Type to search

تعلیم اور ملازمت

عظیم ہستی نرالا بچپن

عظیم ہستی نرالا بچپن

ایم۔ ریحانہ پروین ناہید ؔ


دور ِحاضرمیں ہم مغربی تہذیب کی طرف مائل ہوئے ہیں اور ہم سب اپنی زندگی میں اس قدر مصروف و مشغول ہیں کہ ٓانے والی نسلو ں کو وقت ہی نہیں دے پا رہے ہیں جبکہ وہی نسل مستقبل کے شہری کہلا ئیں گے۔ آج کے ماحول میں ہم ذرا غور سے دیکھیں تو یہ پتہ لگے گا کہ ہمارے بچوں کا بچپن صرف اور صرف اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ میں گزر رہا ہے۔ایک وہ زمانہ تھا جب بچے بھاگ دوڑ کرتے اور ہمہ قسم کے کھیل کھیلتے تھے۔

مگر آج ہم خود ہی اپنے بچوں کو معزور بنا کر رکھ دیئے ہیں۔وجہ اسمارٹ فون! بچے نہ تو باہر جا کر کھیلنے کے شوقین ہیں نہ ہی انکو اس قسم کے کھیلو ں سے دلچسپی رہی ہے۔ اسی بچپن کو یادکرتے ہوئے ایک عظیم ہستی کا بچپن جن کے چند واقعات ایسے ہیں جن سے بچوں کی معلوما ت میں اضافہ ہو نا ضروری ہے تا کہ ہمارے بچوں میں بھی اس عظیم ہستی جیسا شعور و بیداری پیدا ہو۔

تو آیئے!ٓ  آج اس انوکھی ہستی سے متعلق چند معلومات حا صل کرتے ہیں کیونکہ ٓآج ہماری نسل کے بچوں کو انکے بارے میں بتا نا بے حدضروری ہے۔

یہ کوئی معمولی بچہ نہیں تھا کیونکہ اس کے بچپن کا یہ کھیل جوانی کی حقیقت میں تبدیل ہو چکا تھا۔جب لوگ اسے ایک بہت بڑا مقرر تسلیم کرنے لگے اور اس کے استقبال کے لیے ہزاروں کی تعداد میں اسٹیشن پر جمع ہو نے لگے۔دراصل وہ اپنے بچپن کا کھیل کھیلتے کھیلتے بہت بڑا عا لم بن گیا تھا۔یہ بچہ کوئی اورنہیں بلکہ ہندوستان کی جنگ آزادی کا سالارتھاجو مسلمانوں کا امام کہلایا اور ہندوستانی قوم کے رہنماکی حیثیت سے مولا نا ابوالکلام ٓآزاد کے نام سے مشہور ہوا۔

مو لانا ابولکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔ ابوالکلام نے مکہّ کے مقدس ‘تا ریخی اور پاکیزہ شہرمیں ۱۱نومبر ۱۸۸۸ کو اپنے وقت کے نامور اور ممتاز فا ضل مولا نا خیرالدین کے یہاں آنکھ کھولی۔ مولا نا آزاد کو انکے والد ” فیروز بخت “ ٗءٗ کے نام سے پکار تے تھے۔آزاد کے نانا مدینہ کے معتبر عالم تھے۔ مولا ناآزاد کی پرورش ایسے خاندان میں ہوئی جو مذہبی مزاج رکھتا تھا۔

مولانا آزاد کا بچپن واقعی میں بہت دلچسپ رہا۔ مولانا آزاد خود لکھتے ہیں؛
” سات آٹھ سال کی عمر کا ایک بچہ عجیب انداز کے کھیل کھیلا کرتا تھا کبھی وہ گھر کے صندوقوں کو ایک قطار میں رکھ کر کہتا کہ یہ ریل گاڑی ہے پھر وہ اپنے والد کی پگڑی سر پر باند ھ کر بیٹھ جا تا اور اپنی بہنوں کو ہدایت دیتا ہے کہ وہ چلاّ چلاّ کر کہیں ”ہٹو ‘ ہٹو “

راستہ دو‘دلی کے مولا نا آرہے ہیں۔ان کی بہنیں کہتی کہ وہاں تو کوئی آدمی نہیں وہ کس کو دھکا دیں اور کس سے راستہ دینے کے لیے کہیں۔

