Type to search

تعلیم اور ملازمت

سرسید احمد خاں ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک: سیدہ سمرین ہاشمی

سیدہ سمرین ہاشمی

سیدہ سمرین ہاشمی

از قلم: سیدہ سمرین ہاشمی
والد: سید بشیر ہاشمی
طالب علم: بی کام کمپیوٹر


سرسید احمد خان (5 ذی الحج 1232ھ ، 17 اکتوبر 1817 کو ہوئی۔ مسلمانوں کے عظیم مصلح، رہنما اور مصنف علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی، دہلی میں ایک درویش صفت شخص میر محمد متقی کے ہاں پیدا ہوئے۔ ان کے اسلاف پر ان سے شاہجاں کے عہدے میں ہرات سے ہندوستان آئے تھے۔

والد نقشبندی بزرض شاہ غلام علی کے مرید تھے اور نانا خواجہ فرید الدین احمد خان مصلح جنگ تھے جو کہ پہلے کمپنی کے مدرسہ کلکتہ میں سپرنٹنڈنٹ تھے اور پھر اکبر ثانی کے وزیر ہوگئے۔ سید احمد خان بچپن ہی سے والد کے ہمراہ بادشاہ کے دربار میں جایا کرتے تھے۔ سید احمد خان کی تربیت زیادہ تر ان کی والدہ نے کی جو بڑی دانش مند خاتون تھی۔ بچپن سے مذہبی ماحول سے ان پر خاصا اثر کیا۔ دہلی میں ان دونوں علوم اسلامی کے دو بڑے مراکز تھے۔ شاہ غلام علی نے ہی ان کا نام احمد رکھا تھا اور انکی بسم اللہ کی تقریب بھی شاہ صاحب کے ہاتھوں ہوئی۔ احمد خاں کی تعلیم بھی انہیں پرانے اصولوں پر ہوئی پہلے قرآن مجید پڑھا پھر فارسی کی درسی کتابیں مثلاً خالق، آمدنامہ، گلستان، اور بوستان وغیرہ پڑھیں۔ عربی میں شرح ملا، مثرح تہذیب مختصر معانی مصلولی کا کچھ حصہ پڑھا۔ ہندسہ اور ریاضی کی تعلیم اپنے ماموں زین العابدین خان اور طب کی تعلیم حکیم غلام سے حاصل کی۔

والد کے انتقال کے وقت ان کی عمر بائیس سال تھی اس وقت انکے خالو خلیل اللہ خاص صدرامین دہلی تھے۔انکے پاس بطور رشتہ دار ملازم ہوگئے اس کے بعد آگرہ کے کمشنر کے دفتر میں نائب منشی ہوگئے۔ سال 1841میں متحان پاس کرکے مین پوری میں جج بن گئے۔ اس حیثیت سے فتح پور سیکری، دہلی، بجنور،مرادآباد، غازی پور،علی گڑھ اور بنارس میں تھوڑا تھوڑا عرصہ رہے اور 1879 میں انگلستان بھی گئے۔ 1876 میں ملازمت سے عیلحدہ ہوکر اپنے مشن کی تکمیل کے لیے علی گڑھ میں مقیم ہوگئے۔ حکومت وقت کی طرف سے ’سر‘ کا خطاب ملا تھا۔ اس لیے سرسید کے نام سے مشہور ہوگئے۔

سال 1878 میں امپریل کونسل کے رکن نامزد ہوئے۔ اور 1889ء میں انگلستان کی یونیورسٹی اڈنبرا نے آپ کو ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔

آخری برسوں میں انکی صحت خاصی خراب رہتی تھی اسی حالت میں کام کرتے رہے اور بالآخر اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے۔

سادگی اور رسلاست
سرسید احمد خان کی تحریروں میں سادگی نمایاں ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں عام بول چال استعمال کرتے تھے تاکہ عام آدمی آسانی سے سمجھ سکے۔

تنز و زرافت
سرسید کے مضمون نگاری کا خوبصورت معیار قائم کیا ہے۔ انکی تحریروں میں زرافت و مزاح بھی پایا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ مزاح تنز کی صورت بھی اختیار کرلیتا ہے اور اپنے مخالفین کے بارے میں انکا انداز تغریہ ہوتا ہے۔

مقصادیت
سرسید کی تحریرں مقصادیت سے بھرپور ہیں۔ ان کی ہر تحریر کوئی نہ کوئی پیغام دیتی نظر آتی ہیےی۔ اور جو کچھ وہ لکھتے ہیں اس کے معنی کو دوسرے کے دلوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

انگریزی کا استعمال
سرسید اپنی تحریروں میں انگریزی کا استعمال بھی کرتے تھے جسکی وجہ سے ان کی تحریر یں مشہور ہوتی ہیں۔

قومی درد
سرسید کی تحریروں میں قومی درد نمایاں ہے۔ انہیں ہندوستانی عوام خصوصا مسلمانوں سے بہت محبت تھی۔ وہ ملک کے لوگوں کو ترقی و خوشحالی کی منزل پر گامزن دیکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے انہوں نے بڑی دل سوزی کے ساتھ اپنی تحریروں کے ذریعہ قوم کو اس کی اصلاح کی ترکیب بتائی ہے۔

آپ نے مسلمانوں کی نئی نسل کے ذہن میں مغربی افکار و نظریات بھرنے اور مسلمان اسلامیہ کا حلیہ بگاڑنے کی جو خدمات انجام دیں اس پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

آنچ گم، ہر طرف دھواں ہی دھواں​.
وائے بر سعیِ سید احمد خاں​. ​. (جوش ملیح آبادی)​.

یہ وہ دور تھا جب پورب صرف اس بات کو ماننے پر تیار تھا جو عقل و تجربہ کی کسوٹی پر رکھی جاسکتی ہو، دیگر کوئی ایسی بات جو ماقوق الفطرت یا کوئی اور اہل مغرب کے ہاں نا ممکن الوقوع اور خلاق عقل سمجھ کر رد کردی جاتی تھی۔

چند عظیم کارنامے
انگریزوں اور مسلمانوں کے درمیان رنجشوں کو دور کرنا-
سال 1857 کی جنگ آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے حوصلے یکجا کرنا- اور ان کی تشخص کی پہچان دیلوانا-
سال 1886 میں محمدن ایجوکیشن کانگریس  (جس کا نام بعد میں کانفرنس رکھ دیا گیا) کی بنیاد رکھنا-
مسلمانوں میں شعوری جگانے کے لیے تعلیم کی اہمیت کو ضروری سمجھتے ہوئے ان کے لیے 1857 میں علی گڑھ کے مقام پر محمدن اینگلو اورینٹل کالج کا قیام-
قرآن پاک کی تفسیر لکھنا- (لیکن ابھی یہ کام پوری طرح پایہ تکمیل تک نا پہچنا تھا کہ زندگی آپ سے وفا نہ کرسکی- اور اس تفسیر کی صرف 7 جلدیں ہی مکمل ہوپائی- اور 27 مارچ 1898 میں انتقال کرگئے-


 نوٹ: اس مضمون کو سیدہ سمرین ہاشمی نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