Type to search

تلنگانہ

حکومت بدلتی رہی لیکن مسلمانوں کے حالات…

مسلمانوں کے حالات

قلم کار: عبد الرقیب نعمانی۔

ایم ایم جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔


ہندوستان کو آزاد ہوے 75 سال سے زیادہ ہو چکے ہیں لیکن ملک کا مسلمان اب بھی وہیں کے وہیں ٹھہرا ہوا ہے.
حکومت کسی بھی پارٹی کی بنی ہو کسی نے بھی صحیح سے مسلمانوں کی بہتری کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا.
ان 75 سالوں کے دوران مسلمانوں نے کئی بدلاؤ دیکھے ہیں اور آج بھی یہ بہتر زندگی جینے کے خواب آنکھوں میں پالے ہوئے ہیں.

 

آزادی کے اتنے عرصے بیت جانے کے بعد بھی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ مانگا جاتا ہے. چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی انہیں غدار کا لقب دے دیا جاتا ہے جبکہ سچ تو یہ ہے کہ ملک کو آزاد کرانے میں سب سے زیادہ قربانی مسلمانوں نے ہی دی ہے۔

 

ملک کے مسلمانوں کی حالات پر بات کرتے ہوئے راجندر سچر کمیٹی کی رپورٹ کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے معلومات ہوتا ہے‌ کیونکہ اس کا ذکر نہ کرنا خود اپنے آپ سے غداری ہے۔

2005 میں ملک کے اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے مسلمانوں کی سماجی، معاشی اور تعلیمی حالت جاننے کے لیے جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، جسٹس راجندر سچر کمیٹی کی تیار کردہ رپورٹ 30 نومبر 2006 کو لوک سبھا میں پیش کی گئی تھی، رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ملک کے مسلمان معاشی، تعلیمی اور سماجی طور پر بہت پسماندہ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ بات سامنے آئی تھی کہ مسلمانوں کی حالت کئی معاملوں میں دلتوں سے بھی بدتر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کو شعبہ ملازمت میں مناسب ملازمت نہیں ملتی ہے اسی طرح بینک لون لینے میں کئی طرح کے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مسلم معاشرے کے 6 سے 14 سال کے بچے یا تو اسکول نہیں جا پاتے یا اپنی پڑھائی درمیان میں ہی چھوڑ دیتے ہیں، میٹرک کی قومی اوسط 26 فیصد ہے جبکہ مسلمانوں میں یہ صرف 17 فیصد ہے، مسلمانوں میں صرف 50 فیصد بچے مڈل اسکول کا چہرہ دیکھ پاتے ہیں، معاشی حالات خراب ہونے کی وجہ سے بچوں کو ہنر سکھانے کے لیے کام پر لگایا جاتا ہے، سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی تعداد صرف 4.9 فیصد ہے جو کہ آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہے اور اس میں بھی زیادہ تر نچلے عہدوں پر فائز ہیں.

 

 

آئی اے ایس، آئی ایف ایس، آئی پی ایس جیسے اعلیٰ عہدوں پر مسلمان کم ہی نظر آتے ہیں، راجندر سچر کمیٹی نے مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے اس وقت کی یو پی اے منموہن سنگھ حکومت کو کئی مشورے بھی دیے تھے جس میں مسلم اکثریتی علاقوں میں اسکول، آئی ٹی آئی اور پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ کھولنا، اسکالرشپ دینا، بینک کی شاخیں کھولنا، لون کی سہولیات فراہم کرنا، وسائل کا بہتر استعمال کرنا، مساوی مواقع کمیشن کی تشکیل دینا، نیشنل ڈیٹا بینک اور اسسمنٹ اینڈ مانیٹرنگ اتھارٹی وغیرہ کی فراوانی کرنا۔

 

 

قابل ذکر بات یہ ہے کہ رپورٹ آنے کے بعد بھی منموہن سنگھ کی حکومت 2006 سے 2014 تک اقتدار میں رہی لیکن پھر بھی ان کی حکومت نے مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی اور سماجی حالت کو بدلنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا۔

حکومت نے کمیٹی کی اس تجویز کردہ رپورٹ پر کوئی ردعمل نہیں کیا جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کے مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے اور راجندر سچر کمیٹی کی تیار کردہ رپورٹ محض ایک دستاویز بن کر رہ گئی ہے.

یو پی اے حکومت ختم ہونے کے بعد اب بی جے پی کی حکومت آ گی ہے لیکن رپورٹ ابھی تک دستاویز کی شکل میں پڑی ہوئی ہے.

سچر کمیٹی کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ اس رپورٹ نے مسلمانوں کی آنکھیں کھول دی اور ان کی توجہ ان کی اپنی پسماندگی کی طرف مبذول کرائی۔

 

بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد سچر کمیٹی کے نفاذ کا معاملہ بہت پیچھے رہ گیا ہے، آج کا مسلمان اپنے وجود کو بچانے کی لڑائی لڑنے پر مجبور ہے اور وہ مسلمان جو لمبے عرصہ سے حاشیے پر چل رہے تھے اب وہ ملک سے اخراج کی طرف ہیں۔

 

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کو اچھوت بنا دیا گیا ہے، حکمراں جماعت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن بھی ہے جسے مسلمان بھر پور ووٹ دے کر انہیں کامیاب کراتے ہیں، اسی لئے اب سیاسی اور انتظامی طور پر پہلے سے کمزور مسلمانوں کو اب تقریباً لاوارث بنا دیا گیا ہے جس کا حال جاننے کو بھی کوئی تیار نہیں ہے.

2019 کے لوک سبھا انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل کرنے کے بعد بی جے پی حکومت نے یکے بعد دیگرے ایسے قانونی فیصلے لیے جو ایک مکمل اکثریتی ملک بنانے کی جانب ایک بنیادی قدم ہے رکھتا ہے، جس میں بنیادی طور پر شہریت ترمیمی قانون، یونی فارم سول کوڈ، تین طلاق اور جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کا خاتمہ، رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ وغیرہ شامل ہیں۔

 

آزادی کے 75 سال بعد بھی ملک کے مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک اور طویل عرصے سے پسماندہ رہنے والے مسلمانوں کو باہر کرنے کی طرف بڑھنے کا یہ قدم ہندوستانی جمہوریت کے لیے کسی حساب سے ٹھیک نہیں ہے، جس طرح حکومت مسلمانوں کے ساتھ پیش آرہی ہے باوجود اسکے حکومت اور سسٹم پر مسلمانوں کے اعتماد کی جڑیں لمبی ہوتی جارہی ہیں، جان لیں اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو پتہ نہیں ہندوستان جیسے جمہوری ملک کا کیا ہوگا؟


 نوٹ: اس مضمون کو عبد الرقیب نعمانی نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