Type to search

قومی

مسلمانوں کا معاشرتی بگاڑ اور اسلام کے عائلی قانون کے متعلق پرو پگنڈا

مسلمانوں کا معاشرتی بگاڑ

ہاجرہ حبیب،

ضلعی ناظمہ شعبہ خواتین۔ جماعت اسلامی ہند، ٹمکور۔


یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِیْ السِّلْمِ کَآفَّۃً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ * فَإِن زَلَلْتُمْ مِّن بَعْدِ مَا جَاء تْکُمُ الْبَیِّنَاتُ فَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ۔ اے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آجاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو وہ کھلا دشمن ہے، جو صاف صاف ہدایتات تمہارے پاس آچکی ہیں، اگر ان کو پالینے کے بعد پھر تم نے لغزش کھائی تو خوب جان رکھو اللہ غالب اور حکیم ہے۔ (سورۃ البقرہ :۲۰۸-۲۰۹ (

معاشرتی بگاڑسے مراد، معاشرہ سوسائٹی میں موجود خرابیاں، برائیاں اور اس سے افراد معاشرہ کو پہنچنے والی تکلیف و نقصان چاہے وہ دنیا وی ہو یا اخروی۔ آج مسلمانوں کے معاشرتی بگاڑ کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمارا معاشرہ بے شمار رسموں و رواجوں تو ہموں، خاندانی روایات پر مبنی نظر آتا ہے جسے دیکھ کر کہیں سے بھی اسلامی معاشرہ تو نہیں کہا جاسکتا۔

یہ معاشرہ دو طرح کے قدیم وجدید طرز تہذیب وتمدن پر مشتمل ہے۔ پہلے قدیم بگاڑ پر ایک نظر ڈالیں تو مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہی ہندوستانی معاشرہ یاسماج مختلف برائیوں خرابیوں تو ہمات اندھ وشواس جن بھوت پر یت چڑ یل دیوی دیوتاؤں کی بر تری جا دو ٹونا تعویذ گنڈوں کے علاوہ بال وواح ستی سٹم چھوت چھات مذہبی اِجارہ داری جیسی خرافات کی بے رحم بندشوں میں جکڑاہواتھا۔

ان حالات میں جب اسلام ابرِ رحمت بن کر ہندوستان میں داخل ہوا،حضراتِ صحابہ کرام تابعین تبع تابعین محدثین مبلغین مجاہدین جر نیل حکمران آتے رہے اور اثر انداز ہوتے گئے۔ ایک وقت ایسابھی آیا کہ طاقت وقوت اقتدار سب مسلمان حکمرانوں کے ہاتھ آگیا، اللہ والوں نے اسلام کی آبیاری کے لئے جو کو شش کئے تھے،تعلیماتِ اسلامی کی تبلیغ کی تھی اس کے نفوذ تو سیع واشاعت کے لئے اکثر حکمرانوں نے اس کی نمائندگی نہیں کی، عیش کوشی مال وجاہ کی محبت مختلف طرز کی عما رتوں مقبروں کی تعمیرات میں وقت وقوت کو صرف کیا،ان میں سرِ فہرست مغلیہ سلطنت کا مطلق ولغان حکمران اکبر رہا، جس نے اپنی حکومت کی بقااور وسعت کی خاطر مختلف مذاہب سے ازدواجی تعلقات قائم کئے اور ان سب میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے بالآخر دینِ اسلام میں تر میم وتحریف کی جسارت کرتے ہوئے نیادین، دینِ الٰہی،کی بنیاد ڈالی اور شاہی محل کے بین مذاہب تقریبات کا اثر پورے ہندوستانی سماج پر پڑا،جو آج بھی ہم ہندوسماج میں کے کئی اسلامی اقدار کو دیکھ سکتے ہیں،مگر سب سے زیادہ خسارہ مسلمان معاشرہ کا ہوا،دیکھتے ہی دیکھتے مسلمان معاشرے میں اسلامی طور طریقوں کے بجائے ہندوانہ رسم ورواج پھیلنے لگےاورجڑپکڑنے لگے۔

