اپنا توشہ اپنا بھروسہ
![own tiffing own trust](https://urdupostindia.com/wp-content/uploads/2020/07/Abdul-Azim-Rahmani3-820x394.jpg)
عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری
ملک کے حالات اس بات کا سبق یاد دلا رہیے ہیں کہ جو لوگ اپنی آمدنی میں سے کچھ بچا کر پس انداز کرتے ہیں وہ ہاتھ پھیلا نے سے بچ جاتے ہیں ۔ متقیوں کا ایک گروہ اس کو اللہ کے رزاق ہونے پر یقین کی کمی کہیے گا۔ بچوں کی تعلیم اور لڑکیوں کے ہاتھ پیلے کرنے، بیماری میں یہ بچت مددگار ثابت ہوتی ہیے۔
نکٹا بیٹا پیٹ کا، کھوٹا پیسہ گانٹھ کا، مثل مشہور ہیے۔ اس وقت سارے ملک میں بڑے پیمانے پر مسلمان اناج اور ضرورت کا سامان تقسیم کر رہیے ہیں اس کے باوجود غرباء کی ضرورت پوری نہیں ہورہی ۔اور ان کی بھوک کے ویڈیو، مفت راشن اور کھانا لینے کی لمبی قطاریں واٹس ایپ پر کثرت سے دیکھ کر دل خون ہوتا ہیے۔ اچھے دنوں میں کچھ بچارکھنا برے دنوں میں کام آتا ہیے۔کاروبار ہو یا مزدوری، نوکری ہو یا زراعت ۔۔۔۔ہر ایک میں ایک اچھال اور سیزن آتا ہیے۔آدمی کچھ اچھا کما لیتا ہیے۔اگر بیوی سلیقہ مند ہیے تو کل کے لیے کچھ پس انداز کرلیتی ہیے۔جہاں بے شعوری ہیے وہ کھا پی کر موج کر لینے اور ہاتھ پونچھ لینےکو ہی بہتر زندگی جینا سمجھتے ہیں ۔
حسرت ،تمنا،عشت،امید ،آس نسبت
سامان اتنا ذیادہ، چھوٹے سفر میں مت رکھ
ہمارے خیال میں کچھ اٹھا رکھنے کا سلیقہ مسلمانوں کی بہ نسبت دیگر اقوام میں قدر بہتر ہیے۔ وہ اس بچت کو انویسٹ بھی کرتے ہیں ۔حالات سکھا رہیے ہیں کہ کفایت شعاری، حسن سلیقہ ،شعور،سوچ بچار کے اور محتاط فیصلے اب زیادہ ضروری ہو گئے ہیں۔
الحمداللہ بہترین تجزیہ کرتے ہوئے اپنے ماحول کا جائزہ لیا گیا ہے