Type to search

بزنس

کسان آندولن کی آڑ میں پنجاب میں انڈسٹریز نشانے پر: ماہرین

نئی دلی۔26 دسمبر(پریس نوٹ) مرکزی سرکار کے تین زرعی قوانین کی آڑ میں پنجاب میں صنعتوں کو نشانہ بنانے کو لیکر ماہرین نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہاہے کہ اس کے پردیش کی صنعتی سرگرمیوں پر دور رس منفی اثرات ہوسکتے ہیں۔

کسان آندولن کو لیکر پنجاب میں موبائل ٹاوروں کی بجلی جبراً کاٹنے اور ٹیلی مواصلاتی کمپنی کے ملازموں سے ہاتھا پائی کی رپورٹوں کے بعد مکھیہ منتری کیپٹن امریندر سنگھ نے کسانوں سے ایسا نہیں کرنے کی اپیل کی ہے۔ وہیں ماہرین بھی مان رہے ہیں کہ ایسی حرکتوں سے آندولن بھی بھٹک ہی رہا ہے۔

اس طرح کی سرگرمیاں پردیش کی صنعتی سرگرمیوں پر الٹا اثرڈال سکتی ہیں۔ مکھیہ منتری امریندر سنگھ نے کہا کہ اس سے لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے اور کسانوں کو قانون اپنے ہاتھوں میں نہیں لینا چاہئے۔ حالانکہ انہوں نے کسانوں کے آندولن کی حماحت بھی کر ڈالی ۔ ماہرین کی رائے ہے کہ مکھیہ منتری توڑ پھوڑ کرنے والوں سے سختی سے نپٹنے کی ضرورت ہے نہیں تو قانونی نظم و نسق پر انگلی اٹھانا لازمی ہے اور اگر یہ سوال گہرا یا ہے تو پھر صنعتی سرگرمیاں متاثر ہوسکتی ہیں۔ جس کی مثال پہلے بھی کئی پردیشوں میں سامنے آچکے ہیں۔

ٹاور اینڈ انفراسٹرکچر پرووائیڈر ایسوسی ایشن ( ٹی اے آئی پی اے) نے سرکار سے اپیل کی تھی کہ پردیش سرکار انہیں مبینہ کسانوں کی غنڈہ گردی سے بچائیں۔ اس کے بعد ہی سرکار کی طرف سے یہ اپیل کی گئی ہے۔ کسان آندولن کی آڑ میں منسہ، برنالہ، فیروز پور اور موگا سمیت پنجاب کے مختلف حصوں میں گذشتہ کچھ دنوں سے ایک خاص ٹیلی مواصلات آپریٹر کے موبائل ٹاوروں کو کی جارہی بجلی سپلائی کو کاٹ رہے ہیں۔ کسان آندولن پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ پہلے ریلیں روکی گئی جس سے بجلی گھروں تک کوئلہ نہیں پہنچ سکا ہے اور پردیش میں بجلی کا بحران پیدا ہوگیا ہے۔ گیہوں کی سنچائی کی وقت ہے اور ملک کے سب سے زیادہ گیہوں پیدا کرنے والے پردیش میں بجلی کا سنکٹ کا اثر ربیع کی اس اہم فصل کیلئے گھاٹے کا سودہ بھی ہوسکتا ہے۔ سرکار کو اس معاملے میں فوراً ایسما لگا کر کارروائی کرنی چاہئے۔

کورونا کے عالمی بحران میں ٹیلی مواصلات کا شعبہ روزی روٹی کا سب سے بڑا ذریعہ بنا تھا اور پنجاب میں اب مواصلاتی خدمات کو تہس نہس کیا جارہا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پردیش کے مفاد میں سرکار کو ایسی سرگرمیوں کو فوراً روکنا ہوگا اور ضرورت پڑنے پر ضروری اشیاء قانون کے تحت کارروائی کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے۔ پردیش سرکار ضروری خدمات کو چالو رکھنے میں نا اہل ثابت ہوئی ہے۔ ٹیلی مواصلات خدمات کے بارے میں ہائی کورٹ بھی صاف کرچکا ہے کہ یہ ضروری خدمات کا حصہ ہے، پھر بھی موبائل ٹاورں کو نقصان پہنچانے کے واقعات پنجاب میں جاری ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاسی نفعے نقصان سے عطر سرکاری جائیداد کو نقصان سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ موبائل ٹاوروں کی بجلی سپلائی کاٹنا صوبے کی لائف لائن کو روکنے جیسا ہے۔ بچے آن لائن کلاسز سے محروم ہیں، کووڈ میں لوگ گھر سے کام کررہے تھے یعنی ورک فروم ہوم کررہے تھے۔ انہیں بھی خطرے میں دھکیل دیا گیاہے۔ آن لائن بزنس سے جڑے نوجوانوں کے دھندے مندے ہوگئے ہیں۔