حالانکہ اس آندھی کو روکنے کے لئے کئی اللہ والوں نے کوشش کیں جن میں حضرت خواجہ باقی باللہ ؒمجددِ الف ثانی،شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ،شیخ الحدیث سر ہندی ؒوغیرہ نے تو اکہری فتنہ کا پوری شد ومدسے مخالفت کئے۔ ان کو ششوں سے ظاہری طور پر عقیدہ وار کان پر پڑنے والے اُمور کی تو اصلاح ہوئی مگر باطنی طور خصوصاً عورتوں کے درمیان جو بگاڑ در آیا تھا وہ ویسے ہی مسلم معاشرہ کا ایک لازمی حصہ بن کر رہ گیا۔

ان میں آج بھی بچہ کی پیدائش سے پہلے سات مہنوں میں گود بھرائی، پیداہونے کے بعد نام رکھائی، چھٹی چھلہ، گہوارے کی رسم، بسم اللہ خوانی، ختنہ کی رسم، لڑکی بالغ ہونے پر رسم، عقیقہ کی رسم، شادی میں ہلدی مہندی شکرانہ وداعی جمعگی وغیرہ۔ دعوت پرائی ڈھول باجے ناچ گانے،زبر دستی کے تحفے تحائف کا سلسلہ جاری رہتاہے۔

لڑکیوں کو دیکھنے کا سلسلہ سالوں چلتا ہے،پچاسوں کو دیکھنے کے بعد کسی کا انتخاب ہوتاہے،گھوڑے جوڑے سہرا کی فر مائش،ان کو دیکھنے کا ارمان، جہیز کے نام پر موٹر گاڑی سونا گھر یلو سازو سامان اس کے علا وہ بڑی بڑی رقم کا مطالبہ، دھوم دھام سے بارات، مردوں اور عور تو ں کی ملی جلی تقاریب اور ان تقاریب میں ناچ گانے آر کشٹرا ڈانس فوٹوز ویڈیو فلم شاندار دعوتیں،بناؤ سنگار مہنگے عریا نی لباس ان سب کے بعد دلہن کو لاکر لونڈیوں جیسا سلوک،مہرکوتاخیر سے دینا یامعاف کرالینا،وراثت سے محروم کردینا، اختلافات کو طول دینا،یاطلاق پر معاملہ کو ختم کرلینا، ایک ہی نشت میں تین طلاق، اولاد کے نہ ہونے پر طعنے دینا، لڑکیوں کی پیدائش پر منحوس قرار دینا اور اسقاطِ حمل کرانا، ان سب میں ہماری خواتین کی سوچ فکر وغیرہ بھی قابل مذمت ہے۔

ان سب کے علاوہ مذہب وعقیدے کے نام پر کئی بدعتیں، تقاریب منانا،عید بارات کا اضافہ اور ساتھ ہی ہم نے مُردوں کو بھی نہیں بخشا، مرنے کے بعد زیارت 10واں 20واں چہلم برسی وغیرہ اس کے علاوہ معاشرے کی بے رحم سوچ اب اس انتہا کو پہنچ چکی ہے گھر کے بڑے بزرگوں کی عزت و تو قیر کے ساتھ خدمت کرنے کے بجائے اولڈایج ہوم قائم کئے جارہے ہیں جہاں بے یا رو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ان سب کے علاوہ انٹرنیٹ واٹس ایپ فیس بک ٹوٹیر نے تو بے شرمی وبے حیائی کے سارے دروازے چوپٹ کھول دئے ہیں خصوصاً تعلیم یافتہ طبقہ مغربی تہذیب کا دلدادہ بن گیا ہے بڑے ہی رشک اور مرعوبیت کے ساتھ اندھی تقلید میں اپنی کا میابی سمجھنے لگا ہے۔

