Type to search

تعلیم اور ملازمت

مولانا ابو الکلام آزاد کی یوم پیدائش پر خصوصی

امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کا آنا  فردوس بریں  سے روئے زمیں پر اور مسلم قائدین سے ملاقاتیں کرنا

نومبر ۱۱، مولانا آزاد کی یو م پیدائش  پر خاص مضمون

پروفیسر محسن عثمانی ندوی


           گیارہ نومبر کی تاریخ جب قریب آتی ہے، اور ایک سال کی گردش مکمل ہوجاتی ہے، تو لوگوں کو مولانا آزاد کی یاد آتی ہے، اور ان کا یوم پیدائش منایا جاتا ہے، رسالوں اور اخبارات میں لوگ انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ ماضی میں مولانا کی بصیرت مندانہ قیادت کو مسلمانوں کے ایک طبقے نے ٹھکرا دیا تھا، اور مولانا اپنی قوم کے اس رویہ سے بہت ملول اور دلگرفتہ تھے، انھوں نے جس راہ پر مسلمانوں کو چلنے کی دعوت دی مسلمانوں کے  ایک طبقے نے اس راستے پر چلنے سے انکار کردیا، اور بقول مولانا ابو الکلام آزاد:”جب انھوں نے قوم کو پکارا تو زبان تراش دی گئی، جب انھوں نے چلنا چاہا ان کے پاؤں کاٹ دئے گئے، جب انھوں نے قدم اٹھایا تو ان کے ہاتھ قلم کردئے گئے، جب انھوں نے کروٹ لینی چاہی تو ان کی کمر توڑ دی گئی“۔انھوں نے محسوس کیا کہ وہ ایک دور افتادہ صدا ہیں اور اپنے ملک میں رہتے ہوئے بھی غریب الوطن ہیں۔مولانا آزاد کی جنت میں خواہش ہوئی کہ وہ  سرزمین ہند پر اس ملت مسلمہ کو جسے چھوڑ کر آئے تھے  جاکر دیکھیں  ان کی خواہش پوری کی گئی اور ان کو زمین پر آنے کا اجازت نامہ مل گیا وہ قائدین سے ملے وہ مسلمانوں کی حالت دیکھ کر شکوہ سنج اور گریہ کناں  تھے۔

چند سال پہلے جسونت سنگھ کی ایک کتاب آئی تھی، جس نے ملک کے دانشور حلقے میں یہ بحث چھیڑ دی تھی کہ تقسیم ملک کا ذمہ دار کون ہے، مولانا آزاد کی مشہور کتاب ”India wins Freedom“ آزادئ ہند کی معتبر ترین دستا ویز ہے، اس کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی تقسیم کے سب سے بڑے مخالف مولانا ابو الکلام آزاد تھے۔جب سردار پٹیل تقسیم ملک کے  علم بردار بن گئے، اور جب گاندھی جی نے بھی سر تسلیم خم کر دیا اور گھٹنے ٹیک دئے، اور کانگریس کے بہت سارے لیڈر سر زمین وطن کو کاٹ دینے اور بانٹ دینے کے لئے تیار ہوگئے، تو اس وقت تنہا مولانا ابو الکلام آزادتھے جو تقسیم کے نظریہ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے، انھوں نے کانگریس کے لیڈر کی حیثیت سے بھی سونچا، اور مسلمان کی حیثیت سے بھی سوچا، ان کی بصیرت نے ان کو اس نتیجہ تک پہونچا یاتھا کہ غیر منقسم ہندوستان میں جو مسلم اکثریت کے علاقے ہیں، وہ تو تقسیم کے بعد بھی مسلمانوں کے اسی طرح قبضہ وتصرف میں رہیں گے، جیسے پہلے تھے، البتہ باقی ہندوستان میں مسلمان خونخوار درندوں کے رحم وکرم پر رہ جائیں گے، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا، چنانچہ تقسیم سے پہلے اپنی زندگی میں انہوں نے خبر دار کیا تھا:

”آج یہ جذبات سے الگ ہوکر ان نتائج پر غور کریں جو پاکستان بن جانے کے بعد لازماً پیدا ہوں گے، ہندوستان دو مملکتوں میں تقسیم ہوجائے گا،

ایک میں مسلمان اور دوسری میں ہندو اکثریت میں ہوں گے۔ ہندوستان کے مختلف صوبوں میں ساڑے تین کروڑ مسلمان اقلیت کی شکل میں کچھ

اس طرح بکھر کر رہ جائیں گے، کہ وہ اس وقت کی ہندو اکثریت کے صوبوں میں آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ کمزور ہوں گے۔جن علاقوں کو وہ

ایک ہزار سال سے اپنا وطن بنائے ہوئے تھے، جنھیں انھوں نے مسلم تہذیب وثقافت کے اہم مراکز بنا رکھے ہیں، وہاں ایک روز صبح کو جب بیدار

ہوں گے تو انھیں اچانک معلوم ہوگا کہ وہ اجنبی اور غیر ملکی بن گئے، صنعتی، تعلیمی اور معاشی طور پر پسماندہ ہوتے ہوئے وہ اس صورت میں بننے والے

خالص ہند وراج کے رحم وکرم پر زندہ رہنے پر مجبور ہوں گے“۔(India wins freedom P.111)

