و عن شائع کیا گیا ہے۔ اس میں کسی طرح کا کوئی ردوبدل نہیں کیا گیاہے۔ اس سے اردو پوسٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ جواب دہ نہیں ہے۔