Type to search

قومی

کاؤنسلنگ زندگی کو نیا رخ دیتی ہے

کاؤنسلنگ

از قلم: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری


کاؤنسلنگ زندگی کو نیا رخ دیتی ہے

“انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے” (الحدیث)

 جدید علوم میں  شخصیت کا ارتقاء اور آپسی  معاملات کو درست رکھنے ،معاملات  حل کرنے اور فیصلہ کرنے کے لیے کاؤنسلنگ کی بڑی اہمیت ہیے۔  شخصیت فرد کے تمام جسمانی اور نفسیاتی  ڈھانچوں  کی کامل تنظیم کا نام ہے۔ شخصیت کے فروغ کے لیے شرافت، ایمانداری، بہادری، محنت، لگن، محاسبہ نفس، خود احتسابی، تربیت اور موافق حالات کا بڑا دخل  ہوتا ہے۔ تعریف وتوصیف، تحسین، حوصلہ افزائی، انعام واکرام، شائستگی، اپنی اصلاح آپ، سے شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا دونوں موضوعات اپنے دامن میں بڑی وسعت اور ہمہ گیری رکھتے ہیں ۔ اردو زبان میں اب ان موضوعات پر گفتگو ۔مقالے، مضامین اور کتابیں عام ہورہی ہیں اردو کی بہ نسبت انگریزی  زبان  میں بہت زیادہ توجہ اور علمی تیاری سے تحقیق تصنیف و تالیفات ہورہی ہے۔ یہ نفسیاتی اور تجرباتی انسانی جبلتوں کا علم ہے ۔

 ان عنوانات  سے عدم  دلچسپی  رکھنے  کی وجہ  سے مسائل کاحل ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس اہم موضوع  کے لیے مطالعہ کی گنجائش  نکالنے اور کاؤنسلنگ سینٹرز کے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔مسلمان  قدیم علوم  میں  مہارت کے ساتھ ساتھ اسے برتتے تھے۔ حکماء اور فقہہ نے اس کو جلا بخشی اور فروغ دیا۔

اسلام میں  عبادات اور ارکان  خمسہ پر مسلمانوں نے خوب توجہ دی،لیکن معاملات  کی درستی اور اصلاح اور حقوق العباد کی احسن ادائیگی بھر پور توجہ چاہتے ہیں ۔  کاؤنسلنگ میں اخلاقیات، اقدار اور قوانین کا احترام ضروری ہے ۔ بلکہ یہ اس کےستون  ہیں

گھر، خاندان  معاشرے میں جب مسائل سر ابھارنے لگیں،جب مزاج  اور پسند بگڑنے لگیں، رشتوں کا احترام رخصت  ہورہا ہو، شک شبہات، بے اعتمادی  ناچاقی اورہروقت بحث و مباحثہ، تکرار، جھگڑے، زبان درازیاں، مغالطےاور غلط فہمیاں، حیثیت سے زیادہ کا مطالبہ گھر کی فضاکو مکدر کررہا ہے تو ایسی فضا سے بربادی اور بکھراؤ جنم لیتے ہیں ۔اس کھٹ پٹ سے حاصل تو کچھ نہیں  ہوتا البتہ  دونوں  فریق کچھ نہ کچھ کھو  ضرور دیتے ہیں۔ کم از کم اپنا احترام۔ ۔۔۔

مسلم کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  تین موقع پر ایسی بات کی رخصت عطا کرتے ہیں (1)میدان جنگ میں دشمن کے ساتھ چال. (2) اصلاح کی غرض سے خلاف واقعہ بات۔(3) وہ خلاف واقعہ بات جو شوہر بیوی سے اور بیوی شوہر سے،ایک دوسرے کو راضی کرنے کے لیے کہے۔ جب بروقت اور درست سمت میں راہ نمائی نہ ملے توہنستے بستے گھر اجڑ جاتے ہیں ۔سکون اسی صورت میں  میسر آسکتا ہے جب تصادم کے بجائے تعمیر نو ہو، ایک دوسرے کے سکھ دُکھ، عزت نفس، آداب، حقوق وفرائض کا پاس ولحاظ ہو ۔ اپنے گھروں میں  ٹکے بیٹھیں اور اپنے تنازعات کی اصلاح درون خانہ کر لیں ۔اسی میں عافیت اور بھلائی ہے۔۔جہاں ضرورت ہو معافی مانگ لینی چاہیے۔

