Type to search

تلنگانہ

خواتین نے اپنے لہو سے روشن کیا جنگ آزادی کا چراغ

جنگ آزادی کا چراغ

از قلم: انم جہاں
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد


ہندوستان کی جنگ آزادی کا جب بھی ذکرآتا ہے تو ایک طرف جہاں آنکھیں نم ہو جاتی ہیں وہیں دوسری طرف آزادی کے متوالوں کے ایثار و قربانی کی بدولت حصولِ آزادی دیکھ کر ہمارا سر فخر سے بلند ہوجاتا ہے۔ ہمیں 15 اگست 1947 کو جو آزادی نصیب ہوئی وہ ایک طویل جدو جہد کی داستان بیان کرتی ہے۔

مجاہدین آزادی میں مردوں کا نام تو لیا جاتا ہے لیکن خواتین جانبازوں کو یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے۔ بلکہ ایسا بھی ہوتا آیا ہے کہ چند ہی نام ہماری زبان پر بار بار آتے ہیں، باقی ناموں کو ہم یاد نہیں رکھتے ۔حصول آزادی کے لیے جن خواتین نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا ،ان جو ہم آخر کیوں بھول جاتے ہیں ۔

بھگت سنگھ، رام پرشاد بسمل، مہاتما گاندھی، سردار پٹیل، مولانا ابو الکلام آزاد جیسے نام ہی ہمارے کانوں میں گونجتے ہیں۔ بہت سی آزادی پسند خواتین ایسی ہیں جنہوں نے آزادی کی لڑائی میں مردوں کی جنگ کریں اور کامرانی حاصل کی۔ان خواتین کی ایک کہکشاں دکھائی دیتی ہیں ۔

جنگ آزادی میں حصہ لینے والی جھانسی کی رانی لکشمی بائی کا نام بہت نمایاں ہے۔وہ پہلی جنگ آزادی کے رہنماؤں میں ایک ایسی خاتون تھیں جو پرجوش محب وطن کے طور پر مقبول ہوئیں۔ انہوں نے اپنے شوہر اور جوان بیٹے کی موت کے بعد جھانسی کو برطانوی سلطنت میں شامل کیے جانے کے ایک قانون کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

اسی فہرست میں ایک بہت ہی ممتاز نام سروجنی نائیڈو کا ہے جنہیں”بلبل ہند” بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے ہندوستانیوں کی کثیر تعداد کو انگریزوں سے مقابلہ کرنے اور اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کی ترغیب دی۔وہ مہاتما گاندھی کی پیروکار تھیں۔ انہوں نے عدم تعاون تحریک کی بڑی فعالیت کے ساتھ حمایت کی۔نیز اپنی شاعری کے ذریعے عوام کے ایک وسیع حلقے کو بہت متاثر کیا ۔

اسی طرح وجۓ لکشمی پنڈت کا نام بھی بہت اہم ہے جو ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی بہن تھیں،ان کا نام حصولِ آزادی کی لڑائی لڑنے والوں میں بہت عزت واحترام کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔وجۓلکشمی جی کو مختلف مواقع پر قید بھی کیا گیا لیکن وہ کبھی نہ تو پریشان ہوئیں اور نہ تھکیں۔ مسلسل لڑتی رہیں۔

ارونا آصف علی کا شمار ان خواتین میں ہوتا ہے جو وطن عزیز کے لیے اپنی پوری طاقت جھونک دی۔ان کا انگریزوں کے ساتھ پہلا مقابلہ اس وقت ہوا جب انہوں نے نمک ستہ گرہ میں چڑھ چڑھ کر حصہ لیا،بلکہ اس میں ملوث ہونے کی وجہ سے انہیں گرفتار بھی کیا گیا۔

انہوں نے اپنا رہائی کے بعد ہندوستان چھوڑو تحریک کی قیادت کرنے کی ذمہداری بھی قبول کی۔وہ بہت جلد اپنی فعالیت کے سبب تحریک کا ایک روشن چہرہ اور آزادی پسند خواتین کی طاقت بن گئیں ۔

بلاشبہ ان جیسے کئ نام تاریخ کے صفحات میں مندرجہ ذیل ہیں، جنہوں نے سچے جذبےاور بے باک حوصلے کے ساتھ انگریزوں کے خلاف جنگ لڑی اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم اور استحصال کی کوئ پرواہ نہیں کی۔

جب مرد آزاد پسند جیلوں میں بند تھے تو متعدد خواتین نے جنگ آزادی میں حصہ لے کر اپنی ذمہداری نبھائی ۔مذکورہ تمام خواتین کے علاوہ بھی بہت ساری ایسی خواتین ہیں جن کے ناموں اور کارناموں سے ہم واقف نہیں لیکن تاریخ کی کتابوں میں ان کا ذکر موجود ہے۔


 نوٹ: اس مضمون کو انم جہاں نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