Type to search

قومی

جام جہاں نما: اردو کا اولین اخبار، اردو جرنلزم کی ابتدا بنگالی برہمن ہندو کے ذریعہ ہوا

جام جہاں نما
ڈاکٹر محمد ظفر اقبال:

ڈاکٹر محمد ظفر اقبال

ڈاکٹر محمد ظفر اقبال: (پی ایچ ڈی: جرنلزم و ماس کمیونیکیشن)


            آج ہم لوگ جو بڑی آسانی سے اردو اخبارات، رسائل اور خبروں سے استفادہ کررہے ہیں ،کیا آپ کو معلوم ہے اس کی ابتدا کب کہاں اور کس نے کی ؟ آئے آج اس ارٹیکل کے ذریعہ اردو جرنلزم کی ابتدا سے واقف ہو تے ہیں۔

            آج کے موجودہ ہندوستان میں اردو کو مسلمانوں سے جوڑا جاتا ہے اور اردوکو مسلمانوں کی زبان قرار دی جاتی ہے۔ اس تناظر میں جب ہم اردو جرنلزم کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو بڑی حیرت انگیز انکشافات ابھر کر سامنےآتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر بڑی حیرت ہوگی کہ اردو صحافت جیسے آج مسلمانوں کی صحافت کہا جاتا ہے۔

اس کی شروعات کسی مسلمانوں کے ہاتھوں نہیں ہوئی۔ اگر ہم آپ سے کہیں کے اولین اردو اخبار ایک برہمن ہندو نے جاری کیا تو آپ چونکئے گا نہیں۔ ہاںیہ ایک حقیقت ہے کہ اردو جرنلزم کے بانی ایک بنگالی ہندو تھے۔ اردو جرنلزم کے بانی کلکتہ کے ایک بنگالی برہمن ہندو ہری ہردت تھے۔ جنہوں نے اردو کے اولین اخبار”جام جہاں نما” کو کلکتہ سے شائع کیا۔ یہ اخبار 27/مارچ 1822ء کو کلکتہ سےشائع ہوا تھا۔

جام جہاں نما برصغیر ہند کا اولین اردو اخبار تھا۔ اس اخبار کے شائع ہونے کے ساتھ برصغیر ہند میں اردوجرنلزم کا آغاز ہوا اور امسال یعنی 27/مارچ 2022 میں یہ اپنے 200 سال مکمل کررہا ہے۔  1822ء میں کلکتہ سےجام جہاں نما کی اشاعت کے ساتھ ہی  اردوجرنلزم کا آغاز ہوا ۔  ہمارا وطن ہندوستان اردو صحافت کی جائے پیدائش ہے۔

اردو صحافت یہاں پلی بڑھی اور پروان چڑھی ہے۔ اپنے دوسو سال کے نشیب و فراز عرصے میں اردو جرنلزم نے ملک کی تاریخ ،سیاست، معاشیات، سماجیات عرض یہکہ زندگی کے تمام شعبے حیات میں ایک گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ اردو جرنلزم اپنے اندر برصغیر کی 19ویں اور 20ویں صدی کی تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ اس پورے برصغیر یعنی  موجودہ ہندوستان ، پاکستان، بنگلہ دیش ،برما اور افغانستان کی تاریخ اردو جرنلزم کے بنا نا مکمل ہوگا۔ کیونکہ اس دور کے اردواخبارات اپنے صفحات پر اس زمانے کی سیاسی، معاشی اور تمدنی حالات کی عکاسی کرتا ہے۔

            جام جہاں نما برصغیر ہند کا اولین اردو اخبار تھا اور شہر کلکتہ اس کی جائے پیدائش ہے۔  (دیسی زبان ) ہندوستانی زبان میں شائع ہونے والے اخبارات میں جام جہاں نما دوسرا اخبار تھا۔ اس قبل ہندوستانی زبان  میں صرف بنگلہ اخبار ہی شائع ہوئے تھے اس کا نام بنگال گزٹ تھا۔اردو جرنلزم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی ابتدا دیگر تمام دیسی زبانوں کی صحافت سے قبل ہوئی۔اردو سے قبل صرف بنگالی زبان میں اخبار نکالے گئے تھے۔ جو 1816ء میں بنگال گزٹ کے نام سے جاری کیا گیا تھا۔