حالانکہ مغرب کا سارا خاندانی نظام در ہم برہم ہوگیا ہے،زنا،حرام کاری فحاشی اور عریانی نے پورے سماج کو گناہوں اور بیماریوں کے لپیٹ میں لے چکاہے۔ اعداد وشمار کے مطابق بن بیاہی ماؤ ں کی کثرت اتنی کہ 15سے 19سال کی عمر کی دو لاکھ سے زائد ہوگئی ہیں۔ جس کے نتیجہ میں نا جائز بچوں کی گلی گلی بھر مار ہے آوارہ جانوروں کی طرح بے سہارا حکومت کے رحم وکرم پر پلتے ہوئے بڑے ہو رہے ہیں، اور کئی جرائم کے عادی ہوجاتے ہیں۔

ہر تیسری شادی کا انجام طلاق پر ہوتاہے۔ ہر چوتھی عورت کا انجام بوائے فرینڈاور شوہر سے پٹتی ہے۔ سالانا 2000سے4000ہزار تک عورتیں موت کے گھاٹ اتاردی جاتی ہیں۔برطانیہ کی سڑکوں پر ریلویسٹیشن پر لڑکیاں کھڑی ہوکر ایک پونڈدو پونڈمیں پکار تی رہتی ہیں۔ ہلیری کلنٹن دورۂ پاکستان کے موقع پر ایک پاکستانی کالج میں پاکستانی لڑکیوں سے مخاطب ہوکر کہاتھا،پاکستانی لڑکی خوش قسمت ہے کہ اُ سے صرف اپنا ایک کالج بیگ اُٹھانا پڑتاہے، کچھ امریکی لڑکیوں کو دوبیگ اُٹھانے پڑتے ہیں ایک اپنا اور ایک اپنے ناجائز بچے کا، نعوذبااللہ! اللہ ایسے معاشرے اور وقت سے حفاظت فرمائے۔

بہرِحال ہمارا مسلم معاشرہ بڑی تیزی سے قدیم وجدید جاہلیت کے چکر میں بھنس کر اسلامی خاندانی نظام ِزندگی سے دور ہوتاچلاگیاہے،اس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو اسلام کے بابرکت نظامِ حیات پر یقین کا نہ ہونا، دوسرا عائلی تعلیمات سے نا واقفیت۔ حالانکہ خالق کائینات کا عطاکیا دین دینِ فطرت ہے مکمل نظامِ حیات ہے انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی کرتاہے، اپنے بندوں کی بھلائی کے لئے قوانین عطا کرتا ہے حقوق مرتب کرتا ہے اسی بنا پر تقاضہ کرتاہے کہ (یا ایھاالذین امنو اد خلو فی السلم کافۃ ولا تتبعوخطوات الشیطان) اے ایمان لانے والو تم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ شیطان کی پیروی نہ کرو۔ مگر ہم نے عبادات کے چند ارکان ادا کرکے سمجھ لیاکہ ہم مسلمان ہیں۔ یہ ہمارا منا فقانہ طرزِ عمل پچھلی قوموں کی طرح رسوائی و عذابات کو دعوت دے رہاہے، افتؤ منون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض،کیاتم کتاب یعنی قرآن کے چند احکاموں کو تو مانتے ہو اور چند پر کفر یعنی انکار کرتے ہو،یہ بہت بڑی خباثت وحماقت ہے، اس جسارت کے پیچھے ہمارے نفس وخواہشات کی غلامی،ہمارے سراب شدہ معیار ات فرنگی تہذیب سے مرعوبیت،دکھا وا جھوٹی شان وشوکت یہ تمام باطل،گمراہی کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں،قرآن اُسے طاغوت کی فرمانبرداری سے تعبیر کرتاہے۔

