Type to search

تلنگانہ

سال نو ۔ شروعات ہی جب ایسی‌ ہے تو پورا سال کیسا ہوگا؟

سال نو

ازقلم: امام علی مقصود شیخ فلاحی۔

متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔


زمانہ جس برق رفتاری سے نبوت سے دور ہوتا جارہا ہے اتنی ہی تیزی سے اسلامی ماحول و ملی شناخت بھی لوگوں سے رخصت ہوتا جارہا ہے، نوجوان نسل اور بالخصوص عصری علوم و فنون کے دلدادہ مذہبی طور طریق اور اسلامی تعلیمات سے بیزار ہوتے جارہے ہیں، اور مغربی تہذیب و ثقافت کو اختیار کرنے پر فخر محسوس کیا جارہا ہے۔
ہر شخص اور ہر ادارہ اس کوشش میں ہے کہ وہ خود کو مغربیت کے طور و طریق میں ڈھال کر معروف و مشہور ہوجاے۔
قارئین! آج مسلمانوں کے افکار و خیالات، اعمال و کردار، بلکہ ہر چیز میں مغربیت اس حد تک مقبول ہوچکی ہے کہ آج مسلمانوں کے لباس مغربی، رہن سہن مغربی، تراش خراش مغربی، کردار مغربی ، انداز مغربی، تہذیب و تمدن مغربی، سماج و معاشرہ مغربی، الغرض ہر چیز مغربی رنگ میں رنگین ہو چکی ہے، اور مغربی تکلفات کے بوجھ تلے دب چکی ہے، کوئی اس بوجھ کو اتارنے کے لئے تیار نہیں، بلکہ اس بوجھ کو نام نہاد جدت پسندی ترقی یافتہ طبقا “ارتقاء” کا نام دیتا ہے۔

اور جو اسکے خلاف کرے اسے یا مغربی مرعوبیت کو قبول نہ کرے، اسے قدامت پسند اور دقیانوس جیسے الفاظ سے پکارا جاتا ہے۔

گزشتہ چند سالوں سے ایک خطرناک رجحان یہ چل پڑا ہے کہ مغرب سے برآمدہ مختلف قسم کے فضول اور نامعقول تہوار و رسومات منایا جانے لگا ہے۔ جس میں سے ایک رسم نیویر کا ہے ، نیویر کا فتنہ مسلم معاشرے کو جنگل کی آگ کی طرح اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔

قارئین! آج نیویر نائٹ کے نام پر بد تمیزی و بے حیائ، فحاشی و عریانیت کا ننگا ناچ اور ہزارہا قسم کی برائیاں فروغ پارہی ہیں، نہ جانے اس رات میں کتنی جانیں ہلاکت و بربادی کے دروازے کو دستک دیتی ہیں، نہ جانیں کتنی عصمتیں پامال کی جاتی ہیں، نہ جانے کتنی معصوموں کی عزتوں کو تار تار کیا جاتا ہے، ہزاروں بلکہ لاکھوں کروڑوں روپے جو حلال طریقے سے کمائے گئے تھے، اس رات میں شراب نوشی، عیش کوشی، ناچ گانوں پر لٹائے جاتے ہیں۔

جب بھی نیا سال شروع ہوتا ہے تو ایک لمحے کی تبدیلی جو خالص گیارہ سے بارہ کے درمیان چند منٹ کا فاصلہ ہوتا ہے ، اور وہ فاصلہ اتنا خطرنا ہوتا ہے کہ اسی چند منٹ میں حیوان ناطق اپنی حیوانیت کی حدیں پار کرکے انسانیت کی بندیں توڑ جاتا ہے۔

یہ ایک ایسا لمحہ ہوتا ہے جسکی تیاری میں کئی دنوں کو برباد کر کے ہوٹلوں، گلیوں، بازاروں اور تفریح گاہوں، کو سجایا جاتا ہے، اور اس لمحے کے آتے ہی شور شرابا، آتش زنی اور پٹاخے پھوڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔
پھر کیا ہوتا ہے پورا معاشرہ بلاتفریق مذہب و ملت رقص و سرور، عیش و نشاط، شراب و کباب کی ہنگامی دنیا میں نسوانی حسن کا مذاق، حقیقی زندگی کے کرب و الم پر مصنوعی خوشیوں و محبتوں کی اداکاری کی چادر تان کر اخلاقی باختگی کو ہوا دیتا ہے۔

پھر رومانس بھری اداؤں سے رضاکارانہ بدکاری اور بڑی بے باکی سے اپنے جنسی احساسات و جنسی تجربات کا اظہار کیا جاتا ہے۔

ارے ذرا غور کرو کہ جب سال نو کا آغاز ہی بے حیائ اور بے حمیتی سے کیا جائے گا، فحاشی و عریانیت کو عام کیا جائے گا، بوئے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا ماحول گرم‌ کیا جائے گا، آتش زنی و بن پٹاخے کو رواج دیا جائے گا، معصوموں کی عزتوں کو تار تار کیا جائے گا۔

تو آپ ہی فیصلہ کریں کہ سال نو ہمارے ساتھ کیا رویہ اختیار کرے گا؟ کیا سال نو میں بے حیائ نہیں ہوگی؟ کیا سال‌نو میں زنا کاری نہیں ہوگی؟ کیا سال نو میں معاشی تنگی نہیں ہو گی۔