تقسیم کے بعد حالات نے ثابت کردیا کہ مولانا آزاد کی پیشنگوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی، تقدیر کے قاضی کا یہ فیصلہ تھا، کہ ملک تقسیم ہوجائے،چنانچہ ملک تقسیم ہوا، اور مولانا آزاد کی خواہش کے علی الرغم منقسم ہوا۔ بلا شبہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ملک کی تقسیم چاہتا تھا، لیکن اس کی ذمہ داری سے کانگریس اور ملک کے رہنماؤں کو بری الذمہ نہیں کیا جا سکتا، اور بالکل یہی بات بی جے پی کے لیڈر جسونت سنگھ نے اپنی کتاب میں کہی ہے، اور اس کتاب کے بارے میں اس قدر شور رست وخیز اٹھا،کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ بی جے پی کی قیادت میں ہلچل مچ گئی سینہ کو بی اور باہمی دشنام طرازی کا سلسلہ شروع ہوگیا، پارٹی سے لوگ استعفی دینے لگے اور بالآخر جسونت سنگھ کو پارٹی سے نکال دیا گیا، کیوں کہ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے جو آسانی کے ساتھ حلق سے نیچے نہیں اترتا۔

یہ واقعہ ہے کہ ہندؤں کے انتہاء پسند گروپ نے اس ملک میں آزادی سے پہلے ایسے سخت حالات پیدا کردیے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ غلط سہی  لیکن رد عمل کا شکار ہوگیا، تقسیم کا مطالبہ کرنے لگا اور پھر ہندو ذہنیت کے بعض کانگریسی قائدین بھی ملک کی تقسیم کو اپنے مفاد میں سمجھنے لگے، تاکہ ملک میں کوئی ان پر قد غن نہ لگائے، وہ جس طرح  چاہیں آمرانہ انداز میں دندناتے پھریں، اور کوئی ان کو روک ٹوک کرنے والا نہ ہو۔

 مولانا آزاد اور مسلمانوں کے بہت سے صاحب علم ودانش اور بصیرت مند طبقے کی مرضی کے خلاف ملک کی تقسیم وجود میں آگئی، اور پھر وہی ہوا جس کا مولانا آزاد نے بہت پہلے خطرہ محسوس کرلیا تھا۔ اب ہندوستان میں جو مسلمان تھے ولرزاں وترساں تھے، اور خوف واندیشے میں گرفتار تھے، آزمائش کے اس نازک

وقت میں بھی مولانا آزاد نے ہی انھیں ڈھارس بندھائی اور اس بات کی تلقین کی کہ وہ وطن سے فرار اختیار کرنے کی کوشش نہ کریں، انھوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ تذبذب کا راستہ چھوڑ دیں، شک سے ہاتھ اٹھالیں، اور بد عملی کو ترک کردیں۔ انھوں نے کہا مسلمان اور بزدلی مسلمان اور اشتعال ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے، سچے مسلمان کو تو نہ کوئی طمع ہلا سکتی ہے اور نہ کوئی خوف ڈرا سکتا ہے، انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کو حاکمانہ اقتدار کے مدرسے سے وفاداری کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں اور نہ انھیں کاسا لیسی کی زندگی اختیار کرنا چاہیے، اگر وہ ملک سے بھاگنے کے لیے خود تیار نہیں تو پھر کوئی جماعت انھیں بھگا نہیں سکتی، انھوں نے کہا یہ ملک ہمارا ہے، اور اس کی تقدیر کے بنیادی فیصلے ہماری آواز کے بغیر ادھورے رہیں گے۔

تقدیر کا فیصلہ تھا کہ پاکستان بن جائے اور پاکستان بن گیا، اور اس کے بعد کاتب تقدیر آج تک ہاتھ میں قلم لیے ہوئے کھڑا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان عزت وآبرو کے ساتھ جینے کے لیے کونسی راہ اختیار کرتے ہیں، مولانا آزاد نیدوسری زندگی میں  ایک خصوصی اجازت نامہ لے کر اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں موب   لنچنگ اور مسلم آزاری  کےٍ زمانہ میں  سرزمین ہند پر نزول اجلال فرمایا اور یہ دیکھاکہ جو اسلام ومسلمانوں کے دشمن تھے وہ اب بر سر اقتدار اورمسلمانوں کے خلاف دست بہ تلوار  ہوچکے ہیں،  اور  اب مسلمانوں کے جان پر بن آئی ہے۔ مولانا آزادنے مسلمانوں کو اور ان کی تنظیموں کو فکر انگیز اور  بصیرت افروز مشورے دیئے۔ مولانا اس دنیا میں بالشتیوں کے درمیان ایک دراز قد اور کشیدہ قامت انسان تھے  وہ بے بصیرت انسانوں کے  دیس میں صاحب بصیرت تھے، اصحاب کہف کی طرح انہیں بھی سو سال کی نیند کے بعد خواب سے بیدار ہونے کا حکم دیا گیا اور ماب لینچینگ  کے  عہد میں  ان کی خواہش پر دوبارہ  زمین پر بھیجا گیا۔  انہوں نے چشم سر سے  اور چشم تر سے دیکھاکہ مسلمانوں کی جان پر بن آئی ہے اور انہیں  سر بازار تہ تیغ کیا جاتا ہے،ظلم کے پہاڑ ان پر توڑے جاتے ہیں  مولانا آزاد نے اس غم  کے ساتھ ملک کادورہ کیا  اور مسلم قائدین سے ملے  ان کو مشورے دئے اور ان کو نصیحتیں کیں۔

