Type to search

تلنگانہ

ناتھورام گوڈسے کا پروجیکٹ آج بھی جاری ہے

ناتھورام گوڈسے

امام علی مقصود فلاحی۔

متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔


ملک میں اس وقت جو بد امنی کی گہما گہمی اور لوگوں کی بدحالی و پریشانی ہے اسے بابائے قوم مہاتما گاندھی کا نظریہ ہی سدھار سکتا ہے کیونکہ اس بات سے ہر شخص بخوبی واقف ہے کہ گاندھی جی نے اپنی زندگی میں صرف اور صرف امن و سلامتی کا ہی پیغام نہیں دیا تھا بلکہ ہر ہندوستانی شہری کے دل میں بلا تفریق مذہب و ملت محبت کا چراغ بھی جلایا تھا، کمزوروں اور غریبوں کا ساتھ بھی دیا تھا، انہوں نے اپنے فعل و عمل اور اپنے اصول و ضوابط کی پابندی کا مظاہرہ کرکے ہندوستان کی تقدیر بدلنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے کئی دوسرے ملکوں کو بھی غیروں کی غلامی سے آزاد ہونے کا راستہ بتلایا تھا، گاندھی جی کے اہم کارناموں میں قومی اتحاد، فرقہ وارانہ خیر سگالی، عدم تشدد اور اہنسا کا فلسفہ اس قابل تھا کہ ان پر پوری دیانت داری کے ساتھ اگر آج بھی عمل کیا جائے تو ملک کے اندر اور باہر پنپنے والے تشدد کو بآسانی دور کیا جا سکتا ہے۔

ملک میں صدیوں سے چلی آرہی چھوا چھوت کی لعنت کے خلاف اُنہوں نے تحریک چلائی اور لسانی تفریق کو دور کرنے کے لئے ہندی یا اُردو کے بجائے ’’ہندوستانی زبان‘‘ کا تصور پیش کیا، انہوں نے تمام طبقات کو متحد کرنے کے لئے گاؤں اور شہر کو قریب لانے کی کوشش کی،اُنہوں نے دیہی زندگی کی اصلاح اور ترقی پر خاص طور سے زور دیا،صنعتی ترقی سے شہروں کی خوشحالی کو دیکھ کر وہ دیہاتوں کے پچھڑے پن کو دور کرنے میں مصروف ہوگئے،اُنہوں نے افریقہ میں قیام کے دوران کالے اور گوروں کے درمیان تفریق کو مٹانے میں سرگرم کوشش کی اور وہاں کے سیاہ فام باشندوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اُٹھائی، غرض یہ کہ گاندھی جی کے تمام اصول و ضوابط خواہ وہ اہنسا ہو،ستیہ گرہ ہو یا بھائی چارہ ہو وہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہوئے اور عالمی پیمانے پر مفکروں،قلم کاروں اور فنکاروں نے اُنہیں سراہا ہے۔

لیکن آج بڑے افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑتا ہے کہ آج ہی کا وہ دن ہے جس دن بابائے قوم مہاتما گاندھی کا قتل کرکے انکے اصول و ضوابط اور انکے افکار و نظریات کو بھی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔

اب سوال یہ ہے کون تھا وہ جس نے گاندھی کا قتل کرکے ملک کی سالمیت کا جنازہ نکالا؟

تو اسکا سادہ سا جواب یہ ہے کہ گاندھی کا قاتل آج کے ہندوؤں کا ہیرو ناتھورام گوڈسے تھا، جس نے بے رحمی سے برلا ہاؤس کے میدان میں تیس جنوری 1948 کو بے جھجھک بابائے قوم پر گولی چلاکر انکا خاتمہ کر دیا تھا۔

اب سوال یہ ہے کہ آخر ایسے بھلے اور رہبر انسان کو گوڈسے نے کیوں مار ڈالا؟ اسکے پیچھے کیا وجہ تھی؟

