Type to search

تلنگانہ

ایک جائزہ: روح تلمیذی اور تلقین استاذی

روح تلمیذی اور تلقین

از قلم ۔ ام مسفرہ مبشرہ کھوت


علم ایک ایسی روشنی ہے جو زندگی کے تمام گوشے منور کر دیتی ہے۔ ہرمصیبت ہرمشکل گھڑی میں کام آنے والی نعمت علم ہے۔ علم والا اور بنا علم والا برابر نہیں ہو سکتا۔ بلکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ علم والا بینا اور بے علم اندھا ہے ۔ پھر علم سکھانے والا جہاں اپنا مقام رکھتا ہے وہی سیکھنے والے کی بھی قدر ہونی چاہئے۔ استاد وہ ہوتا ہے جو شاگردکو صرف راہ نہیں دکھاتا بلکہ اس کی انگلی پکڑ کر اسے چلنا سکھاتا ہے بڑا بناتا ہے یہاں تک کہ اسے انسان بناتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ استاد کی عزت ہم پر لازم ہے۔ ہاں اسی لیے ہر سال ہم ٹیچرس ڈے مناتے ہیں۔

اور پھر یہی تو وہ دن ہے جب ہم استاد کو تحفے تحائف پیش کرکے اپنی محبت اور خلوص کا اظہار کرتے ہیں۔ مگر روایات کچھ اس طرح بدل گئیں کہ اب یہی تو وہ دن ہے جب ہم کیک کاٹتے ہیں۔ خوب بن ٹھن کراسکول و کالج جاتے ہیں۔ اور جب ہم اپنے استادوں کی نقل ان کے سامنے کرتے ہیں۔ جی ہاں یعنی جب ہم انکا مذاق اڑاتے ہیں تو وہ بھی ہنستے ہیں اور ہم بھی ہنستے ہیں۔
افسوس صد افسوس!! علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ کہنا پڑےگا

“رہ گئی رسم تعلیم روح تلمیذی نہ رہی
نصاب بڑھ گیا تلقین استاذی نہ رہی”

آہ وہ نادر استاد اور انکی درخشاں یادیں! کہ جب وہ داخل ہوتے تو سارے طلباءکے دل عزت و احترام کے جذبات سے سرشار ہوتے۔ وہ انتہائی تواضع و انکساری اور وقار کے ساتھ بیٹھتےاور انکے ارد گردایک ہجوم سر جکھاۓ بیٹھتا۔ اور جب وہ اپنے انفرادی لہجے میں احادیث کی تعلیم دیتے۔ کہتےکہ” مجھ سے نافع (رح) نے اور نافع (رح) نے ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ فرمایا مجھ سے اس قبر کے مکین نے (صلی اللہ علیہ وسلم )” ۔یہ کہتے ہوۓ وہ دائیں ہاتھ سے روضہ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )کی طرف اشارہ کرتے اور حدیث کہتے۔

ہر سننے والے پر رقت طاری ہوتی اور ہر کسی کے دل میں اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اترجاتی، یہ درس گاہ ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی۔ جب بات چلی ہے استاد اور شاگرد کی تو اسی مجلس میں ایک شاگرد حاضر ہے جو اپنی خستہ حالی کی انتہاں پر ہے نہ اس کے پاس توشئہ سفر ہے نہ ہی لوح و قلم ہے بس ایک علم کی پیاس ہے جو اسے اس محفل تک کھینچ لائی ہے جب تدریس شروع ہوتی ہے اور سارے طلباء قلم و قرطاس کا استعمال کرتے ہیں تو یہ بچہ اپنی انگلی دانتوں میں دبا کر ہاتھوں پر کچھ نقش کرتا ہے۔

مجلس برخواست ہوتی ہے اس اس بچہ سے اس حرکت پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں بچہ کہتا ہے کہ میں نے اس طرح لکھ لیا ہے استاد ہاتھ کھینچ کر دیکھتے ہیں اور شاگرد کہتا ہے کہ میں نے دل پر لکھ لیا ہے اور پھر بالکل اسی انداز میں کہ جس طرح استاد نے اس مجلس میں بیان کی تھی کہ مجھ سے نافع نے اور نافع نے فلاں سے اور فلاں نے فلاں سے اور فلاں نے اس قبر والے سے (انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے) پوری چالیس احادیث جو اس مجلس میں بیان کی گئی تھی جوں کی توں سنادی۔

