Type to search

تعلیم اور ملازمت

اردو یونیورسٹی کو میڈیکل کالج کے قیام کا پروفیسر طارق منصور کا مشورہ

اردو یونیورسٹی میڈیکل کالج

یومِ تاسیس تقریب سے وائس چانسلر اے ایم یو کا آن لائن خطاب۔ پروفیسر رحمت اللہ اور پروفیسر محمود صدیقی کی بھی مخاطبت


حیدرآباد، 9 جنوری (یو این آئی) کسی بھی یونیورسٹی کا یومِ تاسیس جہاں جشن منانے کا موقع ہوتا ہے وہیں یونیورسٹی کی کارکردگی کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ مانو نے کافی ترقی کی ہے اور ملک بھر میں اس کے ٹیچر ایجوکیشن کالجس، کیمپسیس، پالی ٹیکنیک، آئی ٹی آئیز کا جال پھیلا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوشش کی جائے تو یہاں میڈیکل کالج کے بشمول مزید پیشہ ورانہ علوم کے شعبے قائم ہوسکتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر طارق منصور، وائس چانسلر، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی یومِ تاسیس کے موقع پر بحیثیت مہمانِ خصوصی آن لائن خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ، وائس چانسلر انچارج نے صدارت کی۔

پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ مرکزی حکومت میڈیکل کالجس کا قیام چاہتی ہے اگر مانو اس پر توجہ دے تو حکومت ضرور اس میں مدد کرے گی۔ آئندہ برسوں میں آئی آئی ٹی اور آئی آئی ایم کی جگہ بین موضوعاتی اداروں کا قیام ہوگا۔ اس جانب بھی مانو توجہ دے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اُردو یونیورسٹی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا پرانا رشتہ ہے۔ مانو کے تین وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی کے سابق طلبہ رہے ہیں۔ اس تعلق کو مزید بہتر بنانے کے لیے مسلم یونیورسٹی ، اردو یونیورسٹی کا تعاون کرنے تیار ہے۔ اس کے علاوہ جہاں ضرورت ہوگی مسلم یونیورسٹی ، مانو سے مدد لے گی۔ یونیورسٹی کے سٹیلائٹ کیمپسیس، ماڈل اسکولس، ٹیچر ایجوکیشن کالجس اردو کی ایک طاقتور بنیاد رکھتے ہیں۔ اردو ہماری تاریخ و تہذیب کا حصہ ہے۔ ہمیں دیگر اقوام سے سبق لینا چاہیے جو تعداد میں کم ہیں لیکن اپنی زبان کو نہیں چھوڑا اور دنیا میں ترقی کی۔ انہوں نے اردو یونیورسٹی کے 2021ءکی ڈیجیٹل کیلنڈر کی بھی ستائش کی۔ پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ کویڈ 19 کے باعث دنیا نے آن لائن تدریس و تحقیق پر توجہ دی۔ انہوں نے مانو کے معیارِ تعلیم کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ مانو کو مسلسل دو مرتبہ NAAC کی جانب سے ”اے“ گریڈ حاصل ہوا ہے۔ مانو کے آئی ایم سی یو ٹیوب چینل نے اردو معلوماتی مواد بڑے پیمانے پر فراہم کیا۔ وائس چانسلر ، اے ایم یو نے طلبہ کو نصیحت کی کہ اگر آپ اچھے انسان نہیں ہیں تو اچھے ڈاکٹر یا انجینئر بھی نہیں بن سکتے۔

پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ ایک وقت وہ تھا جب عثمانیہ یونیورسٹی اردو ذریعہ سے اعلیٰ تعلیم فراہم کرتی تھی۔ اس کے ذریعہ تعلیم کی تبدیلی کے بعد اردو یونیورسٹی کے قیام کے بارے میں سونچا گیا۔ اٹل بہاری واجپائی کے دور میں یہ یونیورسٹی قائم ہوئی۔ کوئی بھی زبان انسان کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے وجود میں آتی ہے اور اگر سرکاری سرپرستی حاصل ہو تو وہ زبان ترقی کرتی ہے اور ذریعہ تعلیم بھی بنتی ہے۔ اردو، ہند آریائی زبانوں کے اختلاط سے وجود میں آئی اور سرکاری زبان کا درجہ بھی حاصل کیا۔ لیکن بعد میں اس کی تنزلی کے اسباب بھی پیدا ہوئے۔ اردو یونیورسٹی اپنے قیام سے ہی اردو کی ترقی اور مختلف مضامین میں اردو کے ذریعہ تعلیم فراہم کرنے میں کامیاب تجربہ کر رہی ہے۔ آج یونیورسٹی میں سماجی علوم کے علاوہ کمپیوٹر سائنس انجینئرنگ، پالی ٹیکنیک اور آئی ٹی آئی کی تعلیم اردو میں فراہم کی جا رہی ہے۔ انہوں نے قومی تعلیمی پالیسی کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ اس میں مادری زبان میں تعلیم فراہم کرنے پر زور دیا گیا ہے اور مختلف مہارتوں کے حصول اور ریسرچ پر توجہ دلائی گئی ہے۔ ریسرچ کے لیے قومی سطح پر ایک ادارے کے قیام پر بھی زور دیا گیا ہے۔ کسی بھی پالیسی سے فائدہ صرف اسی وقت ہوگا جب اس پر مو ¿ثر عمل آوری ہو۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی نے مختلف ویبنار منعقد کرتے ہوئے اسے سمجھنے اور عمل آوری کا آغاز کردیا ہے۔ مانو نے آن لائن تعلیم کے علاوہ امتحان کا انعقاد اور داخلوں کا اہتمام بھی کیا ہے۔ پروفیسر رحمت اللہ نے تقریر کے آخر میں اپنے پُر اثر اشعار کے ذریعہ مولانا آزاد، مانو کے سابقہ وائس چانسلرس، مہمان پروفیسر طارق منصور اور اردو یونیورسٹی کو خراج پیش کیا۔

پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج نے خیر مقدمی خطاب میں کہا کہ ماہر نفسیات الفریڈ ایڈلرنے کہا تھا کہ انسان اپنے اندر ناممکن کو ممکن میں بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ابتداءمیں آزادی ناممکن نظر آتی تھی لیکن ہمارے رہنماﺅں نے اسے حاصل کیا۔ آزادی کا اصل مقصد سماجی تبدیلی، سماجی ترقی ہے جس میں ذات پات، مذہب، ثقافت، زبان کو بالائے طاق رکھ کر سبھی کی ترقی کو یقینی بنانا تھا۔ تعلیم کے ذریعہ سبھی کی ترقی ممکن ہے۔ اسی لیے آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد رہنماﺅں نے بھی ترقی کے لیے یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا۔ اس کے بعد اردو یونیورسٹی کے قیام کے لیے بھی کمیٹی قائم کی گئی اور 1998 میں یونیورسٹی قائم ہوگئی۔ یونیورسٹی کے قیام سے بطور خاص لڑکیوں، دینی مدارس اور اردو میڈیم طلبہ کو فائدہ ہوا۔ یونیورسٹی تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم کو اردو سے جوڑتے ہوئے لسانی اقلیت کو بازار کی ضرورتوں کے مطابق تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ امید ہے کہ یونیورسٹی میں اگلے برسوں میں طب، قانون اور انجینئرنگ کی مزید شاخوں کو بھی یونیورسٹی میں قائم کیا جائے گا۔ پروفیسر صدیقی نے مہمان کا تعارف بھی پیش کیا۔

پروفیسر نسیم الدین فریس، ڈین اسکول آف لینگویجس نے نہایت جامع اور سیر حاصل شکریہ ادا کیا۔ عابد عبدالواسع، پبلک ریلیشنز آفیسر نے کاروائی چلائی۔ ڈاکٹر عاطف عمران، استاذ اسلامک اسٹڈیز کی قرا ¿ت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ انسٹرکشنل میڈیا سنٹر نے جناب رضوان احمد، ڈائرکٹر کی نگرانی میں اس کا لائیو ویب کاسٹ کیا جو youtube.com/imcmanuu پر موجود ہے۔

Tags:

You Might also Like