کیپٹن امریندر سنگھ نے 31 جولائی کو ’’ پنجاب کووڈ۔ 19 رسپانس رپورٹ‘ میں کہا ہے کہ منڈیوں کے باہر بھی کسان کو اپنی پیداوار بیچنے کا اختیار ملنا چاہئے۔ پنجاب کے چیف سکریٹری نے اسی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ستمبر میں کہا تھا کہ اسے لاگو کیا جائے گا ۔ اپنے رخ سے پلٹتے ہوئے کانگریس آج کسانوں کی حمایت کررہی ہے۔ جولائی میں رپورٹ آنے کے بعد ستمبر میں سدھار لاگو کرنے کا دم بھرنے والی کانگریس نے اکتوبر آتے آتے اپنا رخ پوری طرح بدل لیا ہے۔

پردھان منتری نریندر مودی نے بھی شکر وار کو کسانوں کے کھاتے میں سمّان ندھی یوجنا ٹرانسفر کرنے کے موقع پر کسی بھی پارٹی کا نام لئے حملہ کیا تھا اور چنوتی دی تھی کہ سرکار ٹھوس دلائل کی بنیاد کے ساتھ تینوں قوانین پر کھلے من سے بات چیت کیلئے تیار ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کمیونسٹ ہانن مولّا کسان آندولن کا خاص چہرا بنے ہوئے ہیں۔ اعداد و شمار گواہ ہیں کہ کیرل اور مغربی بنگال جیسے اپنے گڑھ میں لیفٹسٹ نہ تو کسانوں کا بھلا کر پائے اور نہ ہی صنعت و تجارت کا۔

شری مودی نے بھی اپنی تقریر میں کیرل میں اے پی ایم سی نہیں ہونے کا ذکر کیا ہے۔ کسانوں کے مطالبات میں اے پی ایم سی کو برقرار رکھنا بڑی مانگ ہے۔ کیرل میں صنعت و تجارت نہیں کے برابر ہیں، پردیش کی معیشت پوری طرح خلیج کے ممالک پر منحصر ہے۔ پردھان منتری نے کسان آندولن پر طنز کستے ہوئے کہا کہ’’ کیرل میں تو منڈی بندوبست ہے ہی نہیں اور وہ پنجاب میں منڈی بندوبست کے حق میں کھڑے ہیں۔‘

مغربی بنگال میں کبھی ملوں کی چمنیاں سونا اگلتی تھی ۔ ٹاٹا کی نینو کار کے پروجیکٹ کو نہیں لگنے دینے کے بعد وہاں کی بدحالی کسی سے چھپی نہیں ہے۔ کولکاتہ ملک کا پہلا مہانگر تھا ۔ آج حالات الٹے ہیں، مغربی بنگال کو بھارتی صنعتوں کا قبرستان مانا جانے لگا ہے۔ 1977 میں وام مورچہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی ملوں میں مار پیٹ، قتل اور آگزنی کے واقعات بڑھنے لگیں۔ سرکاری حمایت سے ہڑتال نے حالات کو اور بگاڑ دیا لہذا صنعتوں نے بنگال سے باہر نکلنے کا فیصلہ کر لیا۔ اکیسویں صدی کی شروعات میں نینو کار کا پلانٹ لگانے کی ایک کوشش ٹاٹا نے بھی کی، لیکن اسے بھی سنگور میں منہ کی کھانی پڑی، نقصان برداشت کیا، بدسلوکی کا سامنا کیا اور آخرکار پروجیکٹ بند کرناپڑا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب کی سمجھدار قوم یہ اچھے سے سمجھ رہی ہے کہ کسان آندولن پوری طرح کسانوں کا نہیں رہ گیاہے۔ کسی وقت آتنک واد سے ملک میں سب سے زیادہ متاثر پردیش میں کسانوں کے مدعوں کی بات کرتے کرتے ’’ پنجاب بنے گا خالصتان‘ جیسے نعرے سنائی دینا باعث فکر ہے۔

سٹارٹ اپ اور انڈسٹری پر 300 سے زیادہ سٹارٹ اپس پر تحقیق کرچکے ڈاکٹر پروین کمار تواری نے پنجاب کی صورتحال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا صنعت و تجارت کو لیکر مبینہ کسانوں اور پردیش سرکار کا جو رویہ ہے اس پر جلدی روک نہیں لگائی گئی تو پنجاب انڈسٹریز کا قبرستان ضرور بن سکتاہے۔ انہوں نے کہا اب بھی وقت ہے چھوٹے موٹے سیاسی فائدے کو چھوڑ کر مکھیہ منتری اور پردیش کی اپوزیشن پارٹیوں کو مل کر پنجاب کے مستقبل کو ٹھوس شکل دینے کے قدم اٹھانے ہونگے۔انڈسٹریز اور زراعت کی ایک ساتھ ترقی ہی مستقبل کی راہ ہے۔