اب استاد شاگرد کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ یہ شاگرد رشید ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہ اب جن کی کفالت اور حصول علم کی ساری ذمہ داری استاد قبول کرتے ہیں۔ واقعی نہ علم حاصل کرنے کے لئے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے نہ علم سکھانے والے کو دولت کی طلب۔ یہی وہ علم کی درس گاہیں تھیں کہ جن سے بڑے بڑے علماء فقہاء اور محدثین نکل کر سارے زمانے کی تربیت کے لئے دنیا بھر میں پھیل گئے۔ مگر افسوس کہ۔ ” تھے وہ بھی دن کہ خدمت استاذ کے عوض
دل چاہتا تھا ہدیئہ دل پیش کیجئے
آیا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ بل پیش کیجئے “

پہلے کے ادوار میں اساتذہ نے علم پہچانے کو اپنی ذمہ داری سمجھ لی، اب جیب کی مجبوری جان بیٹھے ہیں۔ پہلے اساتذہ علم کے علم بردار، حق کے سپاہی، انقلاب کے راہی کھڑھے کرنا چاہتے تھے، اب رڑلٹ %100 آنے سے مطلب ہے۔ علم کی اہمیت کو خود انھوں نے ہی مادہ پرستی کی بلی چڑھا دیا اب رونا ہے کہ ہماری عزت باقی نہیں۔

قارین ذرا یاد کریں امام ابو حنیفہ کی وہ مجلسیں جہاں مسئلوں کا حل نکالا جاتا۔ استاد شاگرد روبروعلمی بحث کرتے مگر نا استاد میں تکبر ہوتا نا طلباء بدتمیزی کرتے۔ استاد بھی ایسا کہ لوگ مسائل کھڑے کرتے جاتے، معاملات الجھاتے جاتے، ہم عصر ابھی سوچوں میں گم ہیں اور جناب ادراک وفہم نے حل نکالا بھی اور اپنی ذہانت و فراست سے سب کو حیران کردیا۔ اگر مجلسوں میں شاگرد کہیں ٹوک بھی دیتے تو وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے۔

ایسا استاد جو بہت خوبیوں کا حامل ہے لیکن یہ کہ پاوں زمیں پہ ہے۔ یاد رہےامام ابو حنیفہ گدھے کے لئے احتراماً کھڑے ہو جایا کرتے کہ اس سے بھی کچھ سیکھا ہے۔ سچ ہے عزت دینے والے کو ہی عزت ملتی ہے۔ آج کلاس روم میں شاگردوں پہ چڑھائی کرنے کے علاوہ بھی کام ہو تو شاید پلکیں بچھیں رہیگی۔ اسائنمنٹ پروجیکٹ کے لیے ستانا، پریزنٹیشن اور وائیوا میں ذلیل کرنا ،امتحان میں کم مارکس دینا نا اگر یہ سب کرکے ٹیچرس کا مرتبہ بڑھتا ہے تو آج شوشل میڈیا پر اتنے meme انکے نام نا ہوتے۔ آج استادوں نے نا اپنا مقام قائم کیا نا طلباء نے حقیقی عقیدت رکھی۔

پہلے علم کی فضیلت یوں تھی کہ ولی عہد کی خوب تعلیم و تربیت ہوتی اور بادشاہ کے بھی دربار میں عمدہ شخصیات ہوتیں۔ عوام بھی انکو حاکم مانتی جو لائق ہوتا۔ جب بھی سکندر اعظم کے کارنامے سننے میں آتے ہیں تب ارسطو کا وجود ان کے پیچھے کھڑا مسکراتا ہے۔ سننے میں یہ بھی آتا ہے کہ اورنگ زیب اپنے تخت سے اتر کر استاد کا استقبال کیا کرتے تھے۔ اور تاریخ بتاتی ہے کہ خلیفہ ہارون الرشید کے بیٹے مامون الرشدید اور امین الرشید اپنے استاد کے جوتے پکڑانے کے لئے لڑپڑے۔

ماضی عزت افزائی سے لبالب ہے اور حال دیکھیے کہ ایک جعلی ڈگری والا نظام چلا رہا ہے درس گاہوں میں آ آ کر علم کے وارثوں کو پٹوا رہا ہے اور کہاں ہے ہمارے ملک کے سچے طلباء جنھیں قوم کی معماری کرنی تھی۔ جی بالکل زنداں میں ز ندہ ہیں۔ پوچھنا بنتا ہے کیاساوتری بائی پھلے اورمہاتما جوتی با پھلے نے اسی دن کے لیے لیے چوٹیں برداشت کیں تھیں۔ رادھا کرشن کا ماننا تھا کہ استاد ملک کا بہترین ذہن ہونا چاہیے۔ ان کا جنم دن ہم بطور تہوار ٹیچرس ڈے مناتے تو ہے مگر جب پرسنٹیج % کم آتے ہیں تو ایسوں کو ٹیچر بننے کا مشورہ دیتے ہیں۔