            ہندوستان میں اخبار بینی کا رواج جیمس اگستس ہککی کے ذریعہ ہوا جس نے 29/جنوری1780ء کو انگریزی زبان کا پہلا اخبار جاری کیا تھا۔ اس اخبار کو ہکی گزٹ یا کلکتہ جرنل ایڈورٹائزر کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ اخبار بھی کلکتہ سے جاری ہو ا تھا۔ دیسی زبانوں میں سب سے پہلا اخبار بنگلہ زبان میں 1816ء میں شائع کیا گیا۔ اس اخبار کا نام بنگال گزٹ تھا۔ اس کے بعد 1822ء میں اردو اخبار کا اجرا ہوا جس کے ساتھ ہی برصغیر میں اردو صحافت کا آغاز ہوا۔ اردو صحافت کی ابتدا گجراتی ، ہندی، مراٹھی ، تامل وغیرہ سے بھی قبل ہوئی۔

آپ کو یہ جان کر بڑی حیرت ہوگی کہ آج جس ہندی جرنلزم کا دور دورا ہے۔ اس کی ابتدا اردو صحافت شروع ہونے کے 4برس بعد ہوئی تھی۔ ہندی کا پہلا اخبار اوٹنڈمارٹنڈ 9/فروری 1826ء کو شائع کیا گیا تھا ۔ اس طرح مراٹھی جرنلزم کی ابتدا 1832ء میں شائع کئے گئے اخبار بمبئی درپن سے ہوا۔ تامل جرنلزم کا آغاز 1831ء میں تامل میگزین کے شائع کئے جانے کے ساتھ ہوا۔

            اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اردو جرنلزم کو دیگر ہندوستانی زبان کے صحافت پر سبقت حاصل ہے۔ اردو کے  پہلےاخبار جام جہاں نماکے بانی ہری پروت تھے جو ایک بنگالی برہمن ہندوتھے۔ انہوں نے کلکتہ سے جب اس اولین اردو اخبار کا اجرا کیا تھا تو اس وقت اردو زبان بنگال میں اتنی مقبول زبان نہیں تھی۔

اسی زمانے میں فارسی افیشیل لینگویج کا درجہ رکھتا تھا اور پڑھے لکھے طبقے میں فارسی پڑھنے کا رواج تھا۔ اردو صرف بول چال کی زبان تھی۔ تعلیم یافتہ طبقہ اردو پڑھنا معیوب سمجھتا تھا۔ اس پس منظر میںاردو میں اخبار جاری کرنا ایک جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔اردو صحافت کے لئے زمین سنگلاخ تھی۔ لیکن اردو سے ہری ہر دت کی دلچسپی اور ان کی دوربین نگاہ نے انہیں اردو اخبار نکالنے پر مجبور کیا۔ اور اس طرح جام جہاں نما 27/مارچ 1822ء کو منظر عام پر آگیا۔

یہ اخبار مرکزی کلکتہ کے 2نمبر کو ٹولہ سے شائع کیا گیا تھا۔ جام جہاں نما کے ایڈیٹر لالہ سدا سکھ لال تھے اور اس کے پرنٹر ولیم ہوپ کنس تھے۔ جام جہاں نما  11نمبر سرکولر روڈ پر واقع میشن پریس میں چھپتا تھا۔ یہ کوارٹر سائز کے 6صفحات پر چھپتا تھا اور ہر چہارشنبہ کو شائع کیا جاتا تھا۔ اس زمانے کے اخبارات آج کے جیسے بڑے کاغذ میں نہیں شائع ہوتے تھے۔ جام جہاں نما کے صفحے کا سائز 20×30/8سنٹی میٹر تھا۔ ہر صفحے میں دو کالم ہوتے تھے اور ایک کالم میں 22سطریں ہوا کرتی تھیں۔ جام جہاں نما کا ماہانہ قیمت 2روپئے تھا۔ آج کے اس فرقہ وارانہ ماحول میں جہاں اردو کو مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا ہے۔

