Type to search

تلنگانہ

واٹس ایپ نیو پرائویسی پالیسی۔ ڈر کس بات کی؟

واٹس ایپ نیو پرائویسی

قلم کلامی: امام علی مقصود شیخ فلاحی۔

متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔


آج لاکھوں اور کروڑوں لوگ واٹس ایپ کے نیو پرائویسی پالیسی سے حیران و پریشان ہیں، جبکہ یہی وہ ایپ ہے جسکا استعمال بہت ہی دلجوئی سے کیا جاتا رہا، لیکن چند دنوں سے لوگوں کے درمیان بہت ہی افرا تفری مچی ہوئی ہے، لوگ اس ایپ کو پس پشت رکھتے ہوئے، دوسرے ایپس کی جانب بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہیں ، اور ایک خوف کی تاریکی‌ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

وہ اس وجہ کہ واٹس ایپ اپنے صارف کا نام، موبائل نمبر، تصویر، اسٹیٹس، فون ماڈل، موبائل نیٹورک، اور لوکیشن بھی واٹس ایپ اور اس سے دیگر منسلک سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو مہیا کرنے والاہے۔

جس کی بنا پر پوری دنیا میں ایک ہلچل سی مچ گئی ہے، برق تیز رفتاری سے لوگ ٹیلیگرام اور سگنل کی جانب بھاگتے ہوئے نظر آرہے ہیں، اور دوسروں کو بھی اس جانب متوجہ کرا رہے ہیں۔

اور واٹس ایپ کی اس نئی پرائیویسی پالیسی کو ایک بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔
وہ یہ ہے کہ واٹس ایپ اپنی اس نئی پرائیویسی پالیسی کے ذریعے لوگوں کو اپنا غلام بنانا چاہتی ہے، لوگوں کے راز کو اجاگر کرنا چاہتی ہے، عوامی سرگرمیوں کو بر منظر عام لانا چاہتی ہے، جس سے لوگوں کی جانی اور مالی نقصان کا دروازہ کھل سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ لوگ بہت ہی تیزی سے ٹیلیگرام اور سگنل کی جانب ہجرت کئے جارہے ہیں۔
اور ذرائع کے مطابق بتایا جارہا ہے کہ کہ بہتر (72) گھنٹے میں پچیس (25) ملین لوگ سگنل کی جانب رواں ہوئے ہیں۔
جس سے یہ بات عیاں ہورہی ہے کہ لوگ اس بات سے بہت ہی حیران ہیں کہ شاید واٹس ایپ آگے چل کر ہمیں مشکلات میں ڈال سکتاہے۔

لیکن شاید عوام کو یہ معلوم نہیں کہ یہ بڑے بڑے سرمایہ داروں کی چال ہے، ان سب کے پیچھے پیسوں کا کھیل ہے۔

بہرحال ایک بات قابل تفہیم ہے وہ یہ کہ واٹس ایپ میں وہ کونسی خاصیت تھی جس کی بنا پر پوری دنیا نے اس کا استعمال کیا ؟
تو اس کی سب سے بڑی خاصیت جو تھی وہ سکیورٹی کی تھی۔

واٹس ایپ ہمارے پیغامات کو خفیہ طور پر ہمارے مخاطب کو بھیجتا تھا، بیچ میں جو سرور ہوتا تھا وہ بھی اس پیغام سے ناآشنا ہوتا تھا، وہ اس طرح کہ واٹس ایپ ہمارے پیغام کو فوراً ایک کوڈ کی شکل میں تبدیل کر دیتا تھا ، اگر کوئی اس پیغام کو دیکھنے کی کوشش بھی کرتا تھا تو اسے وہ کوڈ نظر آتا تھا ، جسے سمجھنا کسی کے بس میں نہیں تھی، لیکن جیسے ہی وہ پیغام ہمارا مخاطب اپنے موبائل میں اسے رسیو کرلیتا تھا اور اسے دیکھ لیتا تھا تو فوراً وہ میسج سرور سے بھی خودبخود حذف ہوجاتا تھا۔

غرض یہ کہ اسکی سیکورٹی اتنی سخت تھی کہ حکومت بھی اسے حاصل نہیں کر‌سکتی تھی۔
یہی اس کی سب سے بڑی خاصیت تھی کہ جس کی بنا پر پوری دنیا نے اسے استعمال کیا۔

