Type to search

تعلیم اور ملازمت

مولانا ابوالکلام آزاد – الہلال کا اڈیٹر صحافت کی آڑ میں سیاست پر گہری نظر رکھتا ہے

الہلال کا اڈیٹر

امام علی مقصود شیخ فلاحی۔


مولانا ابوالکلام آزاد کی ہمہ گیر شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ وہ عظیم شخصیت ہے جسکے بہت سے پہلو ہیں، جہاں وہ جنگ آزادی کے رہبر تھے تو وہیں ایک عالم دین بھی تھے۔ وہ قرآن ، فقہ، علم الکلام ، اور علم الحدیث میں کافی صلاحیت کے مالک بھی تھے ۔ نیز ایک شعلہ بیان مقرر اور بے مثال مجتہد ، عظیم دانشور بھی تھے، ساتھ ہی ساتھ ایک زبر دست سیاستدان اور صحافی بھی تھے۔

آپ کی سیاست کا یہ عالم‌ تھا کہ آپ ملک سے سامراج کو نکالنے کی دل و جان سے کوشش کرتے رہے ، یہی وجہ تھی کہ آپ کانگریس کی پر زور حمایت بھی کرتے رہے اور اپنے اس موقف کو کامیاب بنانے کی کوشش بھی کرتے رہے۔

قارئین ! آزادی ہند اور سامراج سے آپ کی ایک ایسی لڑائی اور ایک ایسا موضوع تھا جو آپ‌کی زندگی پر آفتاب عالم کی طرح تابندہ و درخشندہ تھا۔

علاوہ ازیں آپ ایک زبردست صحافی بھی تھے ، صحافت سے انہیں اتنا لگاؤ تھا کہ دس برس کے عمر ہی میں آپ نے صحافت کو اپنا مشن بنایا۔ پھر اپنی مجاہدانہ صحافتی مصروفیات و مشغولیات میں تا زمانہ دراز منہمک رہے اور پھر بیسویںصدی کے آغازمیں ایک انقلابی صحافی کے روپ میں اردو صحافت کے افق پرظاہر ہوئے اور پھر اردوصحافت کی دنیا میں ایک کھلبلی مچا کر رکھ دی اور اردو صحافت کو ایک نئی راہ دکھلائی۔

قارئین ! مولانا ابوالکلام آزاد یہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے متکبر و مجرم سامراج کے آہنی پنجہ سے ہندوستان کو آزاد کرانے میں کافی سرگرم رہے۔

یہی وجہ تھی کہ آپ نے ہمیشہ اپنے ہر اخبار کو انگریز حکومت کے خلاف لکھنے اور اس کو ملک سے نکالنے کے لئے وقف کردیا تھا۔

آپ کے اخبار کے تمام تر جملوں میں ایسی تاثیر ہوا کرتی تھی کہ بہت ہی کم مدت میں آپ کے خیالات و تاثرات اور آپ کی باتیں آگ کی طرح ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی تھی۔

! قارئین

مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت کا اگر اندازہ لگایا جاے تو معلوم ہوگا کہ وہ اس قدر جامع و مانع تھا کہ آپ ہمیشہ مستقبل میں آنے والے حالات سے صرف مسلمان قوم کو ہی نہیں بلکہ ساری ہندوستانی قوم کو باخبر کرتے تھے ۔

سیاست کے میدان میں آپ نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ کسی سے چھپی بھی نہیں ہیں۔ مولانا کی سیاسی بصیرت کا اعتراف ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے جن الفاظ میں کیا ہے، اگر ان کے الفاظ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مولانا آزاد سیاسی میدان میں کس قدر متحرک تھے، نہرو جی کہتے ہیں :

’’میں صرف عملی سیاست ہی نہیں جانتا، سیاست کا طالب علم بھی ہوں۔ علم سیاست کی کتابیں مجھ سے زیادہہندوستان میں کسی اور نے نہیں پڑھیں۔ میں تیسرے چوتھے سال یوروپ کابھی دورہ کرتاہوں۔جہاں سیاست کا قریب سے مطالعہ کرنے کا موقع ملتاہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ میں نے سیاست کے تازہ ترین علم سے واقفیت حاصل کرلی ہے۔ لیکن جب ہندوستان پہنچ کر مولانا آزاد سے باتیں کرتا ہوں تو معلوم ہوتاہے کہ وہ اب بھی بہت آگے ہیں‘‘۔

غرض یہ کہ مولانا آزاد سیاسی میدان میں اس قدر آزاد اور بیباک سوچ کے حامل تھے کہ حکومت ہمیشہ حیرت و متعجب میں سرگرداں رہتی تھی اور حکومت یہ بھی سمجھ چکی تھی کہ الہلال کا ایڈیٹر صحافت کی آڑ میں ہندوستانی سیاست پر گہر ی نظر رکھتا ہے اور لوگوں میں سیاسی شعور بیدا رکرنے میں لگا رہتا ہے۔

یہی وجہ رہی کہ حکومت نے ’’الہلال‘‘ کے ایڈیٹر کے حوصلے پست کرنے کے لئے اور اس کے پرعزم ارادوں پر کاری ضرب لگانے کے لئے 18؍ستمبر 1913کو الہلال کے اڈیٹر سے اچانک 2 ہزار روپے بطور ضمانت اس امید سے طلب کی کہ وہ حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں گے، لیکن مولاناآزاد حکومت کے اس چال سے غافل نہیں تھے ۔ انہیں اس بات کا اندیشہ تھا کہ حکومت ایسا کر سکتی ہے، یہی وجہ تھی کہ وہ اس کے لیے تیار تھے اور پہلے سے ہی رقم جمع کرنا شروع کر دیا تھا۔

لہذا جب یہ نوبت آئی تو الہلال کا اڈیٹر بجائے گھٹنے ٹیکنے کے ضمانت ادا کر کے اپنے وجو دکو زندہ اور زبان کو آزاد رکھنے میں کامیاب رہا۔  حیات ابوالکلام آزاد، صفحہ 332

Email : imamalishaikh333@gmail.com


 نوٹ: اس مضمون کو امام علی بن مقصود شیخ فلاحی نے لکھا ہے۔ یہ مضمون نگار کی اپنی ذاتی رائے ہے۔ اسے بنا ردوبدل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔اس سے اردو پوسٹ کا کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کی سچائی یا کسی بھی طرح کی کسی معلومات کے لیے اردو پوسٹ کسی طرح کا جواب دہ نہیں ہے اور نہ ہی اردو پوسٹ اس کی کسی طرح کی تصدیق کرتا ہے۔