         مولانا  اس وقت کے مسلم سیاسی قائدین  سے یہ کہتے ہوئے نظر آئے    ” تم نے ہزاروں مسلمانوں  کے  جلوس میں گرم تقریروں اور شعلہ نوائیوں  سے خوب واہ واہ وصول کی ہے لیکن کیا ان تقریروں سے ظلم میں کوئی کمی آئی ہے  پارلیامنٹ کے  اندر اور باہر تمہاری تقریروں نے زخم پر نمک چھڑکا ہے،  الکشن میں ہر جگہ تم نے اپنی پارٹی  کے لئے  امیدوار کھڑے کئے اس سے  پولارائیزیشن اور بھی بڑھا ہے ہندو مسلم عصبیت میں اضافہ ہوا ہے۔   تم نے دو سیٹیں جیتیں  تو تمہارے دشمنوں کو آٹھ سیٹیں پہلے سے  زیادہ ملیں،تم نے اپنا امیدوار کھڑا کر کے  بی جے پی مخالف ووٹوں کوتقسیم کردیا  اور بی جے پی کی جیت میں مدد کی مسلمانوں کو اسمبلی اور پارلیامنٹ میں آنا چاہئے لیکن اس کے کوئی اور راستہ ڈھونڈھو۔یہ بیرونی استعمار نہیں ہے کہ ہماری آتش فشاں تقریروں  نے  اس کے قصر استبداد میں  زلزلہ ڈال دیا تھایہ تمہارے ہم وطن ہیں جو تم پر ظلم کا پہاڑ توڑ رہے ہیں۔ اس وقت اسلام دشمنی کی جو سونامی آئی ہوئی ہے اس کا جواب علاج بالمثل نہیں ہے، نفرت کا جواب نفرت سے نہیں دیا جاسکتا ہے سیاسی سطح پر یہ کوشش ضرور ہونی چاہئے کہ مسلمانوں کے ووٹ منقسم نہ ہوں اور سیکولر جماعتیں متحد ہوکر جمہوری طریقہ سے  الکشن لڑ یں  اور فسطائی قوتوں کو شکست دیں۔ لیکن ایک سیاسی پارٹی بنا کر ہر جگہ  امیدوار کھڑا کرنا صحیح اسٹریٹجی نہیں ہے۔اس سے کہیں بہترمسلمانوں کے لئے تعلیمی اور اقتصادی ترقی کا لائحہ عمل تیار کرنا ہے  اور سیاست سے باہر کوشش کرنا ہے  مسلمان  کی تعلیمی حالت اور اقبتصادی حالت  دلتوں سے زیادہ بدتر ہے  کام کا میدان مسلمالنوں کی تعلیمی اور اقتصادی حالت کو بہتر بنانا ہے اور اخلاقی تربیت پر زور دینا ہے۔  قرآن مجید نے حسن اخلاق اور حسن کردار اور حسن سیرت  پر بہت زور دیا ہے ۔ قرآن مجید نے ان حالات میں جن سے مسلمان گذر رہے ہیں ہماری بہتر رہنمائی کی ہے اس نے کہا ہے  ادفع بالتی ہی  احسن یعنی دفاع کرو اس  طریقہ سے جو سب سے بہتر ہو  اس اخلاق سے جو سب سے افضل ہو اس کردار سے جو سب سے اعلی ہو،  تم نے قرآن پر عمل کرنے کے بجائے نفرت کا جواب نفرت سے دیا۔  تمہاری گذشتہ نسل نے  برادران وطن کی تنگ دلی  اور بیگانگی  اور کینہ توزی  اور رذائل اخلاق کا جواب  ملک کے بٹوارے کا مطالبہ کرکے دیا  اور پھر تمہارا مطالبہ پورا کردیا گیا،  اب تمہارے برادران وطن کا کہنا ہے کہ تمہاری منہ بھرائی ہوچکی، تمہیں تمہارا حصہ رسدی مل چکا  اب جوہندوستان ہے وہ بھارت ہے۔ تم خود سوچو کہ تمہارے اس مطالبہ سے  ہندوستان کے مسلمان کس حال زار سے گذر رہے ہیں،  اسلام کی پوری تاریخ میں کہیں بھی مسلمانوں نے  اسی درجہ ناقص العقل ہونے کا ثبوت دیا ہے  جتنا تم نے اور تمہارے  ہم خیال لوگوں نے ماضی میں دیا ہے۔یہ مسئلہ کا کیسا حل تھا کہ تھوڑے مسلمانوں کو آسائش میسر آجائے  اور باقی مسلمانوں کو درندوں کا لقمہ تر بننے کے لئے چھوڑدیا جائے۔دنیا کی تاریخ میں  بنی اسرائیل  پر بھی قبطیوں  اور فرعون کی جانب سے سخت وقت پڑا تھا  اس وقت  حضرت موسی  تمام  اسرائیلیوں کو نکال کر لے گئے تھے  انہوں نے یہ نہیں کیا تھا کہ اپنی قوم کے آدھے لوگوں کو فرعون کی بربریت سے نکال لیں اور قوم کے نصف کو کلبہ احزان میں اور دار  المحن میں  ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیں۔جسٹس کاٹجو نے اب یہ بیان دیا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ وہی ہونے والا ہے جو جرمنی میں  یہودیوں کے ساتھ پیش آیا  یعنی ہولوکاسٹ کا واقعہ۔کتنا مخدوش مستقبل ہوچکا ہے مسلمانوں کا