اس پر بچہ کہتا کہ ”یہ تو کھیل ہے تم سمجھو کہ بہت سے لوگ مجھ کو اسٹیشن پر لینے آئے ہیں۔ “پھر وہ صندوقوں پر سے نیچے اترتا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھا کر چلنے لگتا جیسے کہ بڑی عمر کے لوگ چلتے ہیں کبھی وہ گھر میں کسی اونچی چیزپر کھڑا ہو جا تا اور اپنی بہنوں کو آس پاس کھڑا کر کے کہتا کہ وہ تا لیاں بجائیں اور یہ سمجھیں کہ ہزاروں لوگ اس کی تقریر سن کر تا لیاں بجا رہے ہیں۔اس پر بہنیں کہتیں کہ سوائے انہیں دو چار کے وہا ں اور کوئی موجود نظرنہیں آتا اس لیے وہ کیسے سمجھ لیں کہ وہاں ہزاروں لوگ کھڑے ہیں۔اس پر بچہ کہتا کہ ”یہ کھیل ہے اور کھیل میں ایسا ہی ہو تا ہے۔“

(آزادکی کہانی آزاد کی زبانی ‘ڈاکٹرظفراحمد نظامی ‘ص۔۹)

یہ وہی بچہ ہے تھاجو ہمارے آزاد ملک کے پہلے وزیر تعلیم کی حیثیت سے مقرر ہوا۔ مولانا آزاد کو بچپن سے ہی تقریر کرنے کا بے حد شوق تھا۔وہ گھنٹوں تقریر کیا کرتے تھے۔
مولانا آزاد کے بچپن کے اوراق کو ہم پلٹ کر دیکھیں تو ہمیں اس عظیم ہستی کے ایسے بہت سے کارنا مے ملیں گے جو ایک معمولی بچہ نہیں کر سکتا۔ مولا نا آزاد ایک غیر معمولی ذہین رکھتے تھے۔
آزاد ایک اور جگہ فرما تے ہیں
”مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب حرم شریف میں بسمِ اللہ کی تقریب کرائی گئی۔اس وقت میری عمر‘پانچ برس کی تھی‘عصر کا وقت تھا اور مرحوم شیخ عبداللہ مردادسے والد مرحوم نے یہ رسم ادا کروائی تھی۔انھوں نے مجھ سے تین مرتبہ ”یا فتّاح ُ“ ! کہلوایا اور ”رَبِّ یسَرِّولا تعسَِّر“ کہلوایا اور اس کے بعد الَف سے شین تک کے حروف شناخت کروائے۔“
آزاد کا حافظہ بہت تیز تھا۔اللہ تعالیٰ نے انہیں غیر معمولی ذہن سے نوازاتھا۔جس کے چلتے انہیں ابتداء سے لے کر آخر تک کبھی بھی انہوں نے سبق کو رٹنے کی مشقت نہیں کی۔ آزاد زیادہ تر اپنی خالہ سے پڑھتے تھے جو بڑی خوش آواز سے تلا وتِ قرآن کرتی تھیں۔آزاد کی تربیت میں مو لانا خیرالدین شخصیت کا وہ بنیادی ستون ہیں۔

مولا نا آزاد کی تربیت میں ان کی والدہ کا بڑارول رہا۔وہ عرب کی رہنے والی تھیں مگر انھوں نے تھوڑی بہت اردو سیکھ لی تھی۔والد کا موں میں مصروف رہتے تھے تو ان کی نگرانی کی ذ مہ داری والدہ پر ہی ہوتی تھی۔مولانا کے اندر جتنی خوبیاں اور خصوصیات تھیں وہ تقریباََ سبھی ان کی والدہ کی دین تھی۔ مولا نا کو اخلاقی تعلیم‘ بڑوں کا ادب‘ چھوٹوں سے محبت اور دوسروں کی نکتہ چینی کرنے سے باز رکھا۔
آزاد خود لکھتے ہیں
” میرے والدمرحوم نے ایک خوش نویس حافظ مبارک بخاری کو گھرپر ہی رکھ لیا تھا وہ اپنے کپڑوں کی صفائی پر ذرا سا بھی خیال نہیں کرتے تھے۔ایک دن مولانا نے کہہ دیا کہ وہ بڑے گندے آدمی ہیں۔میری والدہ نے نہایت دھمی آوازمیں مجھے تادیب تو نہیں تلقین کی اور کہا‘ میری جان ایسا نہ کہو! ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کی نظر میں تم سے اور ہم سے عزیز ہوں۔“