لیکن اب جو نئی پرائیویسی پالیسی آئی‌ ہے اس سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ شاید اب ہمارے پیغامات محفوظ نہیں رہیں گے۔

لیکن ایسی کوئی بات نہیں ہے، اب بھی ہمارے پیغامات محفوظ رہیں گے، سکیور رہیں گے، اور یہی خاصیت ٹیلی گرام اور سگنل ایپ کی بھی ہے، کہ اس میں ہمارے پیغامات محفوظ رہیں گے، کوڈ کی شکل میں رہیں گے۔

لیکن اب سوال یہ ہے کہ واٹس ایپ کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟

تو اسکا سیدھا جواب یہ ہے کہ، یہ جو واٹس ایپ اور فیس بک کمپنی ہے، یہ بہت بڑے سرمایہ داروں کی کمپنی ہے، اور اس سے ان‌‌ کا مقصد صدقہ اور خیرات کرنا نہیں ہے بلکہ پیسہ کمانا ہے، اور یہ کمپنیاں ہم سے پیسہ‌ کمانا چاہتی ہیں، ہمیں جو ساری خبریں آسانی سے گوگل، فیس بک، اور یوٹیوب پر مل جاتی ہیں، وہ مفت میں نہیں ملتیں، انکے پیچھے ایک مقصد چھپا ہوا ہوتا ہے، جس کے ذریعے وہ ہم سے پیسے کماتے ہیں۔

مثال کے طورپر گوگل کو دیکھ لیں، وہ ہمیں بہت سارے چیزیں بظاہر مفت میں فراہم کرتا ہے ، لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے ایک راز ہے وہ یہ ہے کہ، جو بھی حرکتیں ہم گوگل پر کرتے ہیں وہ ساری حرکتیں گوگل کے پاس محفوظ ہیں، گوگل کے پاس اس کے صارف کی ساری پروفائل، اور اسکی ساری ڈیٹا محفوظ ہوتی ہے، کہ وہ اس پر کیا تلاش کر رہا ہے، کس چیز کی جانکاری حاصل کر رہا ہے، اسکا کیا نام ہے،وہ کیا کام کرتا ہے، اسکا لوکیشن کیا ہے ؟ یہ سب جانکاری گوگل کے پاس ہوتی ہے، پھر اس بنیاد پر گوگل اپنی کمپنی کو بتاتا ہے کہ اس بندے کو کیا اشتہار دیکھانا مناسب ہے۔

پھر اس بنیاد پر ہمیں وہ چیزیں بذریعہ اشتہار دیکھایا جاتاہے، جس کی بنا پر اس کمپنی کا فائدہ ہوتا ہے، انکے کاروبار اس سے بہتر چلتے ہیں، اور انکی خریداری میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
اسی بنا پر اشتہارات کی کمپنیاں زیادہ تر گوگل ہی کو اپنا اشتہار فروخت کرتی ہے۔

اب یہی کام فیس بک کرنا چاہتا ہے، زمانہ دراز سے فیس بک بھی یہی کام کر رہا ہے لیکن اسکا جو بہتر نتیجہ ظاہر ہونا چاہئے وہ نہیں ہو پارہا ہے، جیسے اگر ہم کوئی چیز گوگل پر تلاش کرتے ہیں ، تو اسی تعلق سے ہمارے یوٹیوب پر اشتہار بھی شائع ہوتے ہیں، اور یوٹیوب کے استعمال کے دوران وہ چیز ہمیں بذریعہ اشتہار بھی دیکھایا جاتا ہے، کیونکہ گوگل اور یوٹیوب آپس میں رابطہ رکھتے ہیں، اور گوگل اپنا اشتہار یوٹیوب والے کو بیچ کر پیسہ کماتا ہے۔
اسی لئے اب فیس بک بھی چاہتاہے کہ اسکی جو دوسری کمپنی یعنی واٹس ایپ ہے اسے استعمال کرے، اور اسکے ذریعے پیسہ کمائے، کیونکہ فیس بک نے واٹس ایپ کو خرید تے وقت کافی پیسے لگاے تھے، اس لئے اب وہ چاہتا ہے کہ اس کے ذریعے پیسہ کمائے۔