ضرور ہوگی ! جب ہم نے اسکے آتے ہی سارا کچھ کر دکھایا، اور اسکا استقبال ہی فضول خرچی اور بے حیائ سے کیا ہے ، جب ہم نے بیج ہی خاردار بوئی ہے؟ تو کیا وہ ہمیں سیب اور انار اگا کر دے گا؟ ہر گز نہیں جب ہم‌ نے اسکی ابتدا ہی آتش زنی سے کی ہے، تو وہ پورا سال ہمیں جلاتی رہے گی، جب ہم نے اسکی ابتدا ہی فضول خرچی سے کی ہے تو وہ پورا سال ہمیں معاشی تنگ دستی میں رکھے گی۔

ارے کبھی تم نے غور کیا کہ سال نو کا آغاز جنوری ہی سے کیوں ہوتا ہے؟
دنیا بھر میں سال نو کی تقریبات کا اہتمام بہت دھوم دھام سے منایا جاتا ہے، اور لوگ نئے‌ سال کا پہلا دن شور شرابے اور بدکاریوں کے ساتھ گزارتے ہیں، لیکن دنیا میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ نئے سال کا آغاز جنوری ہی میں کیوں منایا جاتا ہے، جنوری کے مہینے کو ہی سال نو کے لئے کیوں چنا گیا؟

تو آئیے اسے بھی مترشح کرتا چلوں!
مؤرخین کا کہنا ہے کہ لفظ جنوری رومن لفظ “جینس” سے ماخوذ ہے، اور جینس اس دیوتے کا نام‌ ہے جو رومیوں کے یہاں تبدیلی اور آغاز کا دیوتا کہلاتا تھا، اسی وجہ سے جنوری کے مہینے کے پہلے دن کو سال کے آغاز کے پہلے دن کے لئے منتخب کیا گیا۔

اگرچہ اسکے بعد بھی کلینڈر میں تبدیلیاں آئیں ، لیکن پھر بھی آج تک نئے سال کا آغاز یکم جنوری سے منایا جاتا رہا۔
تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ 5 ہزار سال پہلے “میسو پوٹامیہ” میں سال نو کی آمد پر جشن منانے کی روایت شروع ہوئی، اور یہ جشن کسانوں کے لئے کافی مفید تھی ، کیونکہ اس وقت لوگوں کا انحصار زیادہ تر کھیتی باڑی پر ہی تھا، پھر جب اس جشن کو منایا جاتا تھا تو بہت زیادہ کھانا بنایا جاتا تھا جس سے کسانوں کا بہت فائدہ ہوتا تھا۔

بہر حال جب نئے سال کے پہلے ہی مہینے سے شرک کی بو آتی ہے جو کہ سب سے بڑا گناہ ہے ، اور مزید اس پر جب شراب جوا ، ناچ گانا، فحاشی و بے حیائ، اور معصوم لڑکیوں کی عزت سے کھیلا جائے تو کیا اللہ کو اس پر غصہ نہیں آئے گا؟ کیا وہ پھر تمہیں یونہی چھوڑ دے گا؟ کیا وہ تم پر آلام و مصائب کے پہاڑ نہیں توڑے گا؟ کیا وہ تم کو پورے سال خوش حال رکھے گا؟
فیصلہ آپ ہی کے سر۔

آج مسلمان جو نئے سال کی آمد پر جشن مناتے ہیں، کیا ان کو یہ معلوم نہیں کہ اس نئے سال کی آمد پر ان کی زندگی کا ایک برس کم ہوگیا ہے۔

قارئین! زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یاکم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا؛ بل کہ افسوس کیا جاتاہے۔

یہی وجہ تھی کہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود فرماتے تھے کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہوگیا جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا۔(قیمة الزمن عند العلماء، ص: ۲۷)

اسی طرح حسن بصری فرماتے تھے کہ: اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گزرگیا تو یوں سمجھ تیرا ایک حصہ بھی گزرگیا۔(حوالہ بالا)

یہ عمر اور زندگی جو ہم کو عطا ہوئی ہے وہ صرف آخرت کی ابدی زندگی کی تیاری کی خاطر عطا ہوئی ہے کہ ہم اس کے ذریعے آنے والی زندگی کو بہتر بناسکیں اور اپنے اعمال کو اچھا بناسکیں۔

حضرت علی فرماتے تھے کہ یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں، اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔

اسکے علاوہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ارشاد ہے :”مِنْ حُسْنِ إسْلاِمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَیَعْنِیْہِ“۔ (ترمذی ۲/۵۸ قدیمی) ترجمہ: آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول چیزوں سے بچے۔

اس لئے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ فحاشی و عریانیت کو چھوڑ کر ، نئے سال کا‌جشن نہ منا کر، اپنے وقت کو ضیاع سے بچا کر، اس سے کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرے، اور اگر وہ وقت اس سے یونہی گذر جاے تو اس پر افسوس و ندامت کرے اور اللہ سے دعا کرے کہ وہ انشاءاللہ آئندہ وقت کو اچھے عمل‌ میں استعمال کرے گا۔

پھر نئے سال کی سرحد پہ کھڑے ہیں ہم لوگ،
راکھ ہو جائے گا یہ سال بھی حیرت کیسی۔


 نوٹ: اس مضمون کو امام علی بن مقصود شیخ فلاحی نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ اس سے اردو پوسٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔

Tags:

You Might also Like