چانکیہ جی، رابندر ناتھ ٹائیگور، سوامی دیانند سرسوتی، سوامی ویویکانند، مولانا ابوالکلام آزاد، سر سید احمد خان، نطام الدین اولیا(رح)، معین الدین چشتی(رح)، پریم چند۔۔۔۔ ایسے کئی ناموں کی فہرست ہے جنھوں نے فضول رسومات کو توڑا، جہالت کے اندھیرے میں علم کا چراغ جلایا۔ ان کے ہی فضل سے ہم اور آپ پڑھ سکتے ہیں ۔مگر کیا انکے خوابوں کی صحیح تعبیر ابھی ہوئی ہے؟ عبد الکلام کو ہم سے بچھڑے ہوئے ہوئے زیادہ دیر بھی نہیں ہوئی اور ان کے ویژن 2020 کو کورونا ہوگیا۔ ہاۓ ! گنوادی ہم نے اسلاف سے جو میراث پائی ۔

لیڈروں کے خوابوں والی وہ سحر اس لیے بھی نہیں آئی کہ اب علم اور اسکی کی اہمیت اٹھ رہی ہے۔ اگرچہ کورسس کی بہتات ہے، آن لائن سہولیات دستیاب ہیں مگر وہ ماحول جو ماضی کی تابناکی کی گواہی دیتاتھا اب شاذونادر ہے۔ جب اسکولوں کی عمارتیں نا تھیں، بڑے بڑے کیمپس نہ تھے، کمپیوٹر انٹرنیٹ نہیں تھا، مگر علم کی خوشبو سے فضا مہکتی تھی۔ والدین کے اندر جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ ان کے بچے حق کی روشنی پائے۔

پہلے علم حاصل کرنے کے لئے دور دراز بھیجنا پڑتا تھا، اب تو آن لائن آپ کے جادوئی باکس موبائل میں سب کچھ موجود ہے۔ لیکن وہ بھی کیا دور تھاکہ جب ماں کہتی بچے سے کہ “ہمیشہ سچ بولنا” بچہ ڈاکوؤں کے سردار کے سامنے کھڑا ہے اور کہتا ہے کہ ” میرے پاس۴۰ اشرفیاں موجود ہے” اور آج بھی کیا دور ہے کہ جب بچہ اپنی ماں کو یقین دلاتا ہے کہ “ہاں میں پڑھائی کر رہا ہوں” مگر وہ چھپ کر گیم کھیلتا ہے۔

آج کی نازنین مائیں لندن سے لوٹے ہوۓ بیٹے سے اچھا ہینڈ سیٹ مانگتی ہے اور سلام ہو امام شافعی کی والدہ ماجدہ پر کی بیٹا ۸ سال بعد گھر لوٹا ہے، ماں کے چہرے پہ اداسی ہے کہ وہ بہت سے مال سے لدے خراسانی گھوڑوں،مصر خچرون کے ساتھ آیا ہے۔ امام غزالی (رح) کے والد کی دلی تمنا تھی کہ انکے دونوں بیٹے علم کے زیور سے آراستہ ہو اور انکی سچی تڑپ کا نتیجہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ امام ابن تیمیہ (رح) کو انکے دادا اور ابا حضور سے وراثتاً بہت سی صلاحیتیں ،علم کا ذوق ، جذبۂ حق، نیک صحبتیں ، علم و ادب کی محفیلیں اور دعائیں ملی تھیں۔

قارین علم سیکھنے اور سکھانے کے عمل میں سے آہستہ آہستہ روح نکل رہی ہے ۔ اس عمل کے سدھار میں ہی انسانیت کی بقا ہے۔ آج انسانیت چیخ رہی ہے، حیوانیت جگہ جگہ رقص کر رہی ہے اسکی وجہ یہی ہے کہ آدمی آدمیت کے دائرے سے نکل رہا ہے۔ اللہ نے آدم علیہ السلام کو چیزوں کے نام سکھاۓ اور اسی لیے فرشتے سجدہ ریز ہوۓ۔ انسان آج اپنے والد اول کو کیے گیا سجدہ اور اسکی عظمت بھول گیا ہے۔ نتیجہ ہم سبھی کسی نا کسی سطح پہ بھگت رہے ہیں۔ چلیں کو وڈ گھر قید کے دور میں اس تبدیلی کا بھی عہد کریں۔ امسال یوم اساتذہ پر اگر مبارکباد دینا لینا ہو گئی ہو تو آۓ انقلاب کی تیاری کریں۔


 نوٹ: اس مضمون کو ام مسفرہ مبشرہ کھوت نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔

Tags:

You Might also Like

1 Comment

  1. ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ تحریر کشی کی ہے آپ نے
    اللہ مزید ترقیوں سے نوازے