۔جمہوریت  کا خاتمہ ہوچکا ہے  مسلمانوں کی  سیاسی پارٹیوں کے  ان قائدین  سے جنہوں نے پاکستان کا مطالبہ کیا تھا یہ کہنے کا جی چاہتا ہے کہ   ”اے بادصبا ایں ہمہ آوردہ تست“آج  مسلمان نوجوان  ملک چھوڑ کرکناڈا  جانا چاہ رہے ہیں  کچھ لوگوں نے  ترکی کے لئے رخت سفر باندھا ہے  کخھ لوگ پوچھتے ہیں کہ یورپ میں سٹل ہونے کا کیا طرییقہ ہے۔  ہندو مسلمان سے اس قدر نفرت کرنے لگا ہے کہ ٹیکسی بک کراکر اسے چھوڑ دیتا ہے کہ اس کا ڈرائیور مسلمان ہے  ہندووں میں کچھ لوگ  ہوٹل سے کھانے کا آڈر دے کر  صرف اس لئے واپس کر رہے ہیں کہ لانے والا مسلمان ہے۔کشمیر میں جو پابندیاں لگائی گئی ہیں اس سے وہاں کی زندگی اجیرن  ہو گئی ہے ملک میں  رات دن  ہر طرف پاکستان کے خلاف آواز بلند کی جارہی ہے  اور مقبوضہ کشمیر کو واپس لینے کی بات کی جارہی ہے۔اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں بدزبانی عام ہوتی جارہی ہے حالات ناقابل بیان حد تک خراب ہوچکے ہیں۔سماج میں جتنی نفرت پھیل چکی ہے  اتنی کبھی نہیں پھیلی تھی۔ہر طرف خون کی نہر ہے  ہر طرف مسلم دشمنی کا زہر ہے  ہر طرف ہجومی تشدد کا قہر ہے  یہ کنول کا پھول کھلاتی ہوئی سحر ہے  اور اب جو ظلم  اور نا انصافی کے خلاف  آواز  بلند کرے گا  اس پر ہندوستان کی شبیہ خراب کرنے کا مقدمہ دائر کردیا جائے گا۔اسے سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جائے گا۔