اس طرح باتوں باتو ں میں ان کی والدہ آزاد کو اخلاقی درس دیتی تھیں۔ انھوں نے مولانا آزاد کو صرف دنیا بلکہ دین کی نعیمتوں سے بھی مالا مال کیا۔

آزاد ایک بہترین مقرر تھے۔انہیں بچپن سے ہی تقریرکرنے کا شوق تھا۔جب بھی کوئی شخص ملتا تو اس کے آگے تقریر شروع کردیتے تھے۔جب کہ اس وقت میں کوئی بھی بچہ کھیل کود کا شوقین ہو تا ہوگا مگر مولا نا کے گھر بچپن کے کھیل کا سامان نہ تھا وہ معمو لی آلات و وسائل نہ تھے جن سے بچے عام طور پر کھیلا کرتے ہیں۔

اس وقت آزاد کی عمر دس‘ گیارہ برس سے زیادہ نہ ہو گی۔ اس عمر میں وہ وعظ کرتے تھے جبکہ وہ وعظ صرف ایک بکواس رہتی تھی۔ پھر بھی آازد پچاس ساٹھ آدمیوں کے مجمعے میں کیا کرتے تھے۔ اس طرح دو دو گھنٹے تقریر کرتے جس میں وہ بڑی لذت محسوس کرتے تھے۔

کاش ! ہماری قوم کی نئی نسلوں میں ایسی جستجو ہو تی۔ایسا شعور بیدار کرنے کے لیے ایسی عظیم شخصیتو ں سے متعلق معلو مات فراہم کرنا بے حد ضروری ہے۔ موجودہ دور میں جس قدر ہم مصروف رہتے ہیں اس صورت حال میں ہماری نئی نسل ایسی ہستیوں کے متعلق جاننے سے خا سر رہ جاتے ہیں۔آزاد کے جیسا ذوق و شوق پیدا کرنے کے لیے ان کی حالات ِ زندگی کا مطالعہ کرنا اور انکی وتقریر سن نے سے بچوں میں ہمدردی‘ حب وطنی کا جذبہ‘ اخلاقی درس بھی ملتا ہے۔

آزاد کے مطالعے کا شوق اتنا تھا کہ اس کے متعلق سے آزاد ایک اور جگہ لکھتے ہیں
” ایک مرتبہ کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ دس برس کی عمر میں کھیل کود کی جگہ ایک لکھنے پڑھنے والے نوجوان کی سنجیدگی پیدا ہو گئی تھی۔دس برس کی عمر میں مجھے کتابوں کا اتنا شوق ہو گیا کہ ناشتے کے جو پیسے ملتے تھے ان کوجمع کرتا تھااور ان سے کتابیں خرید تا تھا۔اس دوران مجھے اردو کتا بو ں کے مطالعے کا شوق ہوا۔“

” مولا نا اپنے مطالعے کے شوق کوپورا کرنے کے لیے ناشتے کے پیسوں سے ہی بچت نکل سکتی تھی۔چنانچہ میں اپنے بستر کے نیچے کتا بیں رکھتا اور موم بتی جلا کے مطالعہ کرنے لگتا۔ اگردن کو کوئی اور مطالعہ کرتا رہا تو درسی کتابو ں کا شب میں مطالعہ کرتا۔اکثر ایک ایک دو دو بجے تک مشغولیت رہتی اس کی وجہ سے اسی وقت سے میری صحت میں فتور آنے لگا تھا۔یہ ٹھیک دس سے لے کر بارہ برس کی عمر کا واقعہ ہے۔“ (آزاد کی کہانی آزاد کی زبانی‘ ص نمبر۔ 198)

بچوں کی نشونما میں ذہنی قابلیت ‘ سنجیدگی ‘ ایمانداری‘ ہمدردی‘ ان تمام اصناف کا شعور ہونا ضروری ہے۔جب ہمدردی کی بات آ گئی ہے تو ان کی سے زندگی میں ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا ۔