زندگی تیرے الٹ پھیر  نظر آنے لگے

ایمانیات، اخلاقیات، عبادات، معاملات، معاشرت، روح کی بالیدگی، عرفانِ نفس، تذکیہ نفس، حکمت بالغہ، فہم وفراست، محبت، احترام انسانیت قدرت کے عظیم تحفے ہیں اور انتشار سے بچنے کے آلات (tools)ہیں ۔

جان ومال کا زیاں، بے عزتی، قتل نا حق، ظلم وجبر، نا انصافی وحق تلفی کرنے سے جو بچارہا وہ فطرت کی  وسعت کا حصہ بن جائے گاجس کے نتیجے میں رشدوہدایت، حق وصداقت، استقامت واستقلال، عفو ودرگذر، اعمال خیر،  صبروثبات اور دل کی سکینت  سے مالامال ہوگا۔خواہشات نفس پر لگام اور ریاضت ومجاہدہ نفس آپ کو طمانیت اور سکون کی نعمت عطا کریں گے۔تنگی سے وسعت کے دروازے آپ پر کھل سکتے ہیں  ایسے میں  دعا بہترین ہتھیار ہے۔اگر آپ کاؤنسلنگ میں یقین رکھتے  ہیں اور مسائل کو حل کرنے کے متمنّی ہیں تو پھریہ ذہن سازی، نصیحت، گفتگو، واقعہ، حکایت، تجربے کی باتیں آپ کو بہت کچھ دے جاتیں ہیں، سکھا جاتیں ہیں ۔

خاندان کے سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تجربات وفراست سےفریقین کے درمیان افہام وتفہیم سے شخصیت کے مضبوط پہلو کو ابھارےاور کمزور پہلو کی اصلاح کی طرف متوجہ کرے۔نفسیاتی پہلو سے باہم کاؤنسلنگ (councilling)کر کے معاملات کا نپٹارہ کرائیں اور مسئلے کا حل جلد ہی ڈھونڈنکالیں۔ بروقت فیصلہ بڑی حکیمانہ روش ہے۔

ایک کیس ہسٹری میں بتایا گیا کہ بیوی  کسی بات پر روٹھ کر میکے چلی گئی اورلمبی مدت گزر گئی۔ سسرال والےطلاق سے کم کے مطالبہ پر تیار ہی نہیں تھے۔جب دونوں  فریقین  کی کاونسلنگ کی گئی اور کاونسلر  کی تجویز  پربلا شرط میاں بیوی کو خلوت کا موقع  فراہم  کردیا گیااور انھوں نے  خلوت میں اچھا وقت گزارلیا تو نوے فیصد ان کی رنجش، مسائل ،شکایتیں دور ہوگئیں اور بیوی خوشی خوشی اپنے شوہر کے ساتھ اسی وقت جانے تیار ہوگئ۔

پیار کی میٹھی نظر سے تو نے جب دیکھا مجھے

تلخیاں سب زندگی کی  لطف ساماں ہو گئیں

بس کاؤنسلر کو تھوڑی سی فیس ادا کرنی پڑی۔اور گھر ٹوٹنے سے بچ گیا۔اب وہ جوڑا خوش وخرم زندگی  گزار رہا ہے۔

چمن کے مالی اگر بنالیں موافق اپناشعار اب بھی

چمن میں آسکتی  ہے پلٹ کر روٹھی بہار اب بھی

غصے ،غلط فہمی اور دوراندیشی کی کمی، آپسی جگھڑے ( conflict)، مزاجوں کی آزادی سے کتنے  ہی خاندان طلاق کی کگار تک پہنچ  جاتے ہیں ۔ بعض  عجلت،غصہ اور ضد میں  زندگی تباہ کر لیتے ہیں ۔

خود بھی تنہا ہوئے، مجھ کو بھی تنہا کر دیا

الله کے نزدیک  حلال چیزوں میں سب سے نا پسندیدہ چیز  طلاق ہے ۔(ابوداؤد)

 ایک روزرات میں کھانے  کی میز پر ابو نے سب سے پوچھا کہ “کل سب لوگ  دادا کے یہاں جائیں  گے یا نانا کے یہاں”؟؟  سب نے نعرہ لگایا دادا کے یہاں، بس امّی

 نے کہا نانا کی گھر ۔ ابّا نے فیصلہ سنا دیا، “کل ہم دادا کے گھر جا رہے ہیں” ۔صبح ہوئ تو امّی نے  تولیے سے گیلے بال خشک کرتے  ہوئے کہا، چلو جلدی  تیار ہو جاؤ، “ہم نانا کے یہاں جا رہے ہیں” ۔ہم سب منہ دیکھتے اور مبہوت رہ گئے۔اباکی طرف دیکھا، انھوں نے  اخبار میں  آنکھیں  گاڑ دیں ۔اب ہم سمجھ گئے  کہ کمرے کی کاؤنسلنگ جیت گئی اور جمہور یت ہار گئی۔

