Type to search

قومی

آئین کی حفاظت کرنا ہندوستانی شہری کی ذمہ داری ہے

از قلم:۔ امام علی مقصود شیخ فلاحی۔

مولانا آزاد نیشل اردو یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکشن اینڈ جرنلزم کے طالب علم۔


اللہ نے اس کائنات میں بے شمار مخلوقات کی تخلیق کی ہے جس میں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور انسانوں کو بیشمار فطرتوں سے نوازا ہے، انہیں فطرتوں میں سے ایک فطرت یہ بھی ہے کہ انسان جب بھی کسی چیز کو بناتا ہے تو اسکے پیچھے اسے برقرار رکھنے کے لئے اور اس کی حفاظت کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی قانون ضرور بناتا ہے، مثال کے طور پر انسانوں نے ہوائی جہاز کی تخلیق تو کی ہے لیکن اسے بناکر یوں ہی چھوڑ نہیں دیا بلکہ اسکی حفاظت اور اسکے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے کچھ قانون بھی بنائے اور بناکر اس شخص کے سپرد کردیا جو اسے اڑاتا ہے، تاکہ جب بھی کسی چیز کا خوف ہو تو اس قانون کو دیکھ کر اور پڑھ کر اس خوف کو دور کرسکے۔

قارئین! اسی طرح ہمیشہ سے یہ سنت اللہ رہی ہے کہ اللہ نے جب بھی کسی قوم کو پیدا کیا ہے تو اس کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے لئے کسی نہ کسی قانون کو بشکل صحیفہ یا بشکل کتاب نازل کی ہے، تاکہ وہ قوم اپنی زندگی کو کامیاب بنانے میں اس کتاب یا صحیفے کا سہارا لے۔

مثال کے طور پر اللہ نے جب قوم داؤد کو پیدا کیا تو اسکے پیچھے ایک قانون بشکل زبور نازل کی ، تاکہ وہ قوم اپنی زندگی اسی کے مطابق گزار کر کامیابی حاصل کرے۔

اسی طرح اللہ نے جب قوم عیسیٰ کو پیدا کیا تو اسکے پیچھے ایک قانون بشکل انجیل نازل کیا، تاکہ اس قوم کو جب بھی کسی چیز کی ضرورت پڑے تو اس قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مسئلہ کا حل نکال سکے۔

اسی طرح اللہ نے جب قوم موسی کو پیدا کیا تو اسکے پیچھے ایک قانون بشکل زبور نازل کیا تاکہ وہ قوم جب بھی کسی مسئلہ میں الجھے تو وہ اس قانون کو جو بشکل زبور نازل ہوئی ہے اسکا سہارا لے۔

اسی طرح جب اللہ نے امت محمدیہ کو پیدا کیا تو اسکے پیچھے ایک قانون بشکل قرآن نازل کیا تاکہ اس امت کے سامنے جب بھی کوئی مسئلہ در پیش ہو تو یہ امت اس قانون کی جانب جو بشکل قرآن و حدیث نازل ہوئی ہے اسکو سہارا بناے۔

اسی طرح جب اللہ نے قوم ابراہیم کو پیدا کیا تو اسکے پیچھے ایک قانون بشکل صحیفہ نازل کیا تاکہ وہ قوم جب بھی کسی پریشانی کا سامنا کرے تو وہ قانون جو بشکل صحیفہ نازل ہوا ہے اسکی جانب رجوع کرے۔

معلوم ہوا کہ جب بھی اللہ نے کسی قوم کو پیدا کیا ہے تو اسکے پیچھے ایک قانون کو بشکل کتاب و صحیفہ ضرور نازل کیا ہے تاکہ وہ قوم اپنی زندگی کو کامیاب بنا سکے اور اپنے زندگی کی حفاظت کر سکے۔

ایک بات اور واضح کردوں کہ زندگی کی حفاظت اسی وقت ہوسکتی ہے جب وہ قوم خود اس قانون کی حفاظت کرے جو بصورت کتاب و صحیفہ، قرآن و حدیث نازل ہوئی ہے، کیونکہ زندگی کا سارا دارومدار اسی قانون و کتاب پر ہے۔ اور یہ بات بھی ہمیں معلوم ہے کہ جب بھی کسی قوم نے اپنے قانون کی حفاظت کی ہے یعنی اسے اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش کی ہے تو وہ قوم آباد رہی ہے اور جب بھی کسی قوم نے اس قانون کی جو بشکل کتاب و صحیفہ نازل کی گئی تھی اسے اپنی زندگی سے دور کیا ہے یا اسے ٹھکرایا ہے تو وہ قوم ہلاک و برباد ہوگئی ہے۔