چونکہ واٹس ایپ اور گوگل دونوں ایک ہی مالک کے ہیں ، اسی لئے فیس بک چاہتاہے کہ اپنے واٹس ایپ صارفین جو کہ کروڑوں اور اربوں میں ہیں، انکا واٹس ایپ پروفائل اور انکا ڈیٹا فیس بک کو دے، کہ لوگ اپنے واٹس ایپ کو کیسے استعمال کر رہے ہیں، وہ کیا پتاتیں کر رہے ہیں، وہ کس موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں، پھر اسی کے مطابق انہیں فیس بک پر اشتہار دیں۔

تاکہ انکا کاروبار بہتر سے بہترین بن سکے، اور گوگل کا مقابلہ کرسکے۔ یہ ہے واٹس ایپ کا اصل مقصد ہے۔
اور اسی مقصد کے تحت واٹس ایپ نے نیو پرائویسی پالیسی کا اعلان کیاہے۔
رہی بات پیغامات وغیرہ کی تو وہ اپنی جگہ محفوظ ہی رہیں گے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ واٹس ایپ نیو پرائویسی پالیسی کے باوجود بھی جو عام صارفین ہیں، ان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا، فرق صرف ان لوگوں کو پڑے گا جو بزنس اکاؤنٹ استعمال کرنگے، وہ یہ کہ انکی پروفائلنگ فیس بک کے حوالے کی جاے گی اور اسکے مطابق انہیں اشتہار دیا جائے گا، لیکن جو عام صارفین ہیں انہیں ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑے گا۔

انٹر نیٹ استعمال کرتے وقت ہم جو چیز استعمال کرتے ہیں، چاہے وہ کوئی ایپ ہو یا کوئی چینل ہو یا گوگل ہو، ان تمام چیزوں کو بڑے بڑے کاروباریوں اور سرمایہ داروں نے بنایا ہے، اور وہ ان سے پیسے کمانا چاہتے ہیں، وہ اس طرح کہ انٹرنیٹ پر ہماری جو بھی سرگرمیاں ہوتی ہیں، ان کے ذریعے ہماری ایک پروفائل تیار کی جاتی ہے، پھر اس پروفائل کے ذریعے منافع کماتے ہیں اور منافع کی جو اصل چیز ہے، وہ ہے اشتہار، اور اب اسی چیز کو اپنانے کے لئے اور پیسے کمانے کے لئے فیس بک واٹس ایپ کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔

اسی لئے ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، جس طرح ہم اور ہمارے پیغامات پہلے محفوظ تھے، انشاءاللہ وہ اب بھی محفوظ رہیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ واٹس ایپ کے سربراہ وِل کیتھکارٹ نے میسجنگ ایپ کی پرائیویسی پالیسی میں تبدیلی پر ہونے والی تنقید پر کیا ہے کہ واٹس ایپ میں پیغامات اور کالز اب بھی “اینڈ ٹو اینڈ انکرپٹڈ” ہیں اور اس فیچر کو تبدیل نہیں کیا جا رہا۔

واٹس ایپ کےسربراہ وِل کیتھکارٹ نئی پالیسی کے بعد بھی واٹس ایپ کو صارفین کے لیے محفوظ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فیس بک ‘چیٹ’ (گفتگو) کو نہیں پڑھ سکتا۔

انہوں نے یہ پھی کہا کہ یہ اہم اس لیے کر رہے ہیں کہ کیونکہ واٹس ایپ پر روزانہ ساڑھے 17 کروڑ کے لگ بھگ افراد بزنس اکاؤنٹس کو پیغامات بھیجتے ہیں اور مزید لوگ ایسا کرنا چاہتے ہیں۔

جس سے یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ نیو پالیسی لانے کا مقصد صرف اور صرف اشتہار دیکھانا ہے ، اور اشتہارات بھی ان ہی لوگوں کو دیکھانا ہے جو بزنس مین ہیں، یہی وجہ ہے کہ سربراہ نے بزنس اکاؤنٹ کی بات کی ہے، اسی لئے عوام کو بے چین ہو نے کی کوئی ضرورت نہیں۔


نوٹ: اس مضمون کو امام علی مقصود شیخ فلاحی نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔

Tags:

You Might also Like