تو اسکا جواب یہ ہے کہ اس ملک میں اس وقت دو طرح کے لوگ موجود تھے، ایک کا خیال یہ تھا کہ اس ملک میں صرف ہندو رہیں گے اور ایک کا خیال یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے الگ سے کوئی جگہ دی جائے، ناتھو رام گوڈسے کا خیال یہ تھا کہ ہندو مسلم بھائی چارے کو ختم کرکے اس ملک کو ہندو راشٹر بنایا جائے اور جو مسلمان یہاں ہیں انہیں دوسرے نمبر کا شہری قرار دیا جائے، اور وہاں جناح کا خیال یہ تھا کہ پاکستان میں مسلمانوں کو پہلے نمبر کا شہری قرار دیکر ہندوؤں کو دوسرے نمبر کی شہریت دی جائے، رہی بات بابائے قوم مہاتما گاندھی کی تو انکا خیال یہ تھا کہ سب مل جل کر رہیں، ذات پات کا معاملہ ہی ختم کردیا جائے، ہر شخص کو برابری کا حق دیا جائے، ہندو ہو یا مسلم، سکھ ہو یا عیسائی ہر شخص کو انکا پورا حق دے کر انہیں ملک کی شہریت دی جائے۔

در اصل جو لڑائی تھی وہ نظریات کی لڑائی تھی ناتھو رام گوڈسے اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی کوشش میں تھا اور بابائے قوم اسکے لئے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے تھ، وہ تو سب کو ساتھ میں لیکر چلنا چاہتے تھے، ہندو مسلم بھائی چارے کی بات کرتے تھے، جسکی بنا پر ہندو مہا سبھا کے لوگ سر فہرست گوڈسے کو یہ خیال آیا کہ شاید بابائے قوم مہاتما گاندھی کو پاکستان سے پیار ہے، جناح سے محبت ہے اور اسکا احساس اسکو اس وقت ہوا جب پاکستان کا قیام ہوا،تو قیام پاکستان کے بعد گاندھی نے ہندو رہنماؤں سے درخواست کی تھی کہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اثاثوں کی تقسیم کے سمجھوتے کے تحت پاکستان کو واجب الادا 55 کروڑ روپے کی رقم پاکستان کو فوراً ادا کر دی جائے۔

اسی غلط فہمی میں وہ مبتلا رہا اور یہ وہ سوچتا رہا کہ اگر چند دن گاندھی جی اور رہ گئے تو ہمارا پلان یعنی اس ملک کو ہندو راشٹر میں بدلنے کی سازش ختم ہو جائے گا، اسی لئے وہ گاندھی کی قتل کی سازش میں لگ گیا اور جس دن مہاتما گاندھی پاکستان کا دورہ کرنے والے تھے اسی دن برلا ہاؤس کے میدان میں گوڈسے نے گاندھی کو گولی مار دیا۔

قارئین ! آج کئی سال بیت گئے لیکن گوڈسے کا جو پروجیکٹ تھا، اسکا جو خیال تھا اور اسکی جو فکر تھی آج بھی اسکی وہ فکر جاری ہے، آج بھی لوگ اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور بیچ میں آنے والی رکاوٹوں کو گالیوں، دھمکیوں، ماب لنچنگ اور سلاخوں کے پیچھے ڈال کر انہیں روک رہے ہیں۔

اس لئے آج اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم سیاسی مقاصد کے لئے اپنے نظریات کو پوری قوم پر تھوپنے کی بجائے ملک کے جمہوری اصولوں کی پاسداری کا عہد کریں اور حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ بلا تفریق مذہب ہر طبقے کو یکساں حقوق فراہم کرنے کی جانب پیش رفت ہو کیونکہ یہی گاندھی جی کا پیغام اور ہندوستان کے تئیں ان کا سپنا تھا جس کے لئے انہوں نے انگریزوں کے خلاف خود کو ہمیشہ کھڑا رکھا ورنہ اگر اس حساس معاملے میں ہم غفلت کے شکار رہے تو آزاد ہندوستان میں بھی غلامی ہمارے گلے کا پھندا بن جائے گی۔


 نوٹ: اس مضمون کو امام علی بن مقصود شیخ فلاحی نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔

Tags:

You Might also Like