Type to search

تلنگانہ

شادی کی عمر اضافے سے بہتر تعلیم کا انتظام ہے

شادی کی عمر

امام علی مقصود فلاحی۔

متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔


شادی ایک پاکیزہ اور مقدس بندھن ہے جس سے کئی رشتے وجود میں آتے ہیں۔
اس لحاظ سے اگر شادی کو تمام انسانی رشتوں کی “ماں” کہا جائے تو نا مناسب نہ ہوگا۔

شادی اگر مناسب وقت پر کی جائے تو بہتر، افضل و خیر ہے اور تاخیر سے کی جائے تو کئی ایک مسائل کو اپنے ساتھ لے آتی ہے جیسے بدکاری و بد فعلی، زناکاری و فحاشی وغیرہ۔

شادی اگر بر وقت ہو تو اس سے وجود میں آنے والا خاندان اپنے فرائض بہتر انداز میں سر انجام دے سکتا ہے اسی لئے اسلام نے شادی کے سلسلے میں بہت زیادہ تاکید کی ہے اور اسے انسانی سماج کی بنیادی ضرورت قرار دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام میں لڑکا لڑکی جب بالغ ہوجاتے ہیں اور ان کا جوڑا مل جاتا ہے تو شادی میں تاخیر کرنے سے منع کر کے جلد سے جلد نکاح کرنے کو کہا گیا ہے۔

لڑکے اور لڑکی دونوں شریعت اسلامیہ میں 15 سال کی عمر کے بعد بالغ ہوجاتے ہیں، جسکی وجہ سے یہ کہاجاتاہے ہے اسلام پندرہ یا سولہ سال کے بعد شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

اور ہمارے ملک ہندوستان میں بھی پہلے یہی رواج تھا، اور پندرہ سال کی عمر میں شادی و بیاہ کرنا عام تھا‌ لیکن
“The Prohibition of Child Marriage Act 2006
کے تحت یہ قانون بنایا گیا کہ شادی کے لئے لڑکے کی عمر کم سے کم اکیس سال ہونی چاہئے اور لڑکی کی عمر کم سے کم اٹھارہ سال ہونی چاہئے۔

اسی لئے سرکاری قانون کے اعتبار سے لڑکی کی عمر شادی کے لیے 18 سال ، اور لڑکے کی عمر 21 سال ہے۔
لیکن اب مودی حکومت ایک اور نیا نیا قانون لانے کی تیاری میں ہے۔

قارئین! ملک میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر میں جلد از جلد اضافہ کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس تعلق سے بدھ کے روز کابینہ کے اجلاس میں ایک بل کو منظوری دی گئی ہے۔

مرکزی کابینہ کے اجلاس میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر بڑھانے کے متعلق ایک بل کو منظوری دی گئی ہے، چونکہ گزشتہ سال وزیر اعظم نریندر مودی کے لال قلعہ سے دی گئی اپنی تقریر میں حکومت کی منشا ظاہر کی تھی، اور کہا تھا کہ قوت بخش تغذیہ کی کمی سے بیٹیوں کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ ان شادی مناسب وقت پر ہوں۔

اس لئے اب اس پر عمل کرتے ہوئے اب لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر کی حد جلد ہی 18 سے بڑھا کر 21 سال کرنے کی تیاری چل رہی ہے۔

حکومت کا یہ کہنا ہے کہ اس فیصلے سے خواتین کو بااختیار بنایاجائے گا، لیکن ملک کی ایک بڑی تعداد حکومت کے اس فیصلہ سے متفق نہیں ہے، ان کاکہنا ہے کہ ہندوستان کے موجودہ منظر نامہ میں خواتین کی جو صورتحال ہے اس میں شادی کی عمر میں اضافہ سے نہ صرف ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا بلکہ والدین کی فکر و تشویش کا دورانیہ بھی بڑھ جائے گا۔