اسلامی نظام زندگی پر عمل نہ کرنے پر جہاں اُخروی عذابات سے ہم بچ نہیں سکتے وہیں اللہ تعالی دنیامیں بھی کئی طرح کی رُسوائیوں اذیتوں کے عذاب سے دو چار کرتاہے۔ آج ہمارا معاشرہ جن پر و پیگنڈوں سے پریشان ہے رُسواہے کہیں کوئی حیثیت نہیں یہ سب اپنے بد عملیوں کی وجہ سے ہے۔ اسلام دشمن عناصر عالمی اور ملکی سطح پر اسلام کو مٹانے اس کی تعلیمات کو مسخ کرنے کی لگاتار منصوبہ بند ساز شوں اور کو ششوں میں لگاہواہے۔ ان سب میں عورت تر نوالہ ثابت ہوئی ہے، لہذا اس کا سہارالے کر اسلام پر وار کیا جانے لگا ہے کہ اسلام میں عورت کا کوئی مقام نہیں،عورت مظلوم ہے پردے میں مقید ہے گھر یلو ں تشدد سے دو چار ہے،مرد کا کھلو نا ہے ہے وغیرہ۔ حالانکہ تازہ سائٹفک سروے لسٹ جو آئی گھریلو تشدد کی (Domestic Violence)اُس میں مسلمان عورتوں کا تناسب سب سے کم ہے،ساری دنیا میں عورتوں پر گھریلو تشدد ہوتاہے۔یہ ایک دائمی سلگتا ہوا مسلۂ ہے پھر بھی مسلمانوں میں اس کی شرح کم ہے۔

آج دیکھئے جس مذہب میں عورت کی حیثیت ایک داسی سے زیادہ نہیں اور ہر طرح سے ظلم وستم کی چکی میں پس رہی ہے نہ آزاد ہو سکتی ہے نہ حقوق پاسکتی ہے۔ایسے لوگ اسلام کے پُر امن عدل وانصاف پر مبنی شریعت پر حملہ کرتے ہیں۔عورتوں کے ہمدرد ہمنوا بن کر اعتراضات کا سلسلہ چلاتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں مرد کو تو ایک سے زائد بیویاں رکھنے کا حق ہے جبکہ عورت کو نہیں،وراثت میں مرد کے مقابلے عورت کو کم حصہ دیاجاتاہے۔ نقاب اور بُرقعے کو لے کر کا لجس میں لڑکیوں کو تنگ کیا جاتا ہے تاکہ اُن کی تعلیم کا نقصان ہو،کبھی برقعہ کو غلط کاریوں میں استعمال کرکے اُسے مشکوک بنایا جاتاہے اور اس پر سوالات کھڑے کئے جاتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتاہے صرف عائلی قوانین نہیں بلکہ سارے مسلم پر سنل لاء سے ان کو مخالفت ہے۔حالانکہ مسلم پرسنل لا دستور ہند کے مطابق ہمارا بنیادی حق ہونے کے ساتھ مذہبی و شخصی حق بھی ہے،اس حق سے ہم مسلمان ہر گز دستبردار نہیں ہوسکتے،کیو نکہ اس کے بغیر ہماری شخص وملی وجود کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی،ہماری دنیا ہی نہیں آخرت کی لا محدود زندگی کلی کامیابی بھی اسی پر منحصر ہے۔

