Type to search

تعلیم اور ملازمت

اردو یونیورسٹی میں بزم ادب کا افتتاحی اجلاس

پروفیسر بیگ احساس، پروفیسر نسیم الدین فریس اور پروفیسر فاروق بخشی کی مخاطبت


حیدرآباد، 12 مارچ (پریس نوٹ) ”شعبہ  اردو کی جانب سے ’بزم ادب ‘کا قیام ایک خوش آئند قدم ہے اور اس کے ذریعے نہ صرف طلبا کی ہمہ جہت ترقی ممکن ہو سکے گی بلکہ ان کی زبان اور بیان میں بھی نکھار پیدا ہوگا۔وہ الفاظ کا محلِ استعمال،تلفظ اور ادائیگی کے طور طریقوں سے واقف ہوسکیں گے۔ لکھنا سیکھنے کے لیے پڑھنا بے حد ضروری ہے۔ ہمارے طالب علموں کو چاہیے کہ وہ جس صنف میں بھی طبع آزمائی کرناچاہتے ہیںاس صنف کے اہم قلم کاروں کی تخلیقات کا غائر مطالعہ کریں۔ اس سے انھیں اس فن کی ماہیئت سمجھنے اوراپنی تحریروں میں اسے برتنے میں آسانی ہوگی۔ کامیاب ادیب یا شاعر بننے کے لیے گہرا مطالعہ اور مشق و ریاضت بنیادی شرائط ہیں۔“ ان خیالات کا اظہار ممتا ز افسانہ نگار، نقاد اور شعبہ  اردو ، سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد کے سابق صدر پروفیسرمحمد بیگ احساس نے آج بزمِ ادب، شعبہ اردو،مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کی جانب سے اسکول براے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات کے کانفرنس ہال میں منعقدہ افتتاحی ادبی اجلاس میں کیا۔

پروفیسر محمد نسیم الدین فریس ،صدر شعبہ  اردو اور ڈین اسکول براے السنہ، لسانیات و ہندوستانیات نے استقبالیہ خطاب میں شعبہ اردو کی مختصر تاریخ اور اس کی حصول یابیوں سے واقف کرایا۔انھوں نے بزم ادب کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شعبہ  اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے طلباوطالبات میںعلم و ادب کاذوق وشوق پروا ن چڑھانے، انھیں اردو تہذیب و ثقافت کے عظیم ورثے سے واقف کرانے اور ان میں مسابقت کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ایسی طلبا مرکوز علمی و ادبی سرگرمیوں اور ثقافتی پروگراموں کے انعقاد کی ضرورت ہے جن میں شعبے کے تمام طلباوطالبات کی شمولیت ممکن ہوسکے ۔پروفیسر فاروق بخشی نے مختصر لیکن جامع انداز میں پروفیسر بیگ احساس کا تعارف پیش کیا اور ان کی افسانہ نگاری کے نمایاں پہلوو ¿ں سے واقف کرایا۔ انھوںنے بیانیہ کی واپسی میںپروفیسر بیگ احساس کی کوششوںکا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ عصر حاضر کے دیگر افسانہ نگاروں سے ان کا موازنہ بھی کیا اور ان کی فنی خصوصیات اجاگر کیں۔

اس موقعے پر ڈاکٹر شمس الہدیٰ دریابادی نے شعبہ  اردو کی علمی و ثقافتی سرگرمیوں، اس کے فارغین کی کامیابیوں اور پورے ملک کے اردو طلبہ کا مرکز توجہ ہونے کے امتیاز پر مختصر روشنی ڈالی۔بزم ادب کے نگراں ڈاکٹر فیروز عالم نے بتایا کہ مختلف علمی و ادبی سرگرمیوں اور ثقافتی پروگراموںکے ذریعے طلبا و طالبات کی ہمہ جہت شخصی ترقی اوراُن میں خود اعتمادی پیدا کرنے میں مدد ملے گی ۔ وہ نہ صرف قومی سطح کے مسابقتی امتحانات میں کامیابی حاصل کرسکیں گے بلکہ اردو کی تہذیبی و ثقافتی روایات سے بھی واقف ہو سکیں گے۔ ’بزم ادب‘کی جانب سے طلباو طالبات کی تخلیقی، تحقیقی وتنقیدی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے علمی،ادبی وثقافتی پروگراموں کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اس کی جانب سے سیمنار، سمپوزیم،مضمون نویسی ، بیت بازی اور کوئزوغیرہ کے مقابلے بھی منعقد کیے جائیں گے۔

ادبی اجلاس میںشعبے کے طلبا سلمان فارسی،محمد شبلی آزاد،محمد طفیل، عثمان غنی، محمد ریاض،حفیظ الرحمن، اعجاز احمد،ارشد علی، محمد طیب، شیخ اسما امروز اور محمد بشیر نے شعری و نثری تخلیقات اور مضامین پیش کیے۔ جلسے کا آغاز تجمل حق کی قرا ت کلام پاک سے ہوا۔ نظامت بزم ادب کے شریک کنوینر شبلی آزاد نے کی اور اظہار تشکر بزم ادب کی کنوینر شیخ اسما امروز نے کیا۔جلسے میں شعبہ اردو کے علاوہ دیگر شعبوں کے اساتذہ اور آفیسران بھی موجود تھے۔

Tags:

You Might also Like