Type to search

قومی

مسلم خاندانی نظام میں امڈتے خطرات اور ان کا حل

مسلم خاندانی نظام

مستورہ بنت ابراہیم
شیموگہ ۔ کرناٹک


جب سے دنیا کا وجود عمل میں آیا ہے تب سے تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب بھی انسان قدرتِ الٰہیہ کے نازل کردہ نظام کے خلاف ورزی کی اسے منہ کی کھانی پڑی ۔ وہ زوال کا شکار ہو تا گیا ۔ بظاھر اسے یہ نءی تبدیلی خوشنما ودلفریب نظر آتی ھے لیکن اس انقلاب میں خطرات سے بھرا ہوا طوفان پوشیدہ ہے ۔جو بے شمار خاندان کی تباہی کا باعث بن سکتا ہے ۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی مسلم سماج بھی مغربی تہذیب اور دوسرے مذاھب کی تقلید میں تاخیر نہیں کی۔ اس کے اثرات سے مادہ پرستی اور خود فرضی سرایت کرچکی ہے۔

لڑکیوں کی پیدائش پر ناراضگی اور لڑکوں کی طرف زیادہ توجہ ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے اور نوکریوں کے ملنے تک شادی میں غیر ضروری تاخیر کی جارہی ہے۔ نوکری،تعلیم یا بنک بیلنس کو لڑکے کا معیار مطلوب بنایا گیا ہے۔اسی لئے آج بڑے شہر وں میں مذہب سے باہر رشتے کی تلاش وغیرہ مسلم سماج میں بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔ بعض نوجوان’ لیو ان ریلیشن شپ’ کو ترجیح دے رہے ہیں۔ تاکہ خاندانی نسلی نہ ہو اور ان پر کسی قسم کے حقوق یا ذمداریاں نہ ہوں ۔ چند نوجوان ایک عمر گزار کے بعد نکاح تو کر رہے ہیں لیکن بچوں کو غیر ضروری سمجھتے ہوئے نسل کشی کر رہے ہیں۔نسل کو آگے بڑھانا نہیں چاہتے۔

معاشرے کے لئے ایک اہم خطرہ ازدواجی زندگی سے متعلق ہے۔شوھر اور بیوی اپنے حقوق وفرائض سے آشنا ہیں۔اگر کچھ لوگ جانتے بھی ہیں تو ادائیگی سے انحراف کر رہے ہیں ۔ذمداریوں سے ناواقف، خاندان میں غلط فہمیاں، رنجشیں، نفرتیں، عداوتیں، نااتفاقیوں کا آے دن اضافہ ہو تا جارہا ہے۔ 19_Covid لاک ڈاؤن کی مدت میں مارچ تا سپتمبر2020 کے درمیان نیشنل کمیشن فار ویمن نے گھر یلو تشدد کے 13000 کیسز درج کیے گئے۔,” گھر میں رہو محفوظ رہو ” کے نعرہ نے یہ سوال اٹھایا کہ ھندوستانی گھرکتنا محفوظ ہے۔سروےرپورٹس کے مطابق ان دنوں گھر یلو تشدد کے کیسز اتنے درج ہوے جتنا دس سالوں میں نہیں ہو ے۔

طلاق یا زوجین کے درمیان تکلیف دہ تعلقات کا بچوں پر بہت گہرا اثر ہوتا ہے۔ اگر بچے چھوٹے ہیں تو وہ ڈرے سہمے رہتے ہیں۔ ان کے دلوں میں محبت کی جگہ نفرتیں جنم لیتی ہیں، مستقبل میں وہ چڑ چڑےاور بد اخلاق بن جاتے ہیں۔ اور بعض بچوں میں(depression) ڈپریشن یا بلڈپریشر (BP) جیسے نفسیاتی اور جسمانی امراض پیدا ہوتے ہیں۔ تعلیمی اعتبار سے بھی وہ کمزور ہو نے لگتے ہیں۔اس طرح بچوں کا کیریئر برباد ہو جاتا ہے۔