 صورت حال کچھ بھی ہو اصلاح کی ہر ممکن کوشش میں باہم کاؤنسلنگ اہم رول ادا کرتی ہے ۔

“جدائی وافتراق سے بہتر مصالحت اور اصلاح ہے”۔

ذراسی بات تھی، بات آگئی جدائی تک

ہنسی نے چھوڑ دیا لاکے جگ ہنسائی تک

معاشرے میں ایسے ہزاروں  خاندان  ہیں جو ذرا سی انا، اکڑ، گھمنڈ، میکے کا غرور، دوسروں  کے چڑھانے اور نقالی، خود ساختہ  اصول، رسم ورواج  کی پاسداری سے اپنی ازدواجی اور خاندانی زندگی اجیرن کر بیٹھے ہیں۔

 سماج کے نا عاقبت اندیش اب انھیں مروجہ حلالہ کے کریہہ و گھناونےفعل کا مشورہ  دے کر خاندان اور زوجین کی عزّت نفس کو مزید ٹھیس پہنچاتے ہیں ۔عدالتوں کے کیسیس میں چکر پہ چکر اوربچا کچھا سرمایہ اور وقت برباد ہورہا ہیے ۔  جوانی اور دوبارہ شادی کی عمر نکلتی چلی جارہی ہیے۔ عدالت سےفیصلہ حاصل کرنے تک حالات اپنا گھنا وناچہرہ دکھا نے لگ جاتے ہیں۔ بیٹی میکے میں اب بوجھ لگنے  لگی ہیے۔ بچّے، باپ اور ددیالی رشتوں کی رفاقت اور پیار سے محروم ہو رہیے ہیں۔انھیں ناکردہ گناہ کی سزا مل رہی ہے۔

اب پچھتائے کا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت

راہ کانٹوں بھری  گلشن میں بدل سکتی تھی

ایک دوجے کو کبھی ہم جو سمجھتے  جاناں

 کثیر تعداد ایسی بھی ہیے جن کی بر وقت کاؤنسلنگ نے گھر برباد اور بکھرنے سے بچا لیا ہیے۔

میاں بیوی کے درمیان پیارومحبت ،مودتاور التفات ہی وہ چیزہےجو تمام مسائل کا حل ہے- کوشش ہو کہ دونوں کے مزاج، طور طریقے پسند ناپسنداس طرح میل کھا جا ئیں کہ جدائی کی نوبت ہی نہ آنے پائے اور زوجین ایک دوسرے کو(Adjust)کرتے ہوئے اپنی زندگی کی دو پہیہ گاڑی کو سکون سے  چلاتے رہیں،آگے بڑھاتے رہیں۔

“ازدواجی زندگی میں خوشگوار تعلقات بنیادی حیثیت رکھتے ہیں” ۔اس کے بغیر کوئی بھی خاندان  مضبوط اورمستحکم نہیں  ہو سکتا ۔ اس پہلو سےخصوصی  دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔ “نرمی کےبرتاؤ میں سب سے بڑی طاقت ہے” ۔کتنی ہی مصیبتیں ایسی ہیں جن سے آدمی تنگ آجاتا ہے، سمجھتا ہیے کہ اب ان سے نکلنا محال  ہے ،حالانکہ  الله ہی اس سے چھٹکارا  دلاسکتا ہے ۔الله انسان کو تنگی سے نکال کرفراخی عطا کر دیتاہے یہ اس کی قدرت ہے۔

اگر آپ سے گناہ  سرزد ہوگیا ہے، توبہ کرلیجیے۔غلطی ہو گئی ہے، اصلاح کر لیجیے۔ معافی  تلافی  کرلیجیے۔

انا، غصہ، لالچ، تکبر، شہرت، نام ونمود، حرص،ہٹ دھرمی، جھوٹی شان، حسد، اور بڑا بننے کے شوق میں  اپنی قیمتی زندگی کا سودا مت کیجیے۔اسے سنواریے، نکھاریے اور خوش وخرم پر مسرت زندگی  گزاریے۔

عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری

9224599910

abdulazimmku@gmail. com


 نوٹ: اس مضمون کو عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔

Tags:

You Might also Like