ایسے وقت میں جب ہم اردو جرنلزم کی تاریخ میں نگاہ ڈالتے ہیں تو یہ پتا چلتا ہے کہ اردو صحافت کے فروغ میں غیر مسلموں کا ایک بڑا اہم کردار رہا۔ ہندو وں اور انگریزوں نے اردو صحافت کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اردو اور ہندی کے جھگڑا سے قبل تک بیشتر اردو اخبارات کے مالک مدیر اور قاری ہندو ہوا کرتے تھے۔

انگریز افسران کی ایک بڑی تعداد اردو اخبارات میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اس زمانے میں ہندی زبان کو کوئی مقبولیت حاصل نہیں  تھی یہاں تک کہ ہندو بھی ہندی اخبارات میں دلچسپی نہیں دیکھاتے تھے۔ اردو اور ہندی کے اخبارات میں وہ اردو اخبار کو  ہی ترجیح دیتے تھے۔ اسی سبب ہندی اخبار فروغ نہیں پارہے تھے اور وہ اردو اخبار کے سامنے ٹک پانے سے قاصر رہے ۔اردو اخبار کے پڑھنے والوں کی تعداد ہندی اخبار پڑھنے والوں سے کئی گنا زیادہ تھے۔

 اردو کے اس  اولین اخبار کو خاطر خواہ پزیرائی نا ملنے کے سبب ہری ہردت نے 6شمارے کے بعد جام جہاںنما کی زبان کو تبدیل کردیا اور اب یہ اخبار اردو کے بجائے فارسی میں شائع ہونے لگا۔

  جام جہاں نما کا  پہلا فارسی شمارہ  16مئی  1822کو جاری ہوا۔ زبان تبدیل کرنے کی وجہ یہ رہی کہ اس وقت فارسی افیشیل زبان تھی اور شرفا بھی اسی زبان میں تحریر پڑھنا پسند کرتے تھے۔ ایک برس تک جام جہاں نما کا اردو ورژن بند رہا لیکن  23 مئی  1823کو انہوں نے چار صحفات کا ضمیمہ نکالنا شروع کر دیا۔

جام جہاں نما کی مقبولیت ہونے کے سبب اس کے مالک ہری ہر دت نے خود کا پریس خرید لیا جو مرکزی کلکتہ کے کولو ٹولہ میں لگایا گیا۔ خود کا پریس ہونے پر اخبار میں نڈرپن جھلکنے لگا اور خبروں کے تنوع میں اضافہ ہوگیا۔  اس کے علاوہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے نشان کو بھی ہٹا دیا گیا۔ جام جہاں نما کے مالی امور کی ذمہ داری تارا چند دت کے ہاتھوں میں تھی جو ہری ہردت کے والد تھے۔

جام جہاںنما کتنے عرصے تک برقرار تھا اس پر محققین کی رائے مختلف ہے۔ عبدالستار صدیقی اپنی کتاب (ہندوستان کے پرانے اخبار) میں لکھتے ہیں کہ جام جہاں نما 1845 تک شائع ہوتا رہا۔

   مضمون نگار کا اردو جرنلزم پر تحقیقی مقالہ یو جی سی کی ویب سائیٹ پر دستیاب ہے۔ یہ تحقیقی مقالہ انگریزی زبان میں ہے۔ اس کے علاوہ مضمون  نگار کی ایک کتاب انگریزی زبان میں شائع ہوچکی ہے جس کو کلکتہ پریس کلب  نے شائع کیا  تھا اور اس کا اجرا سابق صدر اے پی جے عبدالکلام نے کیا تھا۔

مصنف سے بذریعہ ای میل (facultyzafar@gmail.com) پر رابطہ کیا جاسکتا ہے


 نوٹ: اس مضمون کو ڈاکٹر محمد ظفر اقبال نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