    امام الہند مولانا ابو اکلام آزاد نے خدا کی اجازت سے خلد سے خاکدان ارضی پر نزول اجلال فرمایا تو ان کا پہلا احساس یہ تھا کہ سیکولر ہندوستان دم توڑ رہا ہے ہجومی تشدد کو کار ثواب سمجھا جارہا ہے  بی جے پی  کے قائد کی طر ف سے دیوالی کے موقعہ پر  زیور کے بجائے تلوار او ر خمجر خریدنے کاسبق پڑھایا جارہا ہے  کیونکہ بابری مسجد کا فیصلہ سامنے آنے والا ہے،یوپی کا وزیر اعلی جو بی جے پی کا قائد ہے  مسلمانوں کو دھمکی دیتا ہے  ہندوستان کو مسلمانوں کے لئے شام  بنا دیا جائے گا جہاں دس لاکھ مسلمان قتل ہوئے اور ایک کروڑ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، ہندوگردی بڑھ گئی ہے  ہندو راشٹر کی طرف قدم اٹھ چکے ہیں اور مسلمان لرزاں اور ترساں ہیں  اور ہندووں کے چہرہ پر فاتحانہ مسکراہٹ ہے۔ مولانا توایک خصوصی اجازت نامہ لے کر  مسلمانوں کا حال معلوم کرنے آئے  تھے  وہ مسلمانوں کی دینی تنظیموں  کے قائدین  سے بھی ملے ۔ جمیعۃ علماء کے صدر مولانا ارشد مدنی  سے ان کی ملاقات ہوئی  اور  امام الہند نے کہا کہ تمہارےٍ والد مولانا حسین احمد مدنی  ہمارے ہم سفر اور ہم صفیر تھے  اللہ نے انہیں سیاسی بصیرت بھی عطا کی تھی  لیکن قوم نے نہ ہماری بات سنی  نہ ان کی۔ہماری باتیں صدا بصحراء ہوگئیں اور نقارخانہ میں طوطی کی آواز۔لیکن سیاسی بساط سے ہٹ کر تعلیم وتربیت  کے میدان میں دار العلوم دیوبند نے وہ کردار ادا نہیں کیادین اسلام کا جو تقاضہ تھا  اور جس کا وقت بھی تقاضہ کررہا تھا۔ تمام انبیاء کرام  کے بارے میں قرآن نے کہا ہے وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ یعنی ہم نے جتنے رسول بھیجے وہ سب لسان قوم میں خطاب کرنے والے تھے لیکن مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے تلامذہ نے جتنے دینی مدارس قائم کئے وہ سب  لسان المسلمین  میں خطاب کرنے والے  علماء  تیار کررہے  تھے  ہمارے علماء برادران وطن کے مذاہب  سے بھی ناواقف تھے گویا برادران وطن کواپنے کام کا میدان بنانے کا ذہن ہی  موجودنہیں تھا۔  اور یہ احساس بھی نہیں  تھا کہ یہ  ذہن انبیائی منہج  کے خلاف ہے  اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے علماء میدان میں نہیں آسکے جو قوم کو لسان قوم میں خطاب کرسکیں چنانچہ اسلام کے  تعارف کا اور مسلمانوں سے برادران وطن کو مانوس کرنے کا  ضروری کام نہیں ہوسکا۔مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان خلیج بہت گہری ہوچکی ہے آج مسلمانوں کی حالت زار کی وجہ وہ دوری بھی  ہے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان واقع ہوچکی ہے۔امام الہند  نے کہا  کہ آپ نے بہت اچھا کیا کہ موہن بھاگوت  سے ملاقات کی، یہی کام  ملک گیر سطح پر ہونا چاہئے، قیادت کو قیادت سے  خواص کو خواص سے عوام کو عوام  سے محلہ والوں کو محلہ والوں سے رابطہ قائم کرنا چاہئے  Mass contact کا کام  ہونا چاہئے۔مسلمانوں اور برادران وطن کے درمیان جو خلیج ہے  اس کو پاٹنا بہت ضروری ہے۔دلتوں سے، مظلوم طبقات سے خاص طور پر رابطہ قائم کرنا ضروری ہے۔ جمیعۃ علماء کو اس کام کے لئے آگے آنا چاہئے اور لسان قوم سے واقف علماء کی کھیپ دار العلوم میں  تیار کرنی چاہئے  امام الہند مولانا آزاد نے یہ بھی کہا کہ آپ کے بھتیجہ نے کشمیر کے سلسلہ میں حکومت کے اقدامات کی جو حمایت کی ہے  وہ بے ضرورت اپنے کو وفادار ثابت کرنے کی کوشش ہے  تملق اور چاپلوسی  کے رویہ سے مسلمانوں کو بلند ہونا چاہئے۔اصل کام برادران  وطن  تک  اسلام کا پیغام پہونچانا ہے،اسلامی فکر کے حاملین کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ کام انجام دیں  یہ کام بہت پہلے شروع ہونا چاہئے تھا  اور اب مزیددیر خوفناک عواقب پر منتج ہوگی۔اس کام کو مختلف تحریکیں اور ادارے اور مدرسے انجام دے سکتے ہیں۔اسلام کی قولی اور عملی شہادت  دینے کے لئے جو فرض کے درجہ میں ہے  غیریت اور اجنبیت کے اس حجاب کو ختم کرنا ہوگا  جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان  حائل ہے۔ہمارے روایتی علماء کاذہن ان کاموں کی طرف نہیں جاتا ہے۔سب سی بڑی مشکل یہ ہے کہ  ہمارے علماء ہر معاملہ میں خود کو خود کفیل سمجھتے ہیں ۔  مسلمانوں کے حال زار اور زبونی کی اصل وجہ علماء سمجھ نہیں سکے۔اصل وجہ ہے کہتاریخ میں  مسلم علماء کا ہندوستانی  قوم سے لسان قوم میں تخاطب نہیں ہوسکا ہے۔جو  غلطی ہم نے صدیوں سال سے کی ہے اور اسپین میں بھی کی تھی اس  غلطی کودرست کرنے کی ضرورت ہے۔

    مولانا آزاد اکیسویں صدی میں مسلمانوں کی حالت پر بے حد ملول  اور دل گرفتہ تھے  اوراپنی خود داری اور وضع داری کو بالائے طاق رکھ کر  تمام قائدین سے  ملاقاتیں کر رہے تھے  وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ بنگلہ والی مسجد  نظام الدین میں بھی پہونچ گئے  جہاں سیکڑوں مسلمان  ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے تھے۔ مولانا آزاد نے امیر جماعت سے گفتگو کی اور یہ کہا کہ تبلیغ کے  اصولوں میں ایک اصول  اکرام مسلم بھی ہے  اور یہ اچھا اصول ہے  لیکن  خدمت  خلق اور احترام انسانیت کو بھی  ایک اصول کے طور پر داخل کردیتے تو تبلیغ سے وابستہ مسلمانوں میں غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کا مزاج بھی بنتا  اور غیر مسلموں کے ذہن میں اسلام اور مسلمانوں  کے بارے میں  قدر دانی کے جذبات پیدا ہوتے، اسلام کا نمونہ اور اس کی عملی تصویر سامنے آتی زبان سے نہ سہی عمل سے اسلام کی تصویر پیش کی جاتی، اور اس طریقہ سے اسلام کے تعارف کی راہ کھل جاتی۔اور اللہ کی نصرت نازل ہوتی۔افسوس کہ مسلم رہنماوں نے  اور علماء نے اس کام کی اہمیت کونہیں سیمجھا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مسلمانوں کے مستقبل پر اندیشوں کے بادل منڈلارہے ہیں۔

