Type to search

قومی

وسیع اور کشادہ زندگی

وسیع اور کشادہ زندگی

عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری۔ گوونڈی،ممبئی
9224599910


کسی دانا سے پوچھا گیا کہ شعور اور شور میں کیا فرق ہے کہا صرف ،ع کا۔ (علم اور عقل) کا۔شعور علم واگہی، ادراک اور تفقّہ میں ملفوف ہیے۔آپ اسے feeling بھی کہہ سکتے ہیں ۔ سید احمد خان کہتے ہیں “مجھ کو یہ بات زیادہ خوش کرنے والی نہیں ہے کہ کسی مسلمان نے، بی اے، ایم اے کرلیا۔کیوں کہ میرے نزدیک صرف ڈگری حاصل کر لینے سے علمی و قومی شعور کا صحیح تصور نہیں پیدا ہوتا۔میرا منشاءمسلم نوجوانوں میں علمی لیاقت اور قومی شعور سےہمکنار کرنا ہے”۔
“ایک لمحے کی بصیرت کبھی پوری زندگی کے تجربے سے زیادہ قیمتی ثابت ہوتی ہے۔
آدمی گوشت، ہڈی کے اس بولتے اورچلتے پھرتےڈھانچے کو نہیں کہتےجس پر چند اندرونی خواہشیں سواری کرتی ہیں ۔
آدمی نام ہے شعور اور احساس کا،

آدمی نام ہےاصول و ایمان کا،

آدمی نام ہے سیرت واخلاق کا ۔

اور یہ مخلوق ہمارے ہاں ایک ناقابل ذکر اقلیت کا مقام رکھتی ہے۔
اچھے صالح جذبات، علم وعقل کی کسوئی،منطق، وجدان، مشاہدہ، تجربہ، فہم و فراست۔حکمت،بصیرت،تفکّر، تدبر، فہم، اقبال، دانش مندی، حکمت بالغہ، دانائی، طرز فکر، فطری رجحان،صبغتہ الله ( الله کا رنگ)قوت ارادی، خود اعتمادی، وغیرہ

نہ شعور زندگی ہے نہ مذاق بندگی ہے
مجھے تو بناہ رہا ہے، تیری بندہ پروری ہے

شعور، ملّی، دینی سیاسی،جماعتی،ملکی،قومی،شعور
،معاشرتی،انفرادی،اجتماعی،علمی،عصری،فلاحی،
شعور،۔
تاریخی شعور اس سے حالات کو سمجھنے کی بصیرت۔علمی تفقہ اور اخذواکتساب کی صلاحیت۔جائزہ لینا اوردرست نتیجہ تک رسائی حاصل کر کے درست فیصلہ لینا۔اجتماعی اور ملی کاموں کی انجام دہی کے لیے شعور ی کوشش۔
تعلیمی اداروں اور اساتذہ اورطلبہ میں اعلی شعور اور عمدہ اخلاق وکردار کے ساتھ نمائندگی اور عملی جدوجہد۔ معاشرتی روایات کو سمجھنے اور برتنے کا شعور عطا کرتی ہے۔تنقیدی نگاہوں سے دیکھنے والی آنکھیں بیان کرنےوالی زبان اور سننے والے کان اگر بند ہو جائیں تو سماج خرابیوں کی آماجگاہ بن جائے گااور اس کی اصلاح کسی طرح ممکن نہ ہوگی۔فسد لگا کر زخم سے مواد کی تطہیر کرنا دشمنی نہیں ۔ہر شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرتارہیے، اپبے بارے میں اچھائیوں کے غلو کی بجائے خود احتسابی کرے۔
مل جل کر رہنے والے، دکھ درد بانٹنے والے، سب کے کام آنے والے، ایک دوسرے کا احترام کرنے والے، خوشی وغم میں شریک ہونے والے ۔ایسے ہی لوگ کشادی زندگی کا جامع تصّور رکھتے ہیں۔یہی تصور معاشرے کی بنیادوں کو پائیداری عطا کر تا ہے ۔صحت مند معاشرہ ایسے لوگوں سے وجود میں آتاہےجو لینے کی بجائے دینا جانتے ہوں، جو فرض کی ادائیگی کو مقدم رکھتے ہوں ۔ایسے معاشر ے میں تنگی وتنگ دلی کی بجائے فراخی اور وسعت، ایثار و قربانی Dedication کا دور دورہ ہوتا ہے ۔ممکنات کی دنیا خوشخبری لاتی اور پکار کر کہتی ہے ۔

توہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا

ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے

ایمانیات، اخلاقیات، عبادات، معاملات، معاشرت، استقلال، صحبت صالح،

روح کی بالیدگی، عرفان نفس، تزکیہ نفس، حکمت بالغہ، محبت واحترام انسانیت قدرت کے عظیم تحفے ہیں ان کی قدر کیجیے۔بے شعوری کی زندگی بد تہذیبی کی علامت ہوتی ہے ۔مثبت شعور سے زندگی کی پرورش کیجیے ایک سچا عقیدہ، روشن نظریہ، پائیدار نصب العین اور اسلام کی دعوت کے لیے زندگی کا حقیقی شعور لازم ہے۔
اے الله میں تجھ سے حسن طلب، حسن التجاء، بہترین کامیابی، نیک صلہ، اچھی زندگی اور اچھی موت کا سوال کرتا ہوں ۔

تیرے ائینہ پہ غبار ہے، یہ تیری نظر کا فشار ہے
جنہیں تھا سنورنے کا حوصلہ اسی آئینہ میں سنور گئے

شخصیت کا شعور،ادراک عطا کرتا ہےاور عملی زندگی میں راہ نمائی کرتا ہے۔

صحبت صالح ترا صالح کنند
صحبت طالع ترا طالع کنند

مخزن ہے حکمتوں کا شعور کی بالیدگی کو اس حدیث کے تناظر میں رکھ کر سوچیں ۔۔۔۔۔۔۔آپ صلی الله عليه وسلم کا طریقہ زندگی اور آپ کی سنّت حسنہ۔۔۔۔۔
“*معرفت میرا راس المال ہے۔عقل میرےدین کی اصل ہے۔
محبت میری بنیاد ہے ۔شوق میری سواری ہے۔ذکر الٰہی میراساتھی ہے۔اعتماد میرا خزانہ ہے۔غم میرا رفیق ہے۔علم میراہتھیارہے۔صبر میرالباس ہے۔رضامیرا مال غنیمت ہے۔۔عِجزمیرا فخر ہے۔زُہدمیرا پیشہ ہے، یقین میری طاقت ہے۔صدقہ میرا حامی وسفارشی ہے۔اطاعت میری کفایت کرنے والی ہے۔جہاد میراخُلق ہے۔اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔”(کتاب الشفاء:قاضی عیاض)
جب حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا گورنر بنا کر روانہ کیا گیا تو رسولؐ نے ان سے پوچھا” اے معاذ! فیصلے کس طرح کرو گے؟ ”
انھوں نے جواب دیا، قرآن مجید، کے مطابق کروں گا ۔اگر وہاںنہ پا سکا تو سنت رسولؐ کو مشعل راہ بناؤں گا۔آپ صلعم نے پوچھا اگر سنت رسول بھی خاموش رہی تب؟؟ حضرت معاذ نے جواب دیا تب میں صائب الرائے لوگوں سے مشورہ اور اجتہاد کروں گا۔یہ سن کر آپ صلی الله علیہ وسلم نہایت مسرور ہوئے اور فرمایا
“الله کا شکر ہے جس نے اپنے رسول کے فرستادہ کو ایسی چیز کی توفیق دی جسے اس کا رسول پسند کرتا ہے” ۔(مسلم)

شعور فکر ونظر جزوزندگی ہو جائے
جہاں جہاں بھی نظر جائے روشنی ہو جائے

لوگ سیکھتے ہیں، آگے بڑھتے ہیں اور نتائج حاصل ہوتے ہیں ۔ہم کوشش میں کمی نہ کریں ،کام کو پایہء تکمیل تک پہنچا نا الله کے ہاتھ میں ہے۔

ایسےبن جاؤ کہ “صبرتمہارا شیوہ ہو، سچائی تمہاری خو بو ہو، فرمابرداری تمہاری پہچان ہو، الله کی راہ میں خرچ کر نا تمہاری صفت ہو، رات کے آخری پہر میں استغفار کرنا تمہاری عادت ہو۔”
اس حکمت عملی اور محنت سے، مشاورت اور نظم وضبط سے، اللہ کی نصرت اور عطا سے سب ممکن ہے ۔

عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری
9224599910
abdulazimmku@gmail.com


 نوٹ: اس مضمون کو عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔

Tags:

You Might also Like