کیونکہ ہمارے ملک ہندوستان میں لڑکیوں کو عام طور پر “پرایادھن” سمجھاجاتا ہے، پچپن ہی سے انکی شادی کا انتظام کیا جاتا ہے، اور جیسے جیسے انکی بلوغت کا وقت قریب آتا جاتا ہے، ویسے ویسے والدین کا احساس بھی بڑھتا جاتا ہے، اور ان کے بالغ ہوتے ہی انکی شادی کا انتظام کیا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں جب اس بلوغت کی عمر میں وہ لڑکیاں گھروں سے باہر نکلتی ہیں تب والدین تشویش کے شکار رہتے ہیں، لیکن جب شادی کیلئے بلوغت کے بعدبھی مزید تین سالوں تک شادی و بیاہ کرنے سے روکا جائے گا تو اس سے معاشرے میں نہ صرف بے راہ روی بڑھے گی بلکہ ایسے قانون کی وجہ سے آبادی کا ایک بڑا حصہ غیر قانونی طور پر شادی کرنے پربھی مجبو ر ہوجائے گا۔

کیونکہ ابھی جب لڑکیوں کی شادی کی عمر کم از کم 18 سال ہونے کے باوجود بھی پورے ملک میں کم عمری کی شادی جاری ہے، تو مزید تین سال بڑھانے سے اور قانون نافذ کرنے سے کیا ملے گا۔

غور کرنے کا مقام تو یہ ہے کہ جب ایک لڑکی 18 سال کی عمر میں پہنچ جاتی ہے تو معاہدوں پر دستخط بھی کرسکتی، کاروبار شروع کر سکتی ہے، وزیراعظم، ایم پی، ایم ایل اے کو منتخب بھی کر سکتی ہے، تو جنسی تعلقات میں رہنے کے لیے یا اپنے شریک حیات کا انتخاب کر کے وہ شادی کیوں نہیں کرسکتی؟ وہ اپنے حقوق کا پورا کیوں نہیں کر سکتی، ان لڑکیوں کا تو کوئی مسئلہ نہیں کھڑا ہوگا جو لاکھوں اور اربوں میں رہتی ہیں، ان لڑکیوں کا تو کچھ نہیں ہوگا جنکے پاس مال و دولت سب کچھ ہے، وہ تو پچیس سال کے بعد بھی شادی کریں گے تب بھی شادی ہو جائے گی۔

معاملہ تو ان لڑکیوں کا پھنسے گا جنکا تعلق غریب گھرانے سے ہوگا، جنکے پاس سر چھپانے کو ڈوپٹہ بھی نہیں ہوگا، جنکے پاس رہنے کو خود کا گھر بھی نہیں ہوگا۔

ارے بہتر تو یہ ہوتا کہ حکومت شادی کی عمر میں اضافہ کے بجائے لڑکیوں کی تعلیم اور ان کیلئے سہولیات میں اضافہ پر غور کرتی، انکی غربت اور انکی پڑھائی لکھائی پر تبصرہ کرتی، انہیں اچھے کپڑے اور اچھی غذا فراہم کرتی اور معاشرے میں اس کے لئے بیداری کی مہم شروع کرتی، آج بہت ساری ایسی لڑکیاں ہیں جو پڑھنا تو چاہتی ہیں، آگے بھی بڑھنا چاہتی ہیں، بچپن سے انکا سپنا بھی ہوتا ہے کہ بڑے ہوکر وہ ڈاکٹر یا انجینئر بنیں گی، جوں جوں وہ جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتی ہیں، والدین کو ضعیفی بھی آپکڑتی ہے، پھر جب وہ لڑکیا کالج میں داخلہ لیتی ہیں تو والد کا کاروبار بھی تھپ ہوجاتا ہے جسکی وجہ سے وہ لڑکیاں کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ تو لے لیتی ہیں لیکن فیس نہ بھر پانے کی وجہ سے اپنی امیدوں اور کاوشوں کو دفنا کر درمیان ہی میں تعلیم کی رسی کو چھوڑ دیتی ہیں۔

اسی لئے حکومت کو تو یہ چاہئے تھا کہ وہ ایک صحت مند معاشرہ تیار کرتی، لڑکیوں کے دیگر معاملات پر غور کرتی اور صحت مند معاشرے کی تشکیل کرتی، اور صحت مند معاشرہ شادی و بیاہ کی عمر میں اضافہ کے قانون سے نہیں بنتا ہے بلکہ تعلیم و تربیت کے بہتر انتظام سے بنتا ہے، اور لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں میں بھی احساس ذمہ داری پیدا کرنے سے بنتا ہے۔


 نوٹ: اس مضمون کو امام علی بن مقصود شیخ فلاحی نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔

Tags:

You Might also Like