 مولانا آزاد  علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی  بھی پہنچ گئے  وایس چانسلر اور دوسرے ذمہ داروں سے ملاقات کی، مولانا آزاد  کے اعزاز میں اہل علم ودانش  جمع ہوئے اور مولانا آزاد سے تقریر کی فرمائش کی گئی۔  مولانا آزاد نے سرسید سے اپنی ذہنی اور فکر ی وابستگی کا اظہار کیا ، انہوں نے کہا  ہمارے روایتی ذہن کو ختم کرنے میں سرسید کی تحریروں کا بڑا ہاتھ ہے  اور میری شخصیت بڑی حدتک ان کے انقلابی خیالات کی رہین منت ہے۔لیکن اس کے باوجود ہم نے ان کی اندھی تقلید نہیں کی  اور ہمارا یہ خیال رہا ہے کہ  ہندوستان کے نزاعی مسئلہ کا  اور مسلمانوں کے مسئلہ کا حل متحدہ قومیت میں پوشیدہ ہے اسلام کے علوم وفنون اسلام کی تہذیب پر مجھے فخر ہے اور یہ میرا قیمتی سرمایہ ہے، لیکن اسی کے ساتھ میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں  اور میں ہندوستان کی ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ناقابل فراموش  عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے۔ اعلی عصری تعلیم جو اس دانشگاہ کا مقصد اور منصوبہ ہے  مجھے اس  سے  اتفاق ہے لیکن اس یونیورسیٹی کو اس سے بھی اونچا مقصد پیش نظر رکھنا چاہئے  اور وہ ہے  عالمی سطح پر اور علمی سطح پر عصری  اسلوب میں اور عصری زبانوں میں  اسلام کا تعارف۔

    مولانا  ابو الکلام آزاد شبلی سے بھی غیر معمولی طور متاثر تھے اس لئے وہ علی گڑہ سے نکلے  تو سیدھے لکھنو پہونچے ۔ ندوۃ العلماء کے اساتذہ نے ان کا والہانہ  استقبال کیا  مولانا نے وہاں بھی تقریر کی۔ شبلی سے اور ندوۃ العلماء  سے اپنی تاریخی وابستگی کا اظہار کیا  انہوں نے  کہا کہ یہ شبلی کی دور اندیشی تھی کہ انہوں  نصاب میں  نہ صرف انگریزی بلکہ سنسکر ت کو بھی داخل نصاب کرنے پر اصرار کیا  وہ چاہتے تھے کہ ندوہ سے ایسے بیدار مغز علماء فارغ ہوں  جو انگریزی زبان میں  اہل زبان  کے سامنے اسلام کی مؤثر ترجمانی کرسکیں اگر ندوہ سے انگریزی کے ماہر  علماء  فارغ ہوں یا سنسکرت جاننے والے  ہندی زبان پر  عبور رکھنے والے  اور ہندوستانی مذاہب  کا تحقیقی مطالعہ کرنے والے  علماء نکل سکیں  جو برادران وطن کے ساتھ ڈائلاگ کرسکیں  اور اسلام کی مؤثر ترجمانی کرسکیں  تو یہ بہت مفید کام ہوگا  انہوں مولانا ابو الحسن علی ندوی  کا بھی نام لیا  اور ان کی تحریک پیام انسانیت کی ستائش کی  انہوں نے کہا کہ یہ مولانا علی میاں کا وہ وژن ہے جو دوسرے علماء کو میسر نہیں ہوسکا ،اس ملک میں اصل کام  برادران وطن سے  راہ ورسم  استوار کرنا ہے اور ان کو اسلام اور مسلمانوں سے مانوس کرنا ہے اور اس کے بغیر  اسلام اور مسلمانوں کا مستقبل خطرہ میں ہے  اور دعوت کا کام بھی اس کے بغیر انجام نہیں باسکتاہے۔

    دہلی میں مولانا آزاد سے ملاقات کے لئے  جماعت اسلامی  کے رہنما بھی آئے  مولانا آزاد نے  بہت سراہا اور کہا کہ ہندوستان کی تمام زبانوں میں قرآن  کے  ترجمے مہیا کرنا  اور لسان قوم میں اسلامی لٹریچر تیار کرنا  جماعت اسلامی کا بڑا امتیاز ہے  مولانا نے کہا کہ ہمیں افسوس ہوتا ہے کہ مسلمان علماء ان باتوں کی قدر نہیں کرتے  اور اچھی باتوں کا اعتراف نہیں کرتے۔انہوں نے  یاد دلایا  کہ مولانا مودودی نے  مدراس کے خطبات میں  ہندو مسلم خلیج کو پاٹنے کا مشورہ دیا  تھا اور بلا شبہہ یہ بہت قیمتی مشورہ تھا۔