جبکہ خاندانوں کے زوال و ناکامی کا سبب پر جوش نعروں اور امید سے ہوتی ہے جس کا نعرہ مساوات مرد وزن، مظلوموں کے لئے انصاف، عورتوں کو زمانے کے قدم بقدم چلنے کی دعوت، خواتین کو نت نئے آراءش وآساءش کے سامان فراہم کرنا، قیمتی کاسمیٹکس (cosmetic) کی طرف رغبت دلانا۔ اپنی ضروریات کی تکمیل کے لئے اپنی ذمداریوں سے سبکدوش ہونے، ٹی وی سیریلز اور ڈراموں کو نظریہ حیات تسلیم کرنا، ہوٹلوں میں کھانا، دوستوں کی محفل کے عادی بن نا، آے دن دعوتوں کا اہتمام کرنا، عیش وعشرت ہی کو مقصد حیات بنا کر سیر و تفریح کو پیشہ بنانا، مشترکہ فیملی سے کٹکر نیوکلیئر فیملی بنانے کا رجحان، یا ساس سسر کو ‘اولڈ ایج ہوم ‘ منتقل کرکے اپنے لئے بہترین جاب کی تلاش کرنا۔

بظاھر ایسی تہذیب کتنی ہی دلکش خوشنما نظر آے، لیکن یہ تہزیب کچھ دنوں کے لئے دلوں کو بھلا تو سکتی ہے لیکن پر سکون ومطمءن زندگی کبھی نہیں دے سکتی۔ اس کشتی پر سوار مسافروں کو ایک نہ ایک دن یہ تسلیم کر نا ہو گا کہ مادہ پرستی، خود غرضی اور خود نمائی کی بنیاد پر گزاری گی زندگی کی کوی منزل نہیں ‌۔

جبکہ اسلام ہمیں ایک آسان اور مضبوط خاندانی نظام پیش کرتا ہے۔ جس کی بنیاد نکاح جیسے مقدس رشتے سے وجود میں آتا ہے۔ قرآن کریم اس کو مضبوط معاہدہ اور قلعہ سے تعبیر کیا ہے۔ اس لئے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے لئے جو معیار تجویز فرمایا وہ خوبصورتی، دولت یا خاندان نہیں بلکہ دینداری ہے۔

اسلام نے بیوی کو مہرو نان اور نفقہ کا حق دیا۔ چونکہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں، اس لئے اس کو قوام بنایا۔ اسلام ایک فطری مذہب ہے اگر دونوں کو مساوات کا درجہ یا اختیار دیا جاتا تو خاندان میں بدنظمی پیدا ہوتی۔

اگر زوجین کے تعلقات انتہای کشیدہ ہو جائیں تو کونسلنگ کمیٹی رضاےالہی کی خاطر ان کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کریں۔ قرآن وسنت کی روشنی میں حقوق وفرائض کا احساس دلاءیں ، والدین کو زوجین کے درمیان بے جا مداخلت سے روکیں۔ نیوکلیئر فیملی (. علیحدہ گھر) سے یہ مسءلی حل ہو تا ہے تو کشیدگی کو ختم کریں۔ طلاق کا صحیح طریقہ ایک طلاق کے بعد عدت کا دور شوہر کے گھر میں گزار یں ہوسکتا ہے کہ ٹوٹنے والا رشتہ پھر سے جڑ جانے، اگر معاشی مسلہ ہے تو معاشی امداد کے ذریعے خاندان کو بحال کر یں۔ اگر بچے ہوں تو ان کے مستقبل کی خاطر صلح کی درخواست کریں۔ جن مساءلسے بچوں کو دوچار ہونا پڑے گا اس سے آگاہ کریں۔

اور اگر طلاق کی صورت میں یہ بات واضح کر یں کہ اسلام نے اس کا انتظام یوں کیا ہے کہ حضانت ماں کے ذمہ اور کفالت باپ کے ذمہ ۔اس طرح بچے کا تعلق ماں باپ سے ہمیشہ کیلیے برقرار رہے گا۔

طلاق کا اثر صرف زوجین یا ان کی اولاد تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس سے لڑکےاور لڑکی کے خاندان بھی متاثر ہوں گے ۔ اس لئے ابلیس نے اپنے اس چیلے کو شاباشی دی جس نے میاں بیوی میں تفریق(جدائی) ڈالی۔ کیونکہ ابلیس جانتا ہے کہ خاندان کی تباہی سماج کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ دوسرے مذاھب سے کنارہ کش ہوں ورنہ ہماری آیندہ آنے والی نسلوں کو ان کے برے نتائج بھگتنے ہوں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے مانا میری آواز نہیں جانے گی
در و دیواروں سے ٹکراکر پلٹ آئے گی
اب بھی وقت ہے ان اندھیروں کا کرو کوئی علاج
ورنہ یہ نسل اجالوں کو ترس جانے گی

مستورہ بنت ابراہیم
شیموگہ ۔ کرناٹک
Ph: 9513049908


 نوٹ: اس مضمون کو مستورہ بنت ابراہیم نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