قارئین ! یہ ملک جس میں ہم اپنی زندگی کی سفر کو طے کررہے ہیں یہ ملک دنیا کا وہ واحد‌ ملک ہے جسمیں ہندو مسلم سکھ عیسائی ملکر اپنی زندگی گذارتے ہیں جس ملک کو گنگا جمنی تہذیب سے یاد کیا جاتا ہے، یہ وہ ملک ہے جسکی مثال دوسرے ممالک میں بھی گنگا جمنی کے نام سے دی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس ملک کو پولیٹیکل سائنس میں ایک قوم کا درجہ دیا گیا ہے، یعنی وہ لوگ جو اس ملک میں رہتے ہیں بلا تفریق مذہب ملت ایک قوم کے مانند ہیں۔

بہر حال جب اس ملک کو ایک قوم‌ کا درجہ حاصل ہوگیا تو اسکے بعد اس قوم کو ایک قانونی کتاب دیاگیا جسے کانسٹی ٹیوشن کے نام‌سے جانا‌جاتا ہے، تاکہ یہ قوم جب بھی کسی مصیبت کا سامنا کرے تو اس کانسٹی ٹیوشن کا سہارا لے یا جب بھی اس قوم پر کوئی پریشان آئے تو اس قانون کا سہارا لے، کیونکہ یہی وہ کانسٹی ٹیوشن ہے جس میں ہندوستانی قوم کی ساری پریشانیوں کا حل موجود ہے،

اگر کسی ہندوستانی شہری پر کوئی ظلم و ستم ہوتا ہے تو اس آئین کی جانب رجعت کرنے سے اس ظلم کا خاتمہ ہوسکتا ہے، یہی وہ کانسٹی ٹیوشن ہے کہ اگر کسی کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے تو اگر وہ اس کانسٹی ٹیوشن کی جانب متوجہ ہوتا ہے تو اسے انصاف ملتا ہے، یہی وہ کانسٹی ٹیوشن ہے کہ اگر کسی کی آزادی کو چھینا جاتا ہے تو اگر وہ اس کانسٹی ٹیوشن کا سہارا لیتا ہے تو اسے آزادی مل جاتی ہے، یہی وہ قانونی‌کتاب ہے کہ اگر کسی مذہب کو بدنام کیا جاتا ہے یا اس پر پابندی لگائی جاتی ہے تو یہ قانونی کتاب اسے اس سے روکتی ہے اور اسے مذہبی آزادی فراہم کرتی ہے۔

غرض یہ کہ یہ کانسٹی ٹیوشن ہندوستانی قوم کی زندگی کا ایک بہترین سرمایہ ہے، اس لئے اگر ہندوستانی قوم اپنی زندگی کو ساری مصیبتوں سے نکال کر بہترین ڈھانچے میں ڈھالنا چاہتی ہے تو اسے اس کانسٹی ٹیوشن کی کی حفاظت کرنی ہوگی،

جو کانسٹی ٹیوشن ایک ہندوستانی شہری کو سماجی، سیاسی اور معاشی انصاف عطاء کرتا ہے، جو کانسٹی ٹیوشن ایک ہندوستانی شہری کو آزادی خیال ، اظہارِ رائے اور عبادت و عقیدت کی آزادی فراہم کرتاہے، جو کانسٹی ٹیوشن اخوت و مساوات کا درس دیتا ہے اس کانسٹی ٹیوشن کی حفاظت نہایت ضروری ہے ورنہ اگر اسے یوں ہی چھوڑ دیا گیا اور اسکی حفاظت نہیں کی گئی تو اسکی دھجیا اڑا دی جائے گی اور ساتھ ہی ساتھ ہر ہندوستانی شہری زندگی برباد ہو جائے گی۔


 نوٹ: اس مضمون کو امام علی بن مقصود شیخ فلاحی نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔

Tags:

You Might also Like