  مولانا آزادکو انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹیز  نے بھی دعوت دی مولاناآزاد  نے انگریزی اور دوسری زبانوں میں اعلی علمی لٹریچر دیکھ کر اطمنان کا اظہار کیا مسلمانوں کے ساتھ تعلیم یافتہ  غیر مسلموں کو ساتھ لے کر چلنے کے طریقہ کار کی مولانا آزاد نے بہت پذیرائی کی۔انہوں نے ڈاکٹر منظورعالم کو  نصیحت کی کہ وہ  انسٹیٹوٹ اور ملی کونسل کے ذریعہ مسلمانوں کے تعلیمی اور اقصادی مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں  اور اس کے لئے عملی اقدامات کریں  کیونکہ ۴۸ فی صد مسلمان  غریب اور نا خواندہ ہیں  اور مسائل حیات میں مبتلا ہیں  مسلمانوں میں ایک تعلیمی تحریک کی ضرورت ہے۔ مولانا آزاد نے جماعت اہل حدیث اور امارت شرعیہ کے لوگوں سے بھی  ملاقاتیں کیں  اضطرابی کیفیت نے مولانا آزاد کو  مونگیر تک پہونچادیا  انہوں نے  پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکرٹری  اورموجودہ امیر شریعت کو کہا کہ امارت شرعیہ کے قیام میں  ہمارا بھی حصہ ہے مولانا سجاد کے اشتراک سے ہم  نے امارت شرعیہ قائم کی تھی  ہم امارت شرعیہ کے نظریہ کے حامی اور داعی رہے ہیں لیکن  عزیزم!”ایاز قدر خود بشناس“ آپ کا اس منصب بلند پر فائز ہونا آپ کی ”مساعی جمیلہ وحمیدہ“کا نتیجہ ہے، ہمیں  تمام تفصیلات کا علم ہے۔ بہتر ہوتا کہ آپ اپنے نام کے ساتھ مفکر اسلام کے لقب کی تشہیر نہ کرتے کہ یہ قبا  آپ کی قامت پر راست نہیں آتی ہے اپنے نام کے ساتھ مفکر اسلام لکھنے اور لکھوانے سے کوئی مفکر اسلام نہیں ہوجاتا ہے کوئی ایک شخص بھی آپ کو مفکر اسلام نہیں مانتا ہے  اور خاص بات یہ کہ آپ خود اپنے آپ کو مفکر اسلام نہیں سمجھتے ہیں۔ آپ کے خانہ دل میں مولانا علی میاں سے جو کدورت اور پر خاش بیٹھی ہوئی  اسی کینہ اور کدورت  کی وجہ سے آپ خود کو مفکر اسلام لکھتے اور لکھواتے ہیں   گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ”وہ اگر مفکر اسلام تھے  تو ہم بھی کسی سے کم نہیں“ یاد رکھئے آپ کے  روئے زیباکو ”مفکر اسلام“کے غازہ کی ضرورت نہیں ہے  اور لوگ تو محض عالم دین ہیں  آپ بہت بڑے عالم دین اور مفکر نہ سہی  لیکن مسلمانوں کے  امیر ہیں  قائد ہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ آپ بہادر انسان ہیں آپ کے  والد بھی بہت بہادر انسان تھے۔ اس وقت کشمیر میں جوبے پناہ ظلم ہورہاہے  اس پر عبد اللہ بخاری کی طرح آپ نے کیوں نہیں کوئی بیان دیا جماعت اسلاي نے اور ملی کونسل نے تجویزیں پاس کی ہیں ۔اگر آپ  خوکو مسلمانوں کا سیاسی قائد سمجھتے ہیں اور ہیں توایسے مواقع پر خاموش رہنا مناسب نہیں۔آپ جس جلیل القدر منصب پر فائز ہوچکے ہیں آپ خود کو اس کا حقدار بنائیے۔آپ کی شخصیت کا ایک پہلو بہت قابل قدر ہے اور وہ ہے سیاست اور سیاست دانوں سے واقفیت۔اس بارہ خاص میں آپ کو دوسرے علماء پر فوقیت حاصل ہے  آپ کا رحمانی ۰۳  بھی ملت کے لئے  ایک  مفید اور ثمر آور  کام ہے، آپ ملت کے لئے بہت مفید بن سکتے ہیں بس ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اپنی کمزوریوں  پر قابو پالیں۔اپنی زبان کی حفاظت کریں اسلئے کہ آپ جو بولتے ہیں اس کی خبر دور تک جاتی ہے