مولانا ابھی سولہ سترہ برس کے ہی تھے۔ ان کے ادبی شوق جو کہ کتابو ں کا مطالعہ تھا تو ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے کتاب پڑھ رہے تھے اس دوران ایک چور گھر میں گھس آیااور اسی کمرے میں پہنچ کر اس نے مولا نا کی میز پر رکھا ہوا سگریٹ کیس اٹھا لیا۔ اسی کمرے میں ایک صندوق رکھا ہوا تھا جس میں چھ تا سات ہزار روپیے رکھے ہوئے تھے۔چور نے اس صندوق کو کھول کر وہ روپیہ بھی نکال لیا مگر مولانا کو ذرا بھی پتہ نہ چلا کہ ان کے کمرے میں سے کو ئی چور صندوق کھول کر روپیے لے گیا۔ دوسری صبح جب معلوم ہوا کہ سگریٹ کیس او رروپیے کوئی لے گیاتوگھرکے سبھی لوگوں سے مولانانے کہا کہ چورکو برا مت کہو۔مولانا کے منھ سے چور کے لئے ہمدردی کے الفاظ یوں ادا ہوئے کہا کہ چور کس مصیبت میں گرفتار ہوگا کہ اسے کیسی سخت ضرورت پڑی ہوگی جس کی وجہ سے اسے چوری کرنی پڑی وہ چور قابل رحم ہے۔

مولاناکے دل میں ہر کسی کے لئے ہمدردی‘ محبت تھی وہی انہوں نے چور کی چوری سے متعلق بھی مثبت اندازاختیار کیا۔

اس واقع کو بیا ن کرتے ہوئے ان کی بہن لکھتی ہیں :
”سچ تویہ ہے کہ مولانا نے بچپن نہیں دیکھا۔چھ‘ سات برس کی عمر سے ہی معلوم ہوتا تھاکہ ننّھے ننّھے کاندھوں پر ایک سر ہے جس میں ایک بڑا اونچا دما غ ہے۔“

مولا نا آزاد کی تربیت میں ان کے والد کا اہم رول ادا کیا۔ وہ آزاد کو صبح چار بجے تہجد کی نماز کے لئے اٹھا تے اور اسی طرح دن کی تمام نمازیں ادا کرنے کی سخت تا کید کرتے تھے۔

مولاناآزادکی تحریروں کے مطالعے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ آزاد آدمی کو انسان بنا نے اور انسان کو مرد مومن یا کامل انسان بنا نے کی حتی الامکان سعی و جستجو کرنے کی کوشش کی ہے۔ انسانوں اور قوموں کی ترقی کے لئے جب بھی وہ خطاب کرتے تو نہایت سلیس زبان استعمال کرتے تھے۔

مولانا آزاد کا خیال تھا کہ انسان کی پہچان اس کی علمی صلاحیتوں سے ہو ن نا کہ خاندان سے چنانچہ ایک جگہ وہ کہتے ہیں:

” انسان کے لئے معیار ِشرف جوہر ِ ذاتی اور خود حاصل علم وعمل ہے نہ کہ اسلام کی روایت پارینہ اور نسب فروشی کا غرور باطل۔ہم کو ایسا ہونا چاہیے کہ ہمارینسبت سے سارے خاندان کے لوگ پہچانیں نہ کہ اپنی عزت کے لئے خاندان کے شرف ِ رفتہ کا محتاج ہوں۔“
(ص 45 مالانا آزاد ایک عظیم شخصیت : اعجازعلی قریشی ایڈوکیٹ )

یہ وہی بچہ تھا جن کی تقریر کو سن نے کے لئے دور دراز سے لوگ میلوں کا سفر طے کر کے آتے تھے۔یہ وہی شخصیت تھی جو آزادی کے بعد حکومت ِہند کی وزراتِ تعلیم کی ذمہ داری سنبھالی ِاور ہندوستان میں ایک نئے سماج کی بنیاد ڈالی اور تعلیم کو وہ رخ دیا جس پر ہمارا سماج آج بھی کھڑا ہے۔

مولانا آزاد جیسے دیانت دار، امانت دار، دانشور، ہمدرد، ملک وملت کے لئے مخلص اور محسن رہنما ہندوستان کی قسمت میں دوبارہ پیدانہ ہوگا۔ آزاد کی رہنمائی ایک صدی کے لئے نہیں ہے بلکہ آنے والی نسلوں کی رہنمائی کے لئے مشعل ِ راہ ہے۔ یہ عظیم شخصیت ۲۲ فروری۸۵۹۱ء میں ہمیشہ کے لئے دنیافانی سے کوچ کرگئے۔

ایم۔ ریحانہ پروین ناہید ؔ
اردو لکچرر شعبہ اردو
یوگی ویمننا یونیور سٹی، کڑپہ۔516001
آندھرا پردیش
فون نمبر۔ 8019838253
واٹس ایپ نمبر۔8919070939

reehanamuneer6@gmail.com


 نوٹ: اس مضمون کو ایم۔ ریحانہ پروین ناہید نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔ اس سے اردو پوسٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