حقیقت میں دیکھا جائے تو ان اعتراضات وہمد ردیوں کے پیچھے ان لوگوں کی منشا صرف اسلام کو بد نام کرنا مسلمانوں کو کسی نہ کسی طریقے سے دہشت گردی، لو جہاد،گؤ رکھشاوغیرہ سے خوف زدہ کرکے رکھنا تاکہ وہ امن وسکون کے ساتھ کسی بھی میدان میں آگے نہ بڑھ پائیں ترقی نہ کر سکیں۔اس کے علاوہ اپنی سات سالہ نااہل عوام دشمن پالیسوں کو چھپانے،ملک کے حساس اور بنیادی مسائل سے عوام کو گمراہ کرنے کے لئے نت نئے شوشے استعمال میں لالئے جارہے ہیں۔ان سب سے قطع نظر ہمارے مسلم معاشرے کے بگاڑ نے اسلامی نظامِ رحمت سے دوری نئے امت کو کہیں نہیں چھوڑا،امت کی یہ حالتِ زار نشانِ عبرت بھی اور سبق بھی،بہت سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔آج امت کی ایمانی کیفیت کیاہے خدا کا خوف خدا پر تو کل کتنا ہے، اوامر پابندی نواہی سے اجتناب کی کیاشگلیں رہ گئی ہیں،جو امت انسانیت کی امامت کرنے لائی گئی۔ کہاں ہیں؟

حلال وحرام کی تمیز ختم ہوگئی ہے،جہیز جوڑا،جو،جوا اور سٹہ بازی سے کم نہیں وہ حلال ہوگیا سود خوری چٹ فنڈ سنکھے وغیرہ گناہوں کے زمرے سے ختم ہوئے جارہے ہیں۔نکاح جو باعث رحمت تھا باعث زحمت اور مہنگا ہوگیا ہے زنا آسان ہوگیا،ذہنی عیا شیوں کا جال بچھ گیا،روسم ورواج کی مخلوط تقاریب نے شروحیا کے سارے قلعے منہدم کرتدئے۔سطحی سوچ اور جھوٹی شان کے لئے فضول خرچی میں شیطان کے بھائی بن گئے۔لا تبذر تبذیرا ان المبذرین کانوا اخوان الشیاطین۔ان سب کے نتیجہ میں ملت کا معاشی ڈھانچہ کھو کھلا ہوتا گیا۔ جتنی رقومات فضول کھانے پینے سجاوٹ، شاندار شادی محلوں کے مہنگے کرایہ ان سب کا تھوڑاحصہ بھی نادار بچیوں کی شادی پر لگایا جا تا تو کئی لڑکیوں کے نکاح آسان ہوسکتے ہیں انہی فضول خرچ لوگوں کی وجہ سے آج غریب لڑکیوں کی شادی ایک مسئلہ بن گئی ہے۔ سب دیکھا دیکھی کئی نادار عورتیں فضول چیزوں کے لئے سودی قرض لیتے ہیں سنکھاؤں میں شامل ہوتے ہیں اور قسطیں نہ چکانے کی وجہ سے لڑائی جھگڑے خود کشی کے تک مر تکب ہورہے ہیں۔

ایسانہیں ہے کہ اس موضوع پر تقریریں نہیں ہوئے،تنظیمیں نہیں بنائی گئی،مہمیں نہیں چلائی، بحث ومباحثہ نہیں ہوئے،سب کچھ ہوا مگر سب اپنی باری پر وہی تاویلیں اور بہانوں میں ڈوب کر وہی کچھ بگاڑ کو اپنا نے لگے اور سناتے رہ گئے۔ لہذااب عملی نمونوں کی ضرورت ہے،عملی نمونوں پر طعنے دینے کے بجائے حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کے ساتھ نوجوان نسل کی ذہنی تربیت کرنے کی ضرورت ہے اسلامی شرعی قوانین کی تفہیم کی ضرورت ہے حالانکہ اس ضمن میں جماعت اسلامی ہند،فارورڈٹرسٹ وغیرہ آگئے ہیں۔ اللہ تعالی تمام کو اسلام کے نظامِ رحمت پر عمل کی توفیق عطاکرے اللہ ہماری زندگیوں سے راضی ہوجائے، آمین۔


ہاجرہ حبیب۔ ٹمکور
ضلعی ناظمہ، شعبہ خواتین۔ جماعت اسلامی ہند، ٹمکور

+91-9901-733-*** | hajira1002@gmail.com


 نوٹ: اس مضمون کو ہاجرہ حبیب نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