                                                   پاک رکھ اپنی زباں تلمیذرحمانی ہے  تو 

                                                    ہو نہ جائے دیکھنا تیری صدا بے آبرو

میں امام الہند ابو الکلام آزاد ہوں،  مجھے حق ہے کہ آپ کو نصیحت کروں ،اگرچہ اعالی وادانی سب کو آپ ادب پر مجبور کرتے ہیں آپ کا منصب ادب کا متقاضی ہے  خدا را اپنی شخصیت کو منصب کے مطابق بنایے شخصیت کی تھوڑی سی تراش خراش کرلیجئے  تو آپ دیدہ بینائے قوم بن سکتے ہیں ۔رہا پرسنل لا بورڈ  کے  طلاق ثلاثہ کا مسئلہ، اس میں آپ تنہا نہیں جامد اور راکد ذہن وفکر کے علماء ہیں جو مدرسوں میں قدوری پڑھاتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ ہم فقیہ ہیں اور ہمارے بارے میں ہی یہ حدیث وارد ہوئی ہے  من یجعل اللہ لہ خیرا یفقہ فی الدین جسے اللہ خیر عطا کرتا ہے  اسے دین  کا فقیہ بنا دیتا ہے۔یہ وہ علماء ہیں جنہیں اندازہ ہی نہیں کہ اس ملک میں مسلمانوں کیساتھ کیا ہونے والا ہے اور یہ کہ ہم نے ماضی میں کیا غلطی کی ہے۔ان لوگوں کے پاس نہ خیر اندیشی ہے نہ دور اندیشی نہ دروں بینی نہ دور بینی نہ وسعت فہم نہ وسعت نگاہ۔ یوسف القرضاوی جیسی شخصیات  سے ان کا  مکالمہ اور مفاہمہ نہیں ہوا تو اندیشہ ہے کہ ان کو ذہنی وسعت کبھی نصیب نہیں ہوسکے گی۔میری خواہش ہے کہ آپ  جامد علماء کے خول سے باہر نکلیں، جامعہ رحمانیہ میں  لسان قوم کے ماہرین  اور ہندوستانی  مذاہب  سے پورے طور پر واقف علماء تیار کریں  قدیم مدارس کی  کہنہ  اور روایتی قیادت سے خیر کی توقع کم ہے یعنی بے زبانی کی وجہ سے  قدیم علماء حالات کی تبدیلی میں کوئی رول ادا نہیں کرسکتے ہیں ان بزرگان دین کو معلوم نہیں کہ نئے حالات میں کیا کرنا ہے   جامعہ رحمانی مونگیر،جامعہ اسلامیہ بھٹکل،  دار الامور  میسور، مدرسۃ العلوم الاسلامیہ  علی گڑھ  جامعۃ الامام سید احمد شہید لکھنو  جیسےٍ اداروں سے  اور نسبتا  تازہ کار اور کار گذار علماء سے  توقع زیادہ ہے  اس بات کو ذہن میں راسخ کرنے کی ضرورت ہے  کہ برادران وطن سے رابطہ قائم کئے بغیر مسئلہ حل نہیں  ہوسکتا ہے  اس کے بغیر ہندتو  کے  فیل بے زنجیر پر قابو پانا ممکن نہیں ہے۔موہن بھاگوت  نے اعلان کردیا ہے کہ ہندوستان  ہندو راشٹر ہے  وزیر داخلہ کہ چکے ہیں کہ باہر سے آنے والے  مسلمانوں کے سوا کسی کو خوف زدہ  ہونے کی ضرورت نہیں ہے یعنی مسلمانوں کو نکالا جائے گا ۔

                                       چھپا کر آستیں میں  بجلیاں رکھی ہیں گردوں  نے

                                       عنادل باغ کے  غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں 

ان حالات میں مئے غفلت کے سرمست علماء کو معلوم ہونا چاہئے کہ لسان قوم  کے ذریعہ  موثر روابط کے بغیر حالات نہیں بدلیں گے ،نخل تمنا ہرا نہیں ہوگا، روابط ہمارے بھی برادران وطن سے تھے  لیکن یہ روابط صرف سیاسی تھے اور اس وقت سیکولر ماحول تھا۔ اب اصل ضرورت یہ ہے کہ دین اسلام کے تعارف والا رابطہ ہو،  اگردینی تعلیمی  اداروں میں  لسان قوم والی اور رابطہ والی  فکر کی پذیرائی نہیں ہوئی تو ملک وملت کا خداحافظ ہے ۔  نہ مسلم پرسنل لا بورڈ  مسئلہ کاحل ہے نہ صرف امارت شرعیہ۔

                                       چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر

                                      کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کار تریاقی

            مولانا آزاد ہندوستانی مسلمانوں کی زار و زبوں حالت کو دیکھ کر بہت زیادہ  دلگرفتہ تھے انہوں نے کہا کہ ان حالات کی پیشینگوئی میں نے اس وقت کی تھی جب  میں زندہ تھا اور زمین پر تھا  میں  اب  حالات کا مشاہدہ کرنے آیا ہوں  تو محسوس کرتا ہوں کہ میری پیشین گوئی کا ایک ایک حرف صحیح تھا۔حالات اس سے بھی زیاد ہ دلخراش ہوچکے ہیں  اور  مجھے ایسے مسلم قائدین نظر نہیں آتے جو نفرت کے زہر کا تریاق مہیا کرسکیں۔ میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ ہزاروں چمکتی ہوئی تلواریں مسلم محلوں پر مسلم جماعتوں کے دفتر پر مسلم دینی اداروں پر حملہ آور ہیں۔ یہ  ڈراونا خواب  واقعہ نہ بنے  اس کے لئے برادران وطن سے بڑے پیمانہ پر رابطہ قائم کرنا ہوگا مسلم  قائدین نے بھی تک اس  کام اور پروگرام کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے مسلمانوں کے دینی تعلیمی ادارے  بے اثر اور بے فیض ہو کر رہ گئے ہیں۔ مولانا آزاد علماء قائدین کو نصیحتوں کی سوغات دے کر اللہ پر توکل کی تلقین کرکے واپس آسمان پر چلے گئے اور یہ کہہ گئے کہ ہم نے جو باتیں کہی ہیں انہیں تحریک کے طور پر برپا ہونا چاہئے کیونکہ یہی باتیں ترقی  اور بقاکی ضمانت ہیں